از:محمد ناصررضاامجدی، ناسک مہاراشٹر، رکن : تحریک فروغ اسلام دہلی بابری مسجد کے دلال قسط دوم قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
بابری مسجد کے دلال قسط دوم
ذرا غور کریں اور پہچانیں ان سفید پوشوں کو،جب بابری مسجد کیس کی سماعت الہ آباد ہائیکورٹ میں اپنے عروج پر تھی اچانک ایک جماعت دعویدار بن کر سامنے آتی ہے، ان کا دعوی تھا جب تقسیم کے بعد اوقاف کا بٹوارہ ہوا تھا تو بابری مسجد ان کے حصے میں آئی تھی،لہذا متولی تو شیعۃ تھا لیکن غلطی سے امام سنی رکھ لیا گیا لہذا بابری مسجد کا فیصلہ ان کے حق میں کر دیا جائے، قابل غوراس ڈرامہ کا کلائمیکس ہے، اس ڈرامے کی منزل سپریم کورٹ میں اس نہج پر جا کر رکی کہ ہم مندر بنانے میں رضامند ہیں۔
اب آئیے بابری مسجد کے سب سے بڑے دلال ،سب سے بڑے لٹیرے لیکن عوام کے سامنے سب سے زیادہ کریڈٹ کی حق دار سمجھے جانے والے افراد کی داستان ملاحظہ کریں،وہ جماعت جو وقف پر قابض ہے جن کے کارناموں پربہت سے شکوک و شبہات اور الزامات بالخصوص بابری مسجد سانحہ پر عائد ہوتے رہے ہیں
جن کے غیر ذمہ دارانہ کار ناموں ہی کی وجہ سے آج ایک بابری مسجد نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی ہی مساجد اورخانقاہیں ہیں جو یا تو اکثر غاصبانہ قبضوں کی شکار ہیں یا مکمل ختم ہو چکے ہیں لیکن عوام کی نظر میں یہی ہیرو ہیں، یہی نجات دہندہ ہیں ،لیکن آخر کار بت کدہ کا بھرم ٹوٹااور اس بت کدہ کے بڑے بت ہی کے منہ سےحق چیخ پڑا
یاد ہوگا آپ کو جب شری شری کی شکل میں ہندوؤں کے بڑے پر موٹر میدان میں آئے چو ں کہ حکومت وقت اس فیصلے سے جو ہندوستانی تاریخ میں ایک بد نما داغ بن چکا ہے حتی الامکان بچنا چاہتی تھی اس لیے اپنے اس ہتھیار کا استعمال کیا اور آپسی مصالحت کے ذریعہ کورٹ کے باہر ہی اس کا حل تلاش کرنے کی بات رکھی گئ
اس تنازعہ کو حل کرنے کی جو تجویز ان کے سرخیل نے قوم کے سامنے رکھی ،اس تجویز کو سن کر جہاں اس جماعت کی پوری دنیا کے سامنے پول کھلی اور پورے عالم اسلام میں اس جماعت کی واہ واہی ہوئی ایک الگ قصہ ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان کی تجویز کو سامنے رکھا جاے اور سپریم کورٹ کے بعد میں آنے والے فیصلے کو مدنظردیکھا جائے تو حقیقت طشت از بام ہو جاتی ہے یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ ذرا سلمان ندوی کی تجویز ملاحظہ کریں۔
۔”بابری مسجد پہلے بھی ویران تھی، مسلم محلے میں ستر اسی ایکڑ زمین ہمیں دی جائے ہم مسلمان وہاں ذوق و شوق سے ایک شان دار مسجد کی تعمیر کریں گے، اس کا نام مسجد الاسلام رکھیں گے، بابری مسجد کی جگہ پر آپ نے مندر بنا ہی رکھا ہے چاہے تو اسے اور بہتر بنا لیں وہ مندر کی جگہ ہوگی
اسلام کے چار مسالک میں سے ایک فقہ حنبلی میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ضرورت کے پیش نظر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے، رام ایک قابل احترام شخصیت کا نام ہے، ان کے نام پر عمارت بنتی ہے تو ہم مسلمانوں کو خوشی ہوگی، رام مندر میں بھی ایک ایشور کی پوجا ہوگی اور ہم مسلمان بھی ایک ہی ایشور کے قائل ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کی بابری مسجد کی اراضی رام مندرکو سونپنے کے لیے ہماری جدوجہد ساری دنیا تک پہنچے، امریکہ اور یورپ کے لوگ بھی اسے جان لیں، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو بھی ہماری اس عظیم کوشش کی خبر مل جائے اور پھر ہم آخری ملاقات وزیراعظم نریندر مودی سے کریں گے انہیں تفصیلات سے آگاہ کریں گےکہ جو کام برسوں میں نہ ہو سکا اسے ہم نے انسانیت کےعلم بردارشری شری کی قیادت میں حل کر لیا ہے”۔
آپ اس حقیقت کو بھی سامنے رکھیں کہ یہ وہی سید سلمان ندوی ہیں جن کی جوتیاں اسدالدین اویسی سیدھی کیا کرتے ہیں لہذا ان کا بھی سیاسی مقام ناپنےکی ضرورت ہے
از قلم: محمد ناصر رضا امجدی ، ناسک مہاراشٹر