از:محمد ناصررضا امجدی ناسک مہاراشٹر، رکن تحریک فروغ اسلام شعبہ نشر واشاعت بابری مسجد کےدلال قسط اول
بابری مسجد کے دلال قسط اول
طویل جدوجہد کے بعد مسلمانان ہند بالآخر امید کے مطابق بابری مسجد کی بازیابی میں ناکام ر ہے اور اب رام مندر تعمیری مراحل سے گزر رہا ہے ۔ پوری سماعت اور عدلیہ کا غیرمنصفانہ رخ سب پر ظاہر ہے لیکن غفلت میں پڑے مسلمانان ہند کے لیے اب بھی احتساب کا وقت موجود ہے، اس نتیجے کے ذمہ داروں کو پہچانیں ، اپنی کوتاہیوں کو سمجھیں اور قوم کے غداروں کے چہروں سے مکھوٹوں کو اتاریں،
اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ قوم مسلم آر ایس ایس، بجرنگ دل وغیرہ تحریکوں کے مقابل کسی بھی تحریک کو بنانے میں ناکام رہی۔حالانکہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں ایسی بہت سی تحریکیں پیش کی تھیں کہ اگر ان پر کام کیا جاتا تو ہمارے پاس ایک بڑی طاقت ہوتی۔ اسی کمی کا افسوس کرتے ہوئے بابری مسجد انہدام پر استاد گرامی حضور محدث کبیر مدظلہ العالی نے فرمایا تھا کہ ہم لوگوں نے حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی تحریک “خاکساران حق” کا سپورٹ نہیں کیا اور اس کو قوت نہ دے سکے آج وہ تحریک قوت و طاقت کے ساتھ ہوتی تو ہمارا سہارا بنتی۔
مسجد کی آبادکاری ہی مسجد کی حفاظت ہے،قوم اس چھوٹے سے نکتے کو نہ سمجھ کر غفلت کی چادر اوڑھ کر کر سو رہی ہے،جہاں ان حقائق کو تسلیم کرنا اور تدارک کی سعی کرنا ضروری ہے وہیں ان فریبیوں اور دلالوں کو بھی پہچاننا ضروری ہے جنہوں نے بابری مسجد کا سودا کر کے رام مندر کی دلالی کی،ان میں مختلف صورتوں والے اشخاص ہیں کچھ تو وہ سیاسی دوغلے ہیں جو مسلمانوں کے ہمدردوغمگسار بن کےمسلمانوں کو ووٹ بینک کی شکل میں استعمال کرتے ہیں اور بعد استعمال ٹشو پیپر کی طرح کچرے کے ڈھیر میں ڈال کر جدا ہو جاتے ہیں
یا گاڑیوں سے سودا کر دیتے ہیں،ان کی اصل دیکھنی ہو تو رام مندر افتتاحی تقریب میں مبارکبادیوں کی کلپ سن لیں،یوں ہی تاریخ کے جھروکے پر اک نظر ڈال لیں کانگریس جو مسلمانوں کی ہمدرد جماعت مانی جاتی ہے ان کا یہ کارنامہ دلالی کی چوکھٹ کا بوسہ دیتے ہوئے آنکھیں نمناک کر جاتا ہے جب بابری مسجد کے ممبر پر مورتیاں رکھی گئیں توگورنمنٹ کی طرف سے مسجد پر تالا لگا کر فریقین کو داخلے سے روک دیا گیا تھا
اچانک شاہ بانو کا مسئلہ کھڑا کیا گیا اس کے حق میں فیصلہ سنایا گیا پھر مسلم ووٹ بینک کی حصول یابی کے لیے بل پاس کرکے فیصلہ پلٹ دیا گیا لیکن اب بیلنس بنانا ضروری تھا اس لیے ہندو ووٹ بینک کے حصول یابی کے لئے مسجد کا دروازہ جس پر تالا لگا تھا پجاریوں کو پوجا کی اجازت دے کر اسے کھول دیا گیا۔
یوں ہی دلالوں کا دوسرا گروہ ان مستشرقین کا ہے جو اردو نام رکھتے ہیں، سیکولرزم کا ٹیکا لگا کر خود کو مذہب آزاد کہتے ہیں، اسلامی شعائراوراسلامی تعلیم پر صرف تنقید ہی نہیں کرتےبلکہ اس پر بھپتیاں بھی کستے نظر آتے ہیں لیکن ان کوڑھ عقلوں کی حماقت وقت بے وقت سامنے آ ہی جاتی ہے جیسے رام مندر افتتاحی تقریب پر مبارکبادیوں کا لین دین ہوتا ہے لیکن مسجد آیاصوفیہ کی تعمیر پر آنسو بہائے جاتے ہیں اور انسانیت کے حوالے دیے جاتے ہیں جاوید اختر انصار بنارسی ان نمونوں میں سے ایک ہے۔
یہ وہ اسباب اور افراد ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے ظاہر ہیں لیکن سب سے خطرناک، اک زہر ہلاہل، قوم کے وہ دلال ہیں جو ہم میں گم ہیں جو جبہ ودستار ، منصب و مقبولیت کے مسند پر بیٹھے ہیں، ان کے کارنامے سب سے سیاہ اور قوم کے نام پر بد نما داغ ہے ،ڈاکٹر اقبال نے ان کی تعریف قوم کے سامنے کچھ اس انداز میں پیش کی ہے۔۔
ع۔ جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن
از:محمد ناصررضاامجدی ناسک مہاراشٹر
رکن تحریک فروغ اسلام شعبہ نشر واشاعت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع