از۔ محمد رضی احمد منظری حضور مفتئ اعظم ہند ہمہ جہت شخصیت
حضور مفتئ اعظم ہند ہمہ جہت شخصیت
حدیث شریف میں ہے: ” خیر الناس من طال عمرہ وحسن عمله” یعنی لوگوں میں بہتر وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں
یوں تو اس حدیث مقدسہ کا مصداق بہت سے بزرگان دین واولیاے کاملین کی ذات مبارکہ رہی ہے جن کی سوانح عمری وحیات طیبہ پر روشنی ڈالنے کے لیے ذہن وفکر اور زبان و قلم میں اتنی وسعت اور طاقت وقوت نہیں کہ ان کے بارے میں کچھ کہا جاسکے۔
البتہ میں آج ایسی ہمہ جہت شخصیت کی ذات ستودہ صفات پر مختصر روشنی ڈالنے کی سعی کر رہا ہوں جو مذکورہ حدیث پاک کے کامل مصداق ہیں اور ایسی ذات بابرکات بھی ہیں جن کا دیدار نخل زندگی کی فصل بہار۔جن سے شرف لقاء دیدۂ و دل کے لیے حاصل کائنات۔جن کی گفتگو بزم تخیل کی آبرو ۔جن کے خلوص وللہیت کا ہر انداز قسمت کے لیے باعث اعزاز وفخر۔جن کے غلامی کی سعادت خلاق دوعالم کی مخصوص عنایت ۔۔۔۔جن کے قول و فعل،سیرت وصورت،فضل وکمال اور فکرونظر کتاب زیست کی جاں نواز روداد ہے
جنہیں دنیاے سنیت وپیروکار مسلک حق (مسلک اعلیٰ حضرت) ۔۔۔۔۔شمع بزم سنن،ماحئ شروفتن،محور فکروفن، تاجدار اقلیم سخن، مرجع الفقہا والصوفیا والعلما،سید المتقین، تاج دار اہل سنت ،شہزادۂ اعلیٰ حضرت، سیدی سرکار مفتئ اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ مفتی ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفیٰ رضا خان نور اللہ مرقدہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے
آپ کو اللہ رب العزت نے ایسی عظمت و سربلندی فکر وتخیل علم و آگہی زہد وتقوی صبر و رضا عطا فرمائی تھی جو اکناف عالم میں عدیم المثال وعدیم النظیر حیثیت کا حامل ہے
آپ اپنی جلوت کو گرمئ کردار اور خلوت کو شوقئ گفتار سے ایسا تابناک رکھتے تھے کہ اس شبستان سے اٹھنے والی خوشبوؤں سے مشام کائنات خود بخود معطر ہوتا رہتا تھا
آپ نے اپنی قندیل شعور آگہی سے ظلمات فکر وتخیل کے دبیز پردوں کو چاک کیا، اور گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا فرمائی
جن کے دوش ناتواں پر افتاء وقضا ، امت کی اصلاح وفلاح ، بیعت وارشاد ، پند و نصائح ، دینی محافل میں شرکت ، دعا وتعویذ ، ملکی وملی مہمات وامور ، احکام شرع کا التزام ، فرائض منصبی کا بھر پور پاس ولحاظ ، اور دیگر ناگاہ درپیش آنے والے معاملات کی ذمہ داری ہونے کے باوجود ابتدا تاانتہا نغمۂ توحید ربانی وزمزمۂ توصیف رسول لا ثانی میں ہمہ وقت مصروف وشرشار رہنا بھی ہے
آپ کی ولادت باسعادت ۲۲/ ذوالحجۃ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔۔۔پیدائشی نام”محمد” اور عرفی نام “مصطفیٰ رضا” ہے عالم غیب سے آل رحمٰن اور مرشد برحق حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ العزیز نے ابو البرکات محی الدین جیلانی نام تجویز فرمایا
اور یہی آپ کے مرشد کامل بھی ہیں آپ نے مفتی اعظم ہند کو ایام طفولیت میں ہی بیعت کرتے وقت فرمایا تھا کہ یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا ، یہ بچہ ولی ہے ، اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ وبد مذہب انسان دین حق دین اسلام پر گامزن ہوں گے ، یہ بچہ فیض کا دریا بہائے گا۔۔۔۔اور واللہ ایسا ہوا بھی
سخن آموزی کی منزل طے کرنے کے بعد آپ علیہ الرحمۃ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا اور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد بزرگوار سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ اور برادر اکبر حجة الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ ودیگر اساتذہ سے حاصل کی اور ( ۱۸) سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون سے بہرآور ہوئے بعدہ یادگار اعلیٰ حضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں ہی مسند تدریس کو رونق بخشی غالباً تیس سالوں تک علم و حکمت کے دریا بہائے بر صغیر ہندوپاک کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ وتلامذہ کے تلامذہ اور مستفیدین سے مشرف ہیں
آپ کے طریقے تعلیم وتربیت کے بارے فقیہ ذی شان مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی مدیر عام (الادارة الحنفيه) کشن گنج بہار وفقیہ العصر شارح بخاری حضرت علامہ مولانا محمد شریف الحق امجدی صدر مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے بیان فرمائے ہیں
جن کے مطالعے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فقہائے فقیہ المثال علامہ ابن عابدین شامی و اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہما الرحمۃ نفس نفیس آپ کی تعلیم وتربیت کررہے ہیں
آپ کی (٩٢) سالہ حیات مبارکہ میں بہت سارے مختلف موڑ آئے پریشانیاں آئیں
کبھی شدھی تحریک کا قلعہ قمع کرنے کی غرض سے جماعت رضائے مصطفے کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے دست آزمائی کے لئے سر پر کفن باندھ کر میدان خارزار میں کود پڑے ، لاکھوں انسانوں کو کلمۂ طیبہ پڑھایا اور کروڑوں کے ایمان وعقیدے کی حفاظت وصیانت فرمائی ، قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازوں کو دبایا ، نسبندی کا طوفان آیا جس میں بڑے بڑے ثابت قدم متزلزل ہوگئے
ایسے میں آپ کی ذات نے استقامت فی الدین کا جبل شامخ بن کر اس کا مقابلہ کیا اور آپ نے نسبندی کی حرمت کا علی الاعلان فتویٰ صادر فرمایا جس کے سبب مختلف مصائب وآلام بھی جھیلنے پڑے جہاں عموماً دینی ادارے خاموش تھے یا پھر جواز کا فتویٰ دے چکے تھے
آپ کی عبادت وریاضت زہد وتقوی کا یہ عالم ہے کہ سفر وحضر شام وسحر گویا کہ آپ کی زندگی کا ہر پہر فرائض واجبات اور سنن و نوافل سے خالی نہیں حتی کہ آپ خلاف اولی امور سے بھی اجتناب کرتے تھے
آپ کی تصانیف و تالیفات علم و تحقیق کا منارۂ ہدایت ہیں جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں حق تحقیق و تدقیق ادا فرماتے ہیں
آپ کی تصانیف میں
المکرمة النبویة فی الفتاوی المصطفویه
اشد العذاب علی عابد الخناس
صلیم الدیان لتقطیع حبالةالشیطان
سیف القھار عبد الکفار
القول العجیب فی جواز التثویب
الطاری الداری لہفوات عبد الباری
حجة الواھرہ بوجوب الحجة الحاضرة
القسورہ علی ادوار الحمرة الکفرة
القثم القاصم للداسم القاسم
الکاوی فی العاوی والغاوی
حاشیةالاستمداد
حاشیة فتاویٰ رضویہ اول،پنجم
مسائل سماع
وغیرہ وغیرہ سرفہرست ہیں
آپ کے تلامذہ خلفاء مریدین متوسلین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جنہیں شمار کرانا ، اور حیطۂ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
حضرت علامہ حشمت علی خان،حضرت علامہ سردار احمد صاحب،مفتی محمد اعجاز ولی خان، مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب، مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خان، علامہ سید احمد سعید صاحب،مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن صاحب،علامہ عبد المصطفیٰ صاحب،علامہ مفتی مشتاق احمد نظامی صاحب، علامہ تحسین ملت، علامہ ریحان ملت حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری میاں ،علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی صاحب ، مفتی محمد رجب علی نانپاروی صاحب وغیرہ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ کے نام آپ کے تلامذہ وخلفا میں سرفہرست شامل ہیں
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکانوے سال اکیس دن عمر میں مختصر علالت کے بعد (١٤)/ محرم الحرام ١٤٠٢ھ مطابق (١٢)/نومبر ١٩٨١ء رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان للہ و انا الیہ رجعون
آپ کے وصال پرملال کی خبر دنیا کے مشہور ریڈیو اسٹیشنوں نے نشر کی۔۔۔۔اسلامیہ گراؤنڈ بریلی شریف میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی بعدہ والد گرامی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بائیں پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے اور وہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہیں
آپ کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی جو آپ کی خداداد مقبولیت وشہرت اور جلالت شان کا واضح ثبوت ہے
لفظ طہ میں ہے مضمران کی تاریخ وصال
چودہویں کی رات کو وہ بے گماں جاتا رہا
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
از محمد رضی احمد منظری
المتخصص فی الفقہ الاسلامی
امام احمد رضا لرنغ ایند ریسرج سینتر ناسک مہاراشترا الھند
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع