Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتاختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط سوم

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط سوم

از قلم : علامہ طارق انور مصباحی اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط سوم ؟۔ قسط اول کے لیے کلک کریں: قسط دوم کے لیے کلک کریں

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط سوم

کسی اسلامی مسئلہ کی تحقیق کے واسطے غیراسلامی ماحول کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے۔آج کل ہر معتقد اپنے مرکز عقیدت کوخطا سے محفوظ سمجھتا ہے۔
اگر میرے چند ہزار مریدین ہوں۔ان کے دلوں میں میری عقیدت مستحکم ہوتو اگر کوئی کہہ دے کہ حضرت سے فلاں مسئلہ میں خطا ہوگئی تو میرے عقیدت مند مریدین ناراض ہوجائیں گے اور اگر کہا جائے کہ حضرت نے جو فلاں مسئلہ بیان کیا،وہ غیر صحیح ہے تو بھی لوگ ناراض ہوں گے۔

درحقیقت یہاں لفظ کی بات نہیں ہے کہ آپ نے لفظ خطا کا استعمال کیا ہے،یا لفظ غیر صحیح کا استعمال ہوا ہے۔ لوگ مجھے خطا سے محفوظ سمجھ بیٹھے ہیں۔اب کسی لفظ سے بھی یہ ظاہرہوجائے کہ حضرت کی جانب عدم صحت کی نسبت ہو رہی ہے تو ناراضگی یقینی ہے۔ ایسے خلاف اسلام ماحول کو کسی اسلامی وشرعی مسئلہ کی تحقیق کے لیے بنیاد بنانا کیوں کر صحیح ہوگا۔

جومثال میں نے پیش کی ہے،وہ عہد حاضر کے کسی شیخ وبزرگ کے حق میں عملی طورپر انجام دے کر دیکھ لیں۔ توتومیں میں سے معاملہ آگے بڑھ کر ہاتھا پائی تک آجائے گا،بلکہ ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر ہوسکتا ہے۔

جو محققین غیرمعصومین کے لیے لفظ خطا کے استعمال کو بہر صورت بے ادبی اور گمرہی قرا ر دیں،خواہ متکلم کی مراد خطا سے گناہ ومعصیت ہو، یا خطائے اجتہادی،یابھول چوک ہو۔دراصل ان نفوس عالیہ نے اپنی تحقیق کی بنیاد اسی خلاف شرع ماحول پر رکھی ہے۔ دراصل جس عرف پرمسئلہ کی تحقیق کی بنیاد ہو، پہلے اس عرف کی تحقیق کرنی ہوگی۔

سچ تویہ ہے کہ معصومین کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت ہوئی ہے۔جماعت معصومین میں حضرات ملائکہ علیہم الصلوٰۃوالسلام سہوونسیان سے پاک ہیں،لیکن فکری عدم صحت ان کے حق میں بھی ثابت ہے۔خواہ اس کو اجتہادی خطا کہیں یا کسی بھی مہذب لفظ سے تعبیر کرلیں۔
چوں کہ یہ شبہہ موجودہے کہ کوئی کم عقل انسان ایسے امور کو نقص شان سمجھے، اس لیے عام حالا ت میں ان امور کا ذکرشرعاً ممنوع قراردیا گیا ہے۔مسائل شرعیہ کی تحقیق ایک شرعی حاجت ہے۔اسی طرح کسی کی گمرہی وضلالت کا رد بھی ایک شرعی حاجت ہے۔ ایسے مواقع پرممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔

سلطان عالم گیر اورنگ زیب کے استاذ ملا احمد جیون نے رقم فرمایا:(وقد وقعت فی زمان داؤد وسلیمان علیہما السلام حادثۃ رعی الغنم حرث قوم،فحکم داؤد علیہ السلام بشئ واخطأ فیہ-وسلیمان علیہ السلام بشئ آخر -واصاب فیہ -فیقول اللہ تعالی حکایۃ عنہما:((ففہمناہاسلیمان وکلا آتینا حکما وعلما))ای ففہمنا تلک الفتوی سلیمان آخرالامر-وکل واحد من داؤد ووسلیمان آتینا حکما وعلما فی ابتداء المقدمات -فعلم من قولہ:(ففہمناہا)ان المجتہد یخطئ ویصب)  (نورالانوار جلد دوم ص 304-دارالکتب العلمیہ بیروت)۔

صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی نے سورہ بقرہ:آیت36کے حاشیہ میں تحریرفرمایا:۔ ”یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی،اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی“۔(خزائن العرفان)۔

حضرات ملائکہ علیہم السلام اور قوم جن سے فکری عدم صحت کا ثبوت ہے۔جن امور کی اللہ تعالیٰ نے تردید فرما دی ہو،وہ یقینا صحیح نہیں۔ خواہ اس کو خطا سے تعبیر کیا جائے،یا کسی اور لفظ سے تعبیر کیا جائے۔مسئلہ شرعیہ کی تحقیق کے واسطے یہ امور نقل کیے جارہے ہیں،نہ کہ اپنی یا کسی کی بات کودرست قراردینے کے واسطے،پس عام حالات میں جوممانعت ہے،اس کا اطلاق اس مقام پر نہیں ہوگا۔

حضرت آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تخلیق کے وقت حضرات ملائکہ علیہم السلام سے اللہ تعالیٰ نے مشورہ فرمایا۔ فرشتوں نے زمین میں پہلے سے آباد قوم جن کی شرارت کودیکھ کرعرض کیا تھا کہ یہ نئی مخلوق(بعض اولادآدم) کا حال بھی وہی ہوگا،جو قوم جن کا حال ہے۔

قرآن مجید میں ہے: قالوا اَ تجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء (سورہ بقرہ:آیت30)۔
یہ معلومات کی روشنی میں مجہولات کوحاصل کرنے کی کوشش تھی۔گرچہ انہیں غیبی علم نہ تھا کہ مخلوق جدید کا کیا حال ہوگا۔حضرت آدم علیہ الصلوٰۃالسلام کی تخلیق سے قبل قوم جن کو زمین میں آباد کیا گیا تھا۔اس قوم نے زمین میں فتنہ وفسادپھیلایا،قتل وقتال اور خون ریزی کی۔
قوم جن کے حالات دیکھ کرحضرات ملائکہ علیہم السلام نے یہ بات کہی تھی۔ منطق کی زبان میں اس کوقیاس کہا جاتاہے۔چوں کہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں کہ اس کو اجتہاد کا نام دیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اس قیاس کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: انی اعلم مالا تعلمون (سورہ بقرہ:آیت 30)۔

اسی طرح حضرات ملائکہ علیہم السلام نے یہ بھی قیاس کیا تھاکہ نئی مخلوق کوہماری طرح علم نہیں ہوگا،کیوں کہ ہم لوگ ان سے پہلے ہیں۔ یہ حضرات ملائکہ علیہم السلام کاقیاس تھا،اوریہ ان کی باہمی گفتگوتھی۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃالسلام کو حضرات ملائکہ علیہم السلام سے زیادہ علم عطا فرمایا،تمام چیزوں کے نام بتائے اور ملائکہ علیہم السلام سے ان چیزوں کے نام دریافت فرمائے۔حضرات ملائکہ علیہم السلام کو ان اشیاکے ناموں کا علم عطا نہیں فرمایا گیا تھاتو انہوں نے معذرت خواہی کرلی۔اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا:
(وعلم آدم الاسماء کلہا ثم عرضہم علی الملائکۃ فقال انبؤنی باسماء ہٰولاء ان کنتم صدقین::قالوا سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم (سورہ بقرہ:آیت32,31)۔

اللہ تعالیٰ نے ”ان کنتم صدقین“فرماکر مذکورہ بالا قیاس کی تردید فرمائی۔ چوں کہ مذکورہ مسئلہ کا تعلق اعتقادیات سے ہے تو حضرات ملائکہ علیہم السلام کے اس امر کو اجتہاد کہا جاسکتا ہے۔

شیطان کو معلوم تھا کہ وہ آگ سے پیدا ہوا،اورحضرت آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام مٹی سے پیدا ہوئے۔اسی کی روشنی میں ابلیس نے قیاس کیا کہ آگ سے پیدا ہونے والا افضل ہوگا، لہٰذا میں افضل ہوں۔ اسی قیاس کے سبب شیطان نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام کو سجدہ نہیں کیا۔ قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر متعدد سورتوں میں ہے۔ شیطان نے قیاس بھی کیا اورقیاس میں غلطی بھی کی۔

قرآن مجید میں ہے: انا خیرمنہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین (سورہ اعراف:آیت 12)۔

اللہ تعالیٰ نے عزازیل کے قیاس کو غلط قرار دیا۔چوں کہ شیطان نے اپنے قیاس کوصحیح سمجھا اور حکم خداونددی کی تغلیط کی تھی،اس لیے وہ کافر قرارپایا اور دربارالٰہی سے نکال دیا گیا۔
منقولہ بالا آیات طیبہ سے حضرات ملائکہ علیہم السلام اور قوم جن کے قیاس یا اجتہاد کا غیرصحیح ہونا فرمان خداوندی سے ثابت ہوگیا۔قوم جن میں توکوئی معصوم بھی نہیں۔ انسانوں میں حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں اور تمام ملائکہ علیہم السلام معصوم ہیں۔

بعض محققین کا کہنا ہے کہ اجتہادی مسائل میں صرف اسی اجتہاد کو خطا کہا جاسکتا ہے،جس پرنص موجود ہو۔ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اجتہاد کے غیرصحیح ہونے کا کوئی ذکر کسی نص میں نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اس بات پراتفاق ہوگیا کہ میراث نبوی تقسیم نہیں ہوگی۔ اجماع صحابہ کرام دلیل ظنی نہیں،بلکہ دلیل قطعی بالمعنی الاعم ہے۔

اس سے ضروریات اہل سنت کا ثبوت ہوتا ہے۔ یہ اجماع صحابہ اس بات پردلیل ہے کہ مطالبہ باغ فدک غیرصحیح اوراسلامی قانون کے غیرمطابق تھا۔ اجماع صحابہ یہاں نص کی منزل میں قرار پائے گا۔شرعی دلائل اربعہ میں اجماع بھی ایک دلیل ہے۔ یہاں میراث نبوی کی عدم تقسیم کی حدیث خو د اس بات کی دلیل ہے کہ جومطالبہ اس کے خلاف ہے،وہ غیرصحیح ہے۔

جن محققین کی رائے ہے کہ حضرت سیدہ رضی للہ تعالیٰ عنہا نے باغ فدک کے مطالبہ میں اجتہاد ہی نہیں فرمایا تھاتو یہاں اجتہادی خطا کا قول کرنا ہی خلاف واقع ہے توعرض ہے کہ اس مطالبہ پر خطا کا اطلاق محال نہیں،بلکہ ممکن ہے۔

مثلاً کسی عام مومن نے مسئلہ سے لاعملی کے سبب حالت سفر میں نماز قصر کو مکمل ادا کر لی،یہ سمجھ کر کہ کثرت عبادت شریعت میں مطلوب ہے تو اس نے کثرت عبادت اورتقرب الی اللہ کی نیت کی ہے۔ اس کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مذہب اسلام کی فطرت کوسمجھنے میں بھی اس نے خطا نہیں،کیوں کہ کثرت عبادت شریعت میں مطلوب ومحمود ہے۔

ہاں، اس کا یہ خاص امر اسلامی قانون کے مطابق نہیں،اوراس نے حکم شرعی سے عدم معرفت کے سبب ایسا کیا تو یقینا اس کا ترک قصراورتکمیل نماز اسلامی شریعت کے مطابق نہیں اوریہاں کوئی اجتہاد نہیں،لیکن یہی کہا جائے گا کہ اس سے خطا ہوگئی۔ایسے امور پر خطا کا اطلاق ہوتا ہے۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ہرگز کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کا مطالبہ قرآن مجید کے خلاف تھا،بلکہ ہرکوئی یہی کہتا ہے کہ اسلامی قانون کے موافق نہیں تھا۔جس حدیث نبوی میں اس اسلامی قانون کا بیان تھا،وہ حدیث نبوی حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک پہنچ نہ سکی اور حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قرآنی حکم کے اعتبارسے مطالبہ فرمایا تھا تو یہاں فہم قرآن میں بھی کوئی اعتراض نہیں،نہ ہی قرآن مجید کی روشنی میں مطالبہ پر کوئی اعتراض ہوگا۔ہاں،یہ مطالبہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں۔ قانون اسلامی سے عدم معرفت کے سبب یہ مطالبہ صادر ہواتھا،اسی لیے جیسے ہی حدیث نبوی کی معرفت ہوئی،مطالبہ ترک فرما دیا گیا۔

اگر یہاں اجتہادتسلیم نہ بھی کیا جائے توبھی یہاں یہ مطالبہ اسلامی قانون کے غیر مطابق ہے،جو حدیث نبوی کی عدم معرفت کے سبب صاد ر ہوگیا۔اس عدم مطابقت کو عدم صحت،عدم صواب سے تعبیرکیا جاتا ہے اور جب وہ صحیح وصواب نہیں تو غیر صحیح وغیرصواب کی تعبیر خطا سے ہوتی ہے۔

یہاں عدم اجتہاد کے باوجود خطا کا امکان ہے۔ اس کو اردو زبان میں بھول چوک یالغزش وغیرہ سے تعبیرکیا جائے گا۔یہ سب خطا کی مختلف شکلیں ہیں نہ کہ صواب وصحیح کی صورتیں۔ اگر اہل فضل کے لیے لفظ خطا کا استعمال ممنوع ہو،تب اہل فضل کے لیے یقینا اس کا استعمال نہیں ہوگا،لیکن علم عقائد یا علم فقہ میں کوئی ایساجزئیہ تادم تحریر دستیاب نہیں ہوسکا۔ قانون کے اعتبارسے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔

لفظ خطا مختلف معانی کا احتمال رکھتا ہے۔محتمل ومشترک الفاظ کے بعض معانی اگر ”مومن بہ“پرمنطبق ہوتے ہوں او بعض معانی منطبق نہ ہوسکیں توایسے مشترک الفاظ کا استعمال”مومن بہ“کے لیے نہیں ہوتا ہے۔

اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں

اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور ذوات قدسیہ میں حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام ”مومن بہ“ ہیں۔ان ذوات عالیہ کے علاوہ تمام ضروریات دین بھی متعلق ایمان ہیں کہ کسی ضروری دینی کا انکارواستخفاف کفر ہے۔

اللہ تعالیٰ سہوونسیان اور خطا کے ہرمعنی سے بالذات پاک ومنزہ ہے۔ حضرات ملائکہ کرام علیہم السلام گناہ ومعصیت اور سہوونسیان سے معصوم ہیں۔حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام گناہ ومعصیت سے معصوم ہیں اور تبلیغی امور میں سہوونسیان سے معصوم ہیں،لیکن ذاتی اعمال وافعال میں سہوونسیان ممکن ہے۔

چوں کہ لفظ خطا کے بعض معانی یعنی گناہ ومعصیت اور حضرات ملائکہ علیہم السلام کے لیے سہوونسیان ثابت نہیں،اسی طرح حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے لیے گناہ ومعصیت بھی محال شرعی اور امورتبلیغیہ میں سہوونسیان محال شرعی ہے تو لفظ خطا کے یہ معانی ان کے حق میں غیرثابت اورباطل ہیں،پس لفظ خطاکا استعمال حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے لیے نہیں ہوگا۔

مومن کے لیے مشترک ومحتمل الفاظ کے بعض معانی ثابت ہوں اور بعض معانی ثابت نہ ہوں توبھی ایسے محتمل ومشترک الفاظ کا استعمال مومن کے لیے ہوتا ہے،جیسے لفظ خواجہ کا استعمال اکابراولیائے کرام کے لیے ہوتا ہے،حالاں کہ خواجہ کا ایک معنی مخنث وہجڑا ہے۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”حضرت عزت عزجلالہ پرلفظ صاحب کا اطلاق جائز،بلکہ حدیث میں وارد ہے۔اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی المال والاہل والولد۔
اورمیاں کا اطلاق نہ کیا جائے کہ وہ تین معنی رکھتا ہے۔ان میں دورب العزت کے لیے محال ہیں۔آقا اورشوہر اور مردو عورت میں زنا کا دلال،لہٰذا اطلاق ممنوع اور اس پرافتخارجہل“۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص۰۲۱)۔

میاں کے بعدوالے دومعانی جو اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہیں،وہ دومعانی مشائخ کرام وپیران طریقت کے لیے بھی ثابت نہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ممنوع اورناقابل فخر ہوا،جب کہ مشائخ عظام وپیران طریقت کے لیے جائز اور قابل فخرلفظ ہے۔مشائخ کے لیے ”میاں“ کا لفظ ہندوپاک میں مروج ہے

تحریر : علامہ طارق انور مصباحی ( پیغام شریعت ،دہلی)۔

اعزازی ایڈیٹر : افکار رضا 

انٹرنیشنل اردو ویب سائٹ

www.afkareraza.com

اس مضمون کے اور قسطوں کے لیے کلک کریں قسط وار ہیں

قسط اول کے لیے کلک کریں

قسط دوم کے لیے کلک کریں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن