تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے ہیں (ماتم کی حرمت فقہ جعفریہ کی روایات کے حوالے سے)۔
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے ہیں
شہید اعظم امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا ماتم کرنے کے حوالے سے فقہ جعفریہ کی چند معتبر ومستند روایات پیش خدمت ہے ان ثقہ روایات کو پڑھ کر قارئین خود فیصلہ کریں کہ شہادت کے ذریعہ حیات دائمی حاصل کرنے والوں کے سردار کا ماتم کرنا کہاں تک درست ہے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: یقیناً صبر اور آزمائش دونوں مومن پر آتے ہیں۔ مومن پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ صبر کرنے والا ہوتا ہے اور بے صبری اور آزمائش دونوں کافر پر آتے ہیں جب اس پر آزمائش آتی ہے تو وہ بے صبری کرتا ہے۔”(فروع کافی، کتاب الجنائز جلد ص131۔مراة العقول جلد 14ص183)۔
امام جعفر صادق کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والا مومن ہے اور جو بے صبری کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنھا سے فرمایا جب میں مر جائوں تو مجھ پر چہرہ نہ نوچنا اور نہ مجھ پر اپنے بال بکھیرنا اور نہ واویلا کرنا اور نہ مجھ پر نوحہ کرنا۔”(فروع کافی ، کتاب النکاح ، ص۲۲۸) امام جعفر صادق نے فرمایا میت پر چیخ و پکار اور کپڑے پھاڑنا جائز نہیں۔”(فروع کافی۱۸۸/۱)۔
ماہ محرم اور یوم عاشورا قرآن و حدیث کی روشنی میں : اس کو بھی پڑھیں
کربلا میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت
یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول اﷲ ﷺ اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت. ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب کو وصیت کی فرمایاکہ اے پیاری بہن!ﷲ سے ڈرنا اور اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا، خوب سمجھ لو۔
تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لیے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اورآپ کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔(الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236، امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553،فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران،اخبار ماتم ص 399)۔
ملا باقر مجلسی بھی لکھتے ہیں: کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی، اے میری معزز! بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجائوں تو گریبان چاک نہ کرنا، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران) امام باقر نے فرمایا ، جس نے قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی ، وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔”(من لا یحضر ة الفقیۃ باب النوادر)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رخسار ہر گز نہ پیٹنا اور نہ ہی چہرہ نوچنا اور نہ بال اکھیڑنا اور نہ گریبان چاک کرنا اور نہ کپڑے سیاہ کرنا اور نہ واویلا کرنا۔”(فروع کافی، کتاب النکاح ص۲۲۸)۔
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
امام جعفر صادق روایت کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اسکے اجروثواب کو ضائع کر دیتا ہے ۔‘‘(من لایحضرہالفقیہ،کتاب الجنائز ، باب الصبر والجزع ص 224)
حضور ﷺ کی اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بروقتِ مصیبت رانوں پر ہاتھ مارنے سے اجروثواب ضائع ہو جاتا ہے تو جو شخص زنجیر زنی ، سینہ کوبی اور بال نوچنے میں مصروف ہو اس کے اجروثواب کا ضیاع تو ہو گا ہی ساتھ ہی نامہ اعمال میں برائیوں کا اضافہ بھی ہو گا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’جس آدمی نے مصیبت پر صبر کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے تین سو درجات عطا فرمائے ۔ ایسے درجات کہ ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان۔‘‘(اصولِ کافی ، ج2،کتاب الایمان والکفر ، باب الصبر ،جامع الاخبار ص 132)۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر سے جزع کے متعلق پوچھا یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: شدید جزع یہ ہے کہ کوئی شخص ویل عویل الفاظ چیخ کر نکالے اور اپنے چہرے کو پیٹے ، پیشانی کے بال نوچے اور جس نے نوحہ کیا اس نے صبر کو چھوڑا اور صحیح طریقہ کو چھوڑ کر دوسری راہ چل پڑا اور جس نے صبر کیا اور بوقتِ مصیبت اس طرح استر جاع (انا للہ وانا الیہ راجعون) کہا اور اللہ کی حمد بیان کی ۔ تو اس نے اللہ کو راضی کر لیا اس کا اجر اللہ کے حضور ہے ۔ اور جو بوقتِ مصیبت ایسا نہ کرے گا اس پر حکم خداوندی ہو کر رہے گا
لیکن وہ قابلِ مذمت ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب و اجر ضائع کر دیا ۔ ‘‘(تہذیب الاحکام ج 3ص 222 ،کتاب الجنائز) امام جعفر صادق نے فرمایا: صبر کا ایمان کے ساتھ ایسا تعلق ہے جیسا جسمِ انسانی کے ساتھ سر کا ۔ جب سر نہ رہے تو جسم نہیں رہتا اور جب صبر نہ رہے تو ایمان نہیں رہتا ۔ ‘‘(اصول کافی ، ج 2ص 28،کتاب الایمان والکفر ، باب الصبر)۔
حضرت علی ر ضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ : صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے ۔جس نے بوقتِ مصیبت اپنی رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہو گئے ۔ ‘‘(نہج البلاغہ ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین علیہ السلام ، حکم 134)۔
فرمان شیر خدا ۔ جب آپ جناب رسول اللہ ﷺ کو غسل دے کر کفنانے لگے تو فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کی وفات سے نبوت، وحی ، آسمان کی خبریں منقطع ہو گئیں جو کہ آپ کے غیر کے مرنے سے نہ ہوئیں تھیں آپ ہیبت پہنچانے پر مخصوص ہوئے حتیٰ کہ اپنے غیر کی ہیبت سے ہمیں مطمئن کر دیا آپ کی وفات سے جو مصیبت ہم پر پڑ رہی ہے دوسرے کی موت میں یہ رنج و اندوہ کہاں آپ کی ہیبت ایک عام ہیبت ہے حتیٰ کہ لوگ آپ کی ہیبت سے یکساں و یکسر ہو رہے ہیں اور اگر آپ صبر کا حکم نہ دیتے جزع و فزع سے منع نہ فرماتے تو ہم اس مصیبت پر اشک کا پانی انتہا کو پہنچا دیتے آنکھ اور دماغ کی تمام رطوبتیں قربان کر دیتے(ترجمہ نیرنگ فصاحت ص 375)(شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں جاہلیت (یعنی زمانہ کفر) کی چار چیزیں ہیں کہ لوگ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ ایک اپنے حسب پر فخر کرنا۔ دوسرا ایک دوسرے کے نسب پر طعن کرنا۔ تیسرے تاروں سے بارش کی امید رکھنا اور چوتھے یہ کہ نوحہ کرنا( بین کر کے رونا)۔ اور نوحہ کرنے والا اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک اور خارش (لگانے) والی قمیض ہو گی۔ (کتاب الخصائل جلد اول ص 226، وسائل الشیعہ جلد 17 ص 129) ۔
ان احکامات کی روشنی میں کوئی بھی انسان یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ مروجہ ماتم آئمہ اہل بیت کے نزدیک ممنوع و حرام نہیں کیوں کہ حضرت علی المرتضیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ مروجہ ماتم اگر جائز ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے کیونکہ دنیا کی تمام مصیبتیں اگر یکجا کر دی جائیں تو مجموعی طور پر رسول اللہ ﷺ کی وصال کی مصیبت کے ہم پلہ نہیں ہو سکتیں لہٰذا اگر کسی مصیبت پر جز و فزع (مروجہ ماتم) جائز ہوتا تو حضرت علی حضورﷺ کے وصال کے وقت ضرور ماتم کرتے ۔
لہٰذا ہماری شیعہ حضرات سے التماس ہے کہ اگر آپ کو اہل بیت سے واقعی محبت ہے تو ان سے محبت کا حق اُن کے احکامات پر عمل کر کے ادا کریں اُن کے خلاف چل کر محبت کے جھوٹے دعوے کر کے اپنی آخرت برباد نہ کریں۔
مذکورہ بالا فقہ جعفریہ کی روایات سے معلوم ہوا کہ فقہ جعفریہ میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، امام باقر اور امام جعفر صادق وغیرہ سے روایات موجود ہیں جو اس بات پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ مصیبت کے وقت بال بکھیرنا ، چہرے پیٹنا ، سینہ کوبی کرنا، واویلا کرنا، مرثیے پڑھنا ، شبیہیں بنانا ، قبروں کی تجدید کرنا ناجائز اور حرام ہیں۔
اب ہمارے قارئین کو مذکورہ روایات کی روشنی میں معلوم ہوگیا ہوگا کہ ماہ محرم میں یا کسی بھی مہینے میں ماتم، نوحہ خوانی، زنجیرزنی اور تعزیہ وغیرہ جیسی غیراسلامی رسومات روافض کی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہیں، اسلام میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے،اسی تناظر میں ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ :۔
روئیں وہ جو منکرین شہادت حسین ہیں
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور
اعظم گڈھ یو پی
9839171719
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع