تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور امر بالمعروف خوب ہو رہا ہے نھی عن المنکر کی تبلیغ کون کرے گا
امر بالمعروف خوب ہو رہا ہے نھی عن المنکر کی تبلیغ کون کرے گا
رب تبارک وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبرانِ عظام کو مبعوث فر مایا اور سارے پیغمبرانِ عظام نے اس کام کو خوب سے خوب تر انجام دیا، دعوتِ توحید کے ساتھ ساتھ ساری انسانیت کو امر بالمعروف کی تعلیم دی اور نھی عن المنکر سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا اور منع فرمایا
اسلام کے ارکان پنجگانہ، ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ،اور حج تو معروف ہیںاِن میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ ان پانچ ارکان کے علاوہ بھی کئی امور ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر فرض قرار دیئے ہیں۔ اِن میں سے بعض تو فرضِ عین ہیں اور بعض فرض کفایہ۔
انہیں ثانی الذکر فرائض میں اچھے کاموں کا حکم دینااور بُرے کاموں سے روکنا بھی ہے جو دین اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے۔ اسے کلامِ الٰہی قر آن مجید اور حدیث نبوی میں امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کہا گیا ہے۔خلاصہ: یہ کہ معروف اچھے کام کو کہا جاتا ہے اور نھی عن المنکر بُرے کام کو کہا جاتا ہے۔
امت مسلمہ کی تخلیق کا مقصدہی امر با لمعروف ونھی عن المنکر ہے
قرآن مجید میں امر با لمعروف ونھی عن المنکر کاحکم ساتھ ساتھ آیا ہے آٹھ 8 جگہ تو اہلِ ایمان کے لیے آیا ہے اور ایک جگہ اہل کتاب کے لیے ہے۔ امر با لمعروف ونھی عن المنکر ایک فریضہ ہی نہیں بلکہ انبیاے کرام،صحابۂ کرام،اولیاے کرام اور وارث انبیا علماے کرام اور خیراُمت(مسلمانوں) کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے ان نفوسِ قدسیہ کو معمور فر مایا اور ذمہ داری دی ہے۔
قرآن مجید واحادیث طیبہ میں اس مقصد کے حصول کے لیے اور یہ خد مت سر انجام دینے کے لیے جا بجا حکم دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ ترجمہ: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔(القرآن،سورہ آل عمران:3آیت104۔کنزالایمان)۔
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
حضرت علامہ ابن ضحاک رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں،اس جماعت سے مراد خاص صحابہ کرام، مجاہدین، اولیاے کرام اور علماے کرام ہیں اورحضرت جعفر باقر رحمۃا للہ علیہ فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فر مائی پھر فر مایا: خیر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے۔یہ یا درہے کہ ہر ہر مسلمان پر تبلیغِ حق فرض ہے ولیکن ایک جماعت تو خاص ہونی ہی چاہئے،صحابہ کرام۔
اپنی بھلائی پر قناعت کرتے ہوئے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا خود غرضی ہی نہیں خود کشی بھی ہے۔حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو معروف وصیتیں کی تھیں وہ قرآن مجید کی سورہ لقمان میں تفصیل سے مذ کور ہیں، اِنہیں میں سے ان کی یہ نصیحت بھی منقول ہے:’’ بیٹا نماز قائم کر،نیکی کا حکم دے اور لوگوں کو بدی(برائی) سے روک‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت سے نوازاگیا ! تو اُمت مسلمہ کی ذمہ داری بھی بڑی ہے ذمہ داری نبھانے والے ہی اِنعام واکرام کے مستحق قرار پاتے ہیں
مسلمانوں کو خیر امت کے فرائض میں یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہے کہ اچھائی کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ برائی سے منع کرنے پر بھی زور دینا چاہئے،اور ساتھ ساتھ مذہب اسلام کی تبلیغ بھی کرنی چاہئے تاکہ دوسرے مذاہب اور اہل کتاب بھی اسلام میں داخل ہوں۔ جیسا کی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: تم بہترین اُمت ہو جوسب لوگوں(کی رہ نمائی) کے لیے ظاہر گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہواوراگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(القر آن سورہ آل عمران3:آیت110)۔
ہر دل عزیزی کی خواہش وچسکا انتہائی خطر ناک عادت
امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم ہر جگہ قرآن مجید میں ایک ساتھ آیا ہے۔نیکی کا حکم دو،برائی سے روکو،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،امر بالمعروف خوب ہورہا ہے بہت دھوم دھام ہے،بڑے بڑے جلسے بڑی بڑی کانفرنسیں،بڑے بڑے سیمیناروغیرہ نتیجہ؟۔ مسلم معاشرے میں بڑی بڑی خرابیاں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہیں نشہ خوری،زنا کاری، شراب و جوا ،سٹہ کا کاروبار ،سودخوری وجہیز جیسا ناسور جو قوم کو بری طرح جکڑے ہوئے ہے۔
محفلِ واعظ کی ہزاروں لاکھوں تقریریں،ڈائس پر بڑے بڑے ملت اسلامیہ کے ذمہ داران بول رہے ہیں،بولے جارہے ہیں۔ ’’لیکن نھی عن المنکر کی تبلیغ کون کرے گا؟‘‘ کیوں کہ اگر نھی عن المنکر کی بات شروع کریں گے تو ہر دل عزیزی ختم ہوجائے گی؟ کچھ کو چھوڑ کر باقی الا ماشا اللہ۔ ہر دل عزیزی کا چسکا ،لت،عادت،چاہت، بہت بڑا ناسور ہے،جہیز کے ساتھ ساتھ شادیوں میں بے شمار خرافات، بے تحا شہ فضول خرچی شریعت اسلامی کی دھجیاں اُڑانا اس پر ذمہ دارن اسلام علما ے کرام کیوں نہیں منع کرتے؟۔
جتنی بھی شادیاں آج اللہ کے رسول ﷺ کے اِرشادات کو پامال کرکے ہورہی ہیں اس میں ذمہ دارن اسلام کیوں جاتے ہیں ؟جہاں کھڑے کھڑے کھائو نہ کھانے کے پہلے ہاتھ دھو نہ کھا نے کے بعد ہاتھ دھونا، کیا علما کا پیٹ اتنا ہلکا ہوگیا ہے، معاف فر مائیں میں علما کی بہت عزت کرتا ہوں سبھی علما ایسے نہیں ۔ ایسی ناجائز وحرام پارٹیوں میںجب بر یانی قور مہ کھالیں گے تو پھر اصلاح کیسے کریں گے؟۔
یہ نہیں ہوسکتا کی ایسی خرافات وشریعت محمد ی کے خلاف پارٹیوں میں شریک ہوکر بریانی قورمہ بھی کھائیں اور نھی عن المنکر کی تبلیغ بھی کریں دونوں ایک ساتھ نہیں ہوسکتا۔ پہلے کے علماے کرام نے اور آج بھی ایسے اللہ والے علماے حق موجودہیں جوسخت ترین حالات میں بھی دین متین پر قائم ہیں شریعت اسلامیہ کی لاج رکھے ہیں
اصل میں وہی ہیرو ہیں ،کم سے کم رزق میں گزارہ کرکے نھی عن المنکر کی اوردین اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ’’علما انبیا کرام کے وارث ہیں اور انبیاے کرام علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کیا‘‘ وہ حق ادا کر رہے ہیں،لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ جب کہ ہر سال ہزاروں ہزار علما فارغ ہو رہے ہیں لیکن اب زیادہ تر علما پروفیشنل او ر کمر شییل ہوگئے ہیں،تقریروںاورنجی محفلوں میں امر با لمعروف خوب بیان کرتے ہیں نہیں عن المنکر کو نہیں چھیڑ تے ہیں۔دسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جو اِنتہائی عبرت ناک ہیں، ایک دلچسپ واقعہ مطالعہ فر مائیں:۔
جمشید پور میں غوثِ پاک کی گیارہویں کی محفل تھی شہر کے جانے مانے علما وشعرا موجود تھے راقم بھی موجود تھا، مجھے معلوم ہوا کہ صاحبِ خانہ عادت بد میں مبتلا ہیں،( پکے شرابی وجواڑی ہیں) نعوذ با للہ میں نے کئی لوگوں سے اس کی تحقیق کی سخت حیرت وافسوس ہوا۔جب ناچیز کی باری آئی وعظ کہنے کی،میں نے سورہ مائدہ 5 کی آیت 90:91 کی تلاوت کی اورشراب وجوا کی حرمت(حرام ہونا،ناپاکی) کی برائیاں بیان کی اور کہا کہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ اس با ت سے کبھی خوش نہیں ہوں گے کہ اُن کا چاہنے والا شرابی،جواڑی اور بے نمازی ہو۔ اور ان کے نام پاک کی محفلیں سجا کر اُن کوخوش کرلے اورجنت کو اپنی جاگیر سمجھ لے؟(بات لمبی ہے مضمون طویل ہونے کا خوف ہے)۔
میرے وعظ کے بعد شہر کے جانے مانے ایک عالم جو ایک مسجد کے امام بھی ہیں نے اپنا بیان شروع کیا اوراپنا حربہ رَطْبُ اللِّسانی،( شیریں زبانی، میٹھے بول) چاپلوسی کو استعمال کیا اور اپنی پوری تقریر سیٹھ صاحب کی چاپلوسی میں اور ان کی سخاوت کا ذِکر جمیل کرتے رہے، رہی سہی کسر نقیبِ جلسہ نے پوری کردی فاسق داڑھی منڈا سیٹھ صاحب کو کئی بار حاجی کہہ کر مخاطب کیا خوب تعریف کی(واضح رہے کہ سیٹھ صاحب حاجی نہیں تھے ) میں نے بیچ میں ٹوکا بھی لیکن نقیب جلسہ نے حاجی کا وظیفہ جاری رکھا اور اس کا انہیں انعام بھی مل گیا سو کا نوٹ اُنہیں سیٹھ صاحب نے دیا۔
اب شاعر کی باری آئی وہ کیوں پیچھے رہتے اُنھوں نے ساری حدیں پار کردیں نعت شریف کے نام پر جو تک بندی انھوں نے سنائی غزل،نظم کچھ بھی نہیں چھوڑا بہتی گنگا میں سیٹھ صاحب کا نام لے لے کر یہ شعر خاص سیٹھ صاحب کی نذر ہے اور ہزاروں روپئے اینٹھ لیے۔ بعد پروگرام سیٹھ صاحب نے با قاعدہ شعرا حضرات وعلما کا نام لے لے کر کہا چلیے کھانا کھانے آخیر میں شاعر اسلام محترم اجمل نقشبندی(مرحوم) کا نام لیا چلیں کھانا کھالیں،میں حیرت میں تھا کہ مجھے انھوں نے نہ نام لے کرکہا کھانے کے لیے اور نہ ہی اشارہ کیا تعجب ہو ا ۔
ناچیز کی عمر 55 سال ہے منٹوں میں سارا ماجرا سمجھ میں آگیا یہ معاملہ نھی عن المنکر کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ میں اُٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے گھر چلا آیا رات 2 بجے بسکٹ کھا کر اطمینان قلب کر کے سوگیا کہ الحمدللہ میں نے چاپلوسی نہیں کی اللہ کے رسول کی سنت کے احیاء اور دین اسلام کی تبلیغ کی،اب اس کا اثر یہ ہوا کہ آنجناب نے گھر میں حج بدل کرانے کی بات کی تو پورے گھر کے لوگوں نے ناچیز کا نام لیا لیکن انھوں نے اسے مسترد کردیااور اپنے نورِنظر چاپلوس امام کا نام لیا اور انھیں بھیج کر حج بدل کرا یا بہت بعد میں یہ باتیں خود نور نظر امام صاحب نے مجھے بتائیں کہ گھر کے سبھی لوگ آپ کی حمایت میں تھے لیکن سیٹھ صاحب نے مجھے بھیجا
الحمدُ للہ میری قسمت میں حج لکھا تھا میں کرکے آگیا، مجھے ذرہ برابر بھی حیرت یا افسوس نہیں ہوا،لیکن اُن کے الحمدللہ کہنے پر آج تک حیرت ہے کہ الحمدُللہ کہاں کہنا چاہئے یہ تو ان کوسمجھ ہونی چاہیے؟۔( اللہ کا شکر و احسان ہے اللہ کی جانب سے ناچیز کو یہ نعمتِ اعلیٰ نصیب ہوئی حرمین شریفین کی حاضری 2013 میں اہلیہ کے ساتھ ہوئی میں اللہ کا جتنا شکر اداکروں کم ہے)۔
جہان مفتی اعظم قدس سرہ کو خریدنے کے لیے کلک کریں
یہی وجوہات ہیں جوآج علمائے کرام کی عزت بہت لوگ نہیں کرتے حالاں کہ سبھی ایسے نہیں ؟ عام لوگوں کی بات تودور خود علما ہی علما کی عزت نہیں کررہے ہیں الا ماشا اللہ، لگے ہاتھ چند سطروں میں ایک سبق آموز واقعہ پڑھتے چلیں،جمشید پور شہر میں ہی ناچیز راقم ایک عالم سے ملنے اں کے مدرسہ گیا بہت محبت عزت اور پیار سے انھوں نے مجھے بٹھایا،اسی درمیان ایک دھنا سیٹھ وہاں آئے مہتمم صاحب اُٹھے اور اُن کو بڑے پیار سے اپنی جگہ بٹھایا مسند دی، خود طالب علم کی طرح باادب دور بیٹھے میرے دل میں یہ خیال گزرا یہ اخلاق ہے یا چاپلوسی؟(دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔
اخلاق اسلام کاحصہ ہے بہت اعلیٰ صفت ہے اخلاق کی قوت سے اسلام پھیلا ہے وغیرہ وغیرہ،لیکن چاپلوسی تو در باریوں اور مطلبیوں کی صفت ہے، بہر حال اسی درمیان ایک حافظ صاحب آئے انھوں نے سلام کیا ہم نے جواب دیا،لیکن مولانا مہتمم صاحب نے انکی جانب بالکل توجہ نہیں دیا وہ کھڑے رہے، کافی دیر ہونے پر میں نے ان کو تعاون کی رقم دی اور چلا آیا اور آجتک میں وہاں نہیں جاتا۔
اخلاق کا پیمانہ صرف دولت کے ساتھ ہو یہ شریعت میں تو نہیں،مدرسہ چلانے کی مجبوری اگر فاسق وفاجر کی تعظیم پر مجبور کرتی ہے تو اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ عالم کی تعظیم بھی کرنی چاہیے بلکہ باپ سے زیادہ عالم کی تعظیم کرنی چاہیے ۔ حضور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خا ں علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فر ماتے ہیں’’ عوام پر علماے دین کا ادب باپ سے زیادہ فرض ہے‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ج: 25 ص213) میرے دل میں علما کی بہت عزت ہے اللہ جانتا ہے۔
خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت: اس مضمون کو بھی پڑھیں
ہر دل عزیزی کے سَراب سے باہر آئیں پلیز
علما کا بہت اعلی مقام ہے احادیث طیبہ میں کثیر ذخیرہ موجود ہے ،علما کا خصوصی امتیاز ہے۔امر با لمعروف ونھی عن المنکر کی تبلیغ قرآن واحادیث سے عوام کو اڈریس کریں،میسیجز دیں، نبی کریم ﷺ سے زیادہ کس کی عزت تھی ظاہری اعلان نبوت سے پہلے ہر شخص کے آنکھوں کا تارا تھے،بہترین خُلق،بہترین انسان صاد ق الوعدا لامین کا لقب مکہ کے لوگوں نے دیا تھا!۔
لیکن جب آپ نے اعلانِ نبوت فر مایا نھی عن المنکر کی تعلیمات کا آغاز فر مایا سب آپ کے مخالف ہو گئے،ہر دل عزیزی ختم ہوگئی وہی لوگ آپ کے جانی دشمن بن گئے،آپ کے خلاف پروپگنڈہ میں لگ گئے،آپ ﷺ نے اُن کو امر با لمعروف بھی بتایا اور نھی عن المنکر بھی۔آج علما امر با لمعروف کی تبلیغ خوب کر رہے ہیں،بڑی دھوم دھام ہے ماشا اللہ الحمدللہ! جو کھلے عام سود کا کاروبار کر رہا ہے، جو کھلے عام دو2 نمبر کاروبار کر رہا ہے ،جو شریعت اسلامیہ کی دھجیاں اُڑا رہا ہے ،جوا،سٹہ چلا رہا ہے،شراب پی رہا ہے اس کا کاروبارکر رہا ہے،اُس کے وہاں کے پروگراموں میں علما بنفسِ نفیس جارہے ہیں قورمہ،بر یانی نوش فر ما رہے ہیں،ماشا اللہ ما شا اللہ خوب واہ واہ کررہے ہیں( کچھ کو چھوڑ کر الا ماشا اللہ)۔
لیکن ان کی نجی محفلوں میں یا عام محفلوں میں یا ان کے وہاں کے جلسوں میں نھی عن المنکر کی تبلیغ کی طرف کوئی توجہ کیوں نہیں؟ جو ان کے اندر خرابیاں در آئی ہیں ان کی اصلاح کون کرے گا ؟ظاہر سی بات علما کی ذمہ داری ہے،لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے،اس لیے کہ اُن کی ہر دل عزیزی ختم ہوجائے گی یہ ہر دل عزیزی کا چسکا بہت ہی خراب ہے،کوئی برا بننا نہیں چاہتا یہ عدم توازن،بے توجہی،بے احتیاطی اسلام کے لیے مسلم سماج کے لیے زہر ہے ،زہر ہے، زہر ہے۔
اُخْرِجَتْ لِلنَّا سِ۔ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کسی خاص نسل، قوم،ملک، رنگ کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کی اصلاح،خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور ایسے ہی اوصاف والے مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری سنائی ہے،تر جمہ: اور اہلِ ایمان مرد اور اہل ِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے رسول( ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فر مائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ (القر آن ،سورہ توبہ9: آیت72)۔
میں نے جو باتیں لکھی ہیں صرف احیائے دین وسنت کے جذبہ سے لکھی ہیں علما کی تحقیر کی نیت سے نہیں واللہ العظیم اگر سخت ہوگئی ہوں تو معذرت چاہتا ہوں،اس میں کوئی اصلاح کی بات ہو تو ضرور بلا تکلف اشارہ فر مائیں ،اللہ ہم سب کو امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ نھی عن المنکر کی تبلیغ کی توفیق رفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین:۔
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہا جرہ رضویہ
اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور
جھارکھنڈ پن کوڈ 831020
رابطہ 09279996221
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع