از قلم: احمد حسین علیمی برکاتی فتح امرڈوبھا اور غازی اسلام
فتح امرڈوبھا اور غازی اسلام
ناظرین کرام!۔
ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا دیش 15اگست 1947 کو آزاد ہوا, جس میں ہر مذہب اور ہر طبقے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا,
چاہے وہ مسلم طبقہ سے تعلق رکھتا ہو یا ہندو سے لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جس کو دیکھ کر انسانیت کی روح چیخ اٹھے کہ کیا ایسے بھی لوگ اس دھرتی موجود ہیں جو انسانی شکل میں بھیڑیاں نظر آ رہے ہیں
اور آج کا ماحول تو ہر کوئی دیکھ ہی رہا ہے کہ کس قدر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جگہ جگہ انہیں ستایا جا رہا ہے ان کے ساتھ بد سلوکیاں اور بد تمیزیاں کی جا رہی ہیں
ناظرین کرام ! ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ آج سے ستر سال پہلے 1950ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کو یاد کرنے کے بعد روح تک کانپ جاتی ہے جب ہمارا پیارا ملک ہندوستان آزاد ہوا اور ہند و پاک کے درمياں بٹ گیا تب کچھ شر پسند مہا سبھائیوں کے دل میں حرص و لالچ کا انگار بھڑکا۔
اور انہوں نے سوچا کہ جب ہندوستان تقسیم ہو ہی گیا اور اکثر مسلم طبقے کے لوگ وہاں سکونت اختیار کر ہی چکے ہیں تو جو ابھی یہاں ہندوستان میں بچے گچھے لوگ ہیں وہ بھی وہیں پہ چلے جائیں تاکہ ان کے مکانات و رہائش گاہوں پہ ہم عیش و عشرت کی زندگی گزر بسر کرسکیں
لیکن ان کی بدقسمتی یہ کہ یہ بھول گئے اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اسے جتنا ہی دباؤگے اتنا ہی ابھرےگا ان کا پروپیگنڈہ جب یہ شروع ہوا کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا جائے تو ان لوگوں نے انا ناہک بے قصور مسلمانوں کو بھگانے کی مہم شروع کر دی, تو ان لوگوں سے جتنا بھی ممکن ہوا ڈرانا, دھمکانا شروع کر دیا یہاں تک قتل و غارت کی نوبت آگئی اور پورے ملک میں خون کا سیلاب جاری ہو گیا اور بے قصور مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلی جا رہی تھی
اس چپیٹ میں وہ مشہور شہر جو ظالم بھیڑیوں کے شکنجے میں آئیں ان میں سر فہرست بمبئی, بھیونڈی, احمدآباد, گودھرا, میرٹھ, جبل پور, الہٰ آباد, فیض آباد, اجودھیا اور مرادآباد وغیرہ ہیں. ان شہر مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہو کر کرب و بلا کی یاد تازہ کر گئے جو آج بھی ہندوستان کی پیشانی پر ایک بد نما داغ کی صورت میں نمایاں ہے. ان ظالموں کی کوشش صرف وہیں رہتی تھی کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے. پہلے اسی کو ٹھکانے لگایا جائے
کیوں کہ ان کا پروپیگنڈہ ہی یہی تھا کہ جب بڑے بڑے شہروں کو ہم فتح کر لینگے تو چھوٹے چھوٹے شہر خود بخود ہی گھٹنہ ٹیک دیں گے. چناں چہ انھوں نے اپنی ظلم و ستم کو قائم کرنے کے لیے ضلع سنت کبیر نگر میں واقع امرڈوبھا نامی ایک گاؤں پر حملہ کرنا چاہا اور چوں کہ یہاں انصاری برادری کی اس وقت اکثریت تھی جو بنکر کا کام کیا کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں
اور اسی گاؤں کے پاس ایک گاؤں بکھرہ ہے جو کہ اس وقت ہزار گھروں پر مشتمل تھا. تاریخ بتاتی ہے کہ بکھرہ کے زمین دار بابو پرسادھ سنگھ جب تک دنیا میں موجود تھے آپس میں کوئی تناؤ اور کشیدگی نہیں تھی. کسی طرح کا اختلاف نہیں تھا جس سے ہندو مسلم میں تناؤ کا ذریعہ بنے کیوں کہ بابو صاحب انصاف پسند انسان تھے ,ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک و برتاؤ کیا کرتے تھے ، وہ سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
لیکن جب 1939ء میں بابو صاحب کی موت ہو گئی ,اور ان کا کوئی وارث بھی نہیں تھا سوائے ایک لڑکی کے. بابو صاحب کے مرنے کے بعد اس لڑکی کی شادی بستی کے راجہ کے وہاں ہو گئی تو اس لڑکی کا شوہر بابو صاحب کا وارث ہوا جو کہ پکا مہاسبھائی اور شر پسند انسان تھا .بہر صورت جب بکھرہ والوں نے حملہ کرنےکی تیاری شروع کر دی اور لوگ باہر سے گروہ در گروہ آنے لگے تو آس پاس کے علاقوں میں ہاہا کار مچنے لگا کہ اب تو خیر نہیں ہے اور ان لوگوں نے پہلے ہی سے ان شر پسندوں کی حرکتوں کے بارے میں سن رکھا تھا
اہل امر ڈوبھا بھی اس وقت ڈرنے لگے کیوں کہ ان کافروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی تھی جب کہ مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے پاس تھی، اس پر بے چارے نہتھے تھے ان کے پاس تو وہی ٹوٹے پھوٹے سامان تھے برخلاف اس مخالفین طرح طرح کے اسلحے اور ہتھیاروں سے لیس تھے
اس کتاب کوخرینے کے لیے کلک کریں
چناں چہ جب تصادم قریب ہوا تو چونکہ پہلے سے ہی امرڈوبھا ان کی کثرتوں کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے اور قریب تھا کہ ہمت ہار بیٹھتے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا. اللّہ تبارک وتعالی نے ایک ایسے بزرگ کو ان کے درمیان بھیجا جسے ان لوگوں نے نہ پہلے دیکھا تھا اور نہ ہی ان کے بارے میں سنا تھا
پھر گفت و شنید کے بعد بزرگ نے لوگوں سے فرمایا کہ جاؤ سب لوگ غسل کرکے عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاؤ اور اللّہ رب العزت کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرو اور رورو کر نصرت خداوندی طلب کرو وہ عن قریب تمھیں فتح وکامرانی سے نوازے گا۔
چناں چہ اکثر اہل امرڈوبھا نے ویسا ہی کیا جیسا بزرگ نے فرمایا. کچھ لوگ بھاگنے کے منصوبے بنا رہے تھے تو کچھ لوگ بھاگ رہے تھے تو بزرگ نے فرمایا کی تمہیں بھاگنےکی ضرورت نہیں ہے نصرت خداوندے تمہارے ساتھ ہے کچھ وقت گزر جانے بعد جب یہ ہوا کہ اب جنگ شروع ہونے والی ہے۔
تو بزرگ نے جھولا اٹھایا اور امرڈھوبھا کو خیرآباد کرنے لگے تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو ہمیں بہادری کے اسباق پڑھارہے تھے اور آپ ہی ہمیں چھوڑ کے جانے لگے تو بزرگ نے فرمایا کہ آپ سب ہمت مت ہارو اب میرا کام ختم ہوا اب کسی اور کی ذمہ داری آگئی ہے
اب یہاں سے اخیر تک کا راستہ وہ ہموار کریں گے اور تمہیں فتح و کامرانی دلائیں گے چنان چہ وہ اتنا کہ کر تھوڑی دور گئے اور آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
اس کے بعد غازی اسلام سید شاہ اکمل حسین اشرفی کچھوچھوی کی آمد ہوتی ہے جو کہ بکھرہ کی سیر کرتے ہوئے آرہے تھے آنے کے بعد انہوں نے اہل امر ڈوبھا کو ان لشکروں کے بارےمیں بتایا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے بہر حال تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ ہمت مرداں مدد خدا تمہیں خوف کھانےکی ضرورت نہیں
کیوں کہ اللّٰہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا فرماتاہے لا تقنطوا من رّحمۃ اللّٰہ کہ اللّٰہ کی رحمت سے مایوس مت ہو چناں چہ غازی اسلام نے ان کے لرزہ حالت کو دیکھ کر ان کے رو برو
غزوہ بدر کا نقشہ پیش فرمایا کہ کیسے اللّٰہ تبارک وتعالی نے ہزار کی تعداد والے لشکر کفار کے مد مقابل ان 313 کی مدد فرمائی اور ان کے دلوں میں جزبہ جہاد پیدا فرمایا چنان چہ جنگ کی تیاری شروع ہوگئی. گویا لوگ کہہ رہے تھے
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا.
پھر غازی اسلام نے قریب جنگ اہل امرڈوبھا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ساٹھ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ کو بجانب شمال تعینات کر دیا اور ان میں سے 3 لوگوں کو سپہ سالاری عطا کر دی اور بقیہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر جنوب میں تعینات ہو گئے پھر جب معرکہ آرائی ہونے لگتی ہے تو بہت ہی بہادری کے ساتھ یہ جاں باز سپاہی اسلام کے علم بردار لڑتے ہیں اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شمال کی جانب جو ساٹھ جاں باز تعینات تھے ان کے مقابل بیس ہزار کا لشکر جرار معرکہ آرائی کرتا ہے
اور بقیہ کفاروں کا لشکر جنوب کی جانب غازی اسلام اور ان کے ہمنواؤں کے مد مقابل رہتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے جب لشکر کفار گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے تو جو ساٹھ ہزار لشکر تھا اسے چھوڑ کر جنوب کی جانب بھاگ آتے ہیں کیونکہ ادھر لشکر زیادہ تھا
اور اتنا ہی نہیں جب انہوں نے دیکھا کہ اتنی چھوٹی سی جماعت اتنی بہادری کے ساتھ لڑ رہی ہے اور ہماری دھجیاں اڑا رہی ہےاور اگر یہی حال رہا تو ہماری شکست طے ہے تو ان ظالموں نے ان کے گھروں کو آگ لگا دی لیکن پھر بھی یہ جانباز سپاہی ڈتے رہے اور یہ کہ رہے تھے کہ اگر جان بچی تو پھر مکانات بنا لیں گے اور سپہ سالاروں نے نعرہ بلند کیا اور کہا کہ تم گھبراؤ مت کیوں کہ یہ اس لئے ایسا کر رہے ہیں تاکہ یہ ہمارے ذھن بھٹکا سکے. مجاہدو! تمہارے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ جو اللّٰہ کا ہو جاتا اللّٰہ اس کا ہو جاتا ہے
چناں چہ غازی اسلام سید اکمل میاں صاحب نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کر کر کے انہیں واصل نار کر رہے تھے اور یہیں تک بس نہیں بلکہ رجال الغیب کی آمد ہوتی ہے اور اس طرح سے کافروں کے سر کٹ رہے تھے جیسے گاجر اور مولی ساتھ ہی مدد خدا دیکھو کہ ادھر ٹڈیوں کی آمد ہوتی ہے اور کنکریوں سے ظالموں کو واصل جھنم کر رہے تھے
اس طرح یہ حواس باختہ ہو کے بھاگ رہے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو رہا ہے ؟اورکون کر رہا ہے ؟ ان ظالموں کو معلوم ہونا چاہئیے کی اللّٰہ رب العزت حق و باطل کے درمیاں ایسے فیصلہ فرماتا ہے اور یہ ظالم اپنے کٹے ہوئے لوگوں کو لے جا کر کے بکھرہ جھیل میں پھینک رہے تھے
آخر کار اھل امر ڈوبھا کی فتح ہوتی ہے اور ان ظالم مہا سبھائیوں کی شکست ہوتی ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ اختتام جنگ پر جب یہ پتہ لگایا گیا کہ کتنے لوگوں کو جام شہادت نصیب ہوئی تو محض 3 لوگوں کا نام آیا اور دو لوگ اور تھے جو جنگ میں شریک نہیں تھے جن میں ایک بوڑھے شخص اور ان کی ایک پوتی تھی جو کہ ڈرکی وجہ سے ایک قبر میں چھپے ہوئے تھے مگر صد
افسوس !۔ کہ ظالموں نے انہیں دیکھ لیا انہوں نے بڑی منت و سماجت کی لیکن ان ظالموں نے رحم نہیں کیا اور انہیں بھی شہید کر ڈالا انّا للّٰہ وانّا الیہ رٰجعون
از:احمد حسین علیمی برکاتی
سدھارتھ نگری متعلم الجامعۃ العلیمیہ
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع