از قلم: مفتی خبیب القادری مدناپوری بیوہ اور طلاق شدہ عورت کے نکاح کو معیوب سمجھنا
بیوہ اور طلاق شدہ عورت کے نکاح کو معیوب سمجھنا
ہمارے معاشرے میں اتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے
آج ہم صرف ایک برائی کے متعلق بات کرتے ہیں اور وہ برائی ہے بیوہ یا طلاق شدہ عورت کے نکاح کو معیوب سمجھنا
اولاً قرآن مجید و احادیث کریمہ کی روشنی میں نکاح کی فضیلت بیان کرتے ہیں
اللہ تعالی کا ارشاد ہے خداتعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے آرام پکڑو اور تم میں دوستی اور نرمی رکھ دی (سورہ روم)۔
دوسرا ارشاد ہے تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا کرنے کے لیے بمنزلہ کھیتی کے ہیں
تیسرا ارشاد ہے بیوی کی قربت سے اولاد کا قصد کرو جس کو اللہ تعالی نے تمہارے لیے مقرر فرمایا ہے
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی اور زیادہ محبت کرنے والی ہو کیوں کہ قیامت کے دن میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا
مزید فرمایا تم میں سے جو نکاح کرنے کی وسعت رکھتا ہو پھر نکاح نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں
مزید فرمایا جب بندہ نکاح کر لیتا ہے تو آدھا ایمان مکمل کر لیتا ہے اب اس کو چاہیے بقیہ نصف دین میں اللہ تعالی سے ڈرتا ر ہے
آج بہت سے مردو زن ایسے بھی ہیں جومال ودولت ہونے کے باوجود شادی نہیں کرتے حالاں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”محتاج ہے محتاج ہے وہ مردہ جس کی بیوی نہ ہو لوگوں نے عرض کیا اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ محتاج ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ بہت مال والا ہو
پھر فرمایا محتاج ہے محتاج ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو لوگوں نے عرض کیا اگرچہ وہ مال دار ہو تب بھی وہ بہت محتاج ہے آپ نے فرمایا ہاں اگر چہ وہ مال والی ہو” (اللہ اکبر)۔
نکاح بہت بڑی اللہ تعالی کی نعمت ہے نکاح بمنزل لباس ہے تو بے نکاح رہنا عریانی ہے نکاح سے انسان کی نظر نیچی اور خواہشات کم ہو جاتی ہیں
آج معاشرے کا جائزہ لیا جاے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سے لوگ صاحب استطاعت ہونے کے باوجود نکاح نہیں کرتے اس میں مرد ہی نہیں بلکہ مستورات بھی شامل ہیں؛ بیوہ اور طلاق شدہ عورت کے نکاح کرنے کو تو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
حالاں کہ پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں صرف ایک بیوی کنواری تھیں باقی سب بیوہ یا طلاق شدہ عورتیں تھیں جو ہماری مائیں ہیں
سیرت رسول سے پتہ چلتا ہے کہ بیوہ اور طلاق شدہ عورت سے نکاح کرنا سنت ہے بعض لوگ لاعلمی کے سبب بیوہ اور طلاق شدہ عورت کے نکاح ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں ایسا زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا
زمانہ جاہلیت کی ایک مثال پیش کرتا ہوں
اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو اس کے ساتھ ہی اس عورت کو جلا دیا جاتا تھا یا ایک کمرے میں چھ ماہ کے لیے قید کر دیا جاتا تھا اور اس کی ضروریات زندگی کو وہیں پیش کیا جاتا تھا یا تو وہ گھٹ گھٹ کے مر جاتی تھی اور اگر زندہ بچ تھی تو اس کامنہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر شہر میں گھمایا جاتا تھا اور یہ ثابت کیا جاتا تھا یہ وہ منحوس عورت ہے جس کی نحوست کی وجہ سے اس کا شوہر مرگیا آج بھی بہت سے لوگ اس رسم پر عمل کرتے ہوے نظر آتے ہیں
اگر غور وفکر تدبر و دانائی سے کام لیا جاے تو بہ نسبت پہلے نکاح کے( جب کہ وہ کنواری تھی) دوسرا نکاح اس بیوہ کا اہم ہے کیوں کہ پہلے وہ خالی الذہن تھی صالح زوجیت کا یا تو علم ہی نہ تھا یا تھا علم الیقین( یعنی صرف علم تھا) تھا اور اب اس کو عین الیقین( یعنی مشاہدہ) ہو گیا ہے اس حالت میں وسواس حسرات کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے جس سے کبھی صحت کبھی آبرو کبھی دین کبھی سب برباد ہوجاتے ہیں
خلاصہ کلام
امت مسلمہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش ہے کہ اپنے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں کے نکاح پر غوروفکر کریں امت محمدیہ کی کثرت کو دھیان میں رکھیں” تعدد زوجات” اور “کثرت اولاد” کا سبب بنیں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
رشحات قلم مفتی خبیب القادری
مدنا پوری بریلی شریف یوپی بھارت
موبائل 7247863786
اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں: ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع