از قلم: محمد جنید رضا خاندان رسول کے قاتلوں کا عبرت ناک انجام
خاندان رسول کے قاتلوں کا عبرت ناک انجام
اللہ عزوجل کی ذات ظلم و جبر سے پاک ہے۔وہ ظلم کو کبھی گوارہ نہیں کرتاہے اور وہ بھی ان ہستیوں کے ساتھ جو خاندان رسول کے مہکتے پھول ہیں۔ جن کو حضور ﷺ نے جنتی جوانوں کا سردار بنایا ہے۔ جن کی ماں کو جنتی عورتوں کی سردار بنایا۔ وہ اہل بیت جن سے محبت کرنے کا حکم دیا۔ اور وہ جن کی دشمنی کو اپنی دشمنی قرار دیا، ہاں یہ وہی خاندان ہے جن کی رگوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خون گردش کر رہا۔
ظالموں نے خاندان رسول ﷺ کو 61 ھ میں میدان کربلامیں بڑی بے دردی اور سفاکی کے ساتھ میدان کربلا میں شہید کر دیا، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر بھی رحم نہ کھایا،اور انہیں پیاس کی شدت سے تڑپا تڑپا کر بے دردی سے تیروں کی بوچھار کرکے شہید کیا گیا۔ ان ظالموں کے ناپاک جسموں سے انسانیت بھی نکل چکی تھی، کہ شہداء کربلا کی لاشوں کو بے گور و کفن چھوڑ چلے گئے۔
ابو شیخ کی روایت میں آیاہے
۔’’کچھ لوگ بیٹھے ذکر کر رہے تھے کہ جس نے امام مظلوم کے قتل میں کچھ اعانت کی کسی نہ کسی بلا میں ضرور مبتلا ہوا۔ ایک بڈھے نے اپنے ناپاک نفس کی نسبت کہا کہ ’’اسے تو کچھ نہ ہوا‘‘ چراغ کی بتی سنبھالی، آگ نے اس شخص کو لیا، آگ آگ چلاتا فرات میں کود پڑا مگر وہ آگ ہی نہ بجھی یہاں تک کہ آگ میں پہنچا‘‘۔اس روایت سے سمجھ میں آیا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے خاندان والوں کے ساتھ براچاہنے والوں کا انجام تباہی ہے ، اس دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔
منصور بن عمار نے روایت کی کہ’’امام رضی اللہ عنہ‘‘کے قاتل ایسی پیاس میں مبتلا ہوئے کہ ایک ایک مشک چڑھا جاتے اور پیاس کم نہ ہوتی‘‘۔
امام واقدی فرماتے ہیں کہ ’’ایک بڈھا وقت شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ موجود تھا شریک نہ ہوا تھا، اندھا ہوگیا۔ سبب پوچھا، کہا ’’اس نے مصطفیﷺ کو خواب میں دیکھا، آستین چڑھائے ہوئے، دست اقدس میں ننگی تلوار لیے سامنے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے دس قاتل ذبح کیے ہوئے پڑے ہیں۔ حضور ﷺ نے اس بڈھے پرغضب فرمایا کہ تو نے موجود ہو کر اس گروہ کو بڑھایا اور خون امام کی ایک سلائی آنکھ میں لگادی۔ اٹھا تو اندھا تھا‘‘۔
سبط ابن الجوزی روایت کرتے ہیں:’’جس شخص نے سر مبارک امام مظلوم رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھوڑے پر لٹکایا تھا، چند روز بعد اس کا منہ کوئلے سے زیادہ کالا ہوگیا۔ لوگوں نے کہا تیرا چہرہ تو عرب بھر میں تروتازہ تھا یہ کیا ماجرا ہے؟ کہا جب سے وہ سر اٹھایا ہے ہر رات دو شخص آتے اور بازو پکڑ کر بھڑکتی آگ پر لے جاکر دھکا دیتے ہیں۔ سر جھکتا ہے آگ چہرے کو مارتی ہے پھر نہایت برے حالوں میں مرگیا۔(آئینہ قیامت: مولانا حسن رضا بریلوی علی)۔
خولی بن یزید کا انجام : یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک جسم سے جدا کیا تھا۔ اور اس کو نیزے پر لٹکا کر لایا تھا۔ جب یہ گرفتار ہو کر مختار کے سامنے لایا گیا تو مختار غصے سے کانپنے لگا۔ اور کہا جلدی سے اس کو چومیخا کرو(یعنی ان کے ہاتھ پاؤںرسیوں سے باندھ دو)۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ پیر کاٹو تاکہ دنیا اس دشمن اہل بیت کا جی بھر کر تماشہ دیکھے۔ خولی کو اس ذلت اور رسوائی کے ساتھ قتل کرکے اس کی لاش کو جلا کر خاک کر دیا گیا۔ (سیرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ،)۔
شمر اور ابن سعد کا انجام : شمر اور ابن سعد کو گرفتار کرکے مختار کے سامنے پیش کیا گیا، تو مختار نے ان کو دیکھتے ہی پوچھا تم ہی لوگ ہو نہ جن کے حکم سے ساقی کوثر کے نواسے اور ان کے جانثاروںپر پانی بند کیا گیا اور کربلا کے تپتے ہوئے ریگزاروں پر تڑپا تڑپا کر شہید کیا گیا۔ اے شمر! اے ابن سعد! سچ بتانا اس ناپاک کام کے بدلے میں تم کو کتنی دولت ملی؟ ظالموں! تم کو ذرا سی بھی غیرت نہ آئی کہ جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو انہیں کے نواسے پر اتنا ظلم کرتے ہو۔ جلاد ان کو میرے سامنے تڑپا تڑپا کر کر ذبح کر دو تاکہ ان کی عبرت ناک موت سے لوگ سبق حاصل کریں۔
حرملہ بن کاحل کا انجام بد : یہ وہ بد بخت ہے جس نے حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے حلقوم پر ایسا تاک کرتیر مارا، کہ وہ آپ کے حلقوم کو چھیدتا ہوا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بازو میں پیوست ہو گیا۔ اس پر یہ عذاب نازل ہوا کہ اس کے پیٹ پر سامنے شدید ترین گرمی محسوس ہوتی تھی اور پیٹھ میں سخت ترین ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی جس سے وہ پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ پیٹ کی گرمی سے نجات پانے کے لیے ہمیشہ پنکھا جھلتا رہتا اور پیٹھ کی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لیے آگ جلاتا۔ کچھ دن بعد پیاس کی اتنی شدت بڑھ گئی کہ ہمیشہ پانی پیتا رہتا لیکن پیاس نہ بجھتی۔ انہیں مشکلات میں وادی جہنم پہنچا۔
جابر بن یزید ازدی کا انجام : یہ وہ شخص تھا جس نے شہادت امام کے بعد آپ کا عمامہ شریف اتارا۔ یہ بد نصیب پاگل ہو گیا تھا اور گندی نالیوں کا پانی پیتا اورجانوروں کی لید کھاتا ہوا مرا۔ (از: سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ)۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم کے گھر والوں سے محبت تو ایمان کا ایک اہم جز ہے اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو تباہی ہے اور ان سے بغض رکھنے والوں کا انجام دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔
قاتلین شہداے کربلا کے مذکورہ واقعات تو ذلت و رسوائی کی ایک مثال ہیں جو دنیا میں ہی ان کو ملی۔ ابھی آخرت کا نہ ختم ہونے والا عذاب تو باقی ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ،اپنے گھر والوں اور بچوں کے اندر محبت رسول اور محبت صحابہ و اہل بیت پیدا کریں ، ان کا ذکر خیر کرتے رہیں تاکہ ہماری نسلیں محبت رسول میں آباد رہیں ۔اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
محمد جنید رضا
اسلامک اسکالر، بریلی
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع