کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط اول تحریر: سید اکرام الحق قادری
کیا صحابۂ کرام عادل و مخلص نہ تھے
یہود و نصاری کی چاپلوسی ،بر سرِ اقتدارسیاسی پارٹی کی مداہنت اور اُس کی خصیہ برداری کرتے کرتے رافضیت و شیعیت کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو چکا ہے۔ اپنی قوم کے غلبے کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ابلیس کی اولاد اور متعہ کی پیدا وار نے سوشل میڈیا پر، حُبِّ اہلِ بیتِ کرام علی جدہم و علیہم الصلوٰۃ والسلام کی آڑ میں صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت پر بھونکنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
غالی رافضیوں نے اصحابِ رسول ﷺ کے خلاف طوفانِ بد تمیزی بپا کر رکھا ہے۔ وہ باتیں جو اُن کے بڑوں نےصحابۂ کرام کے خلاف اپنی کتابوں میں لکھی تھیں،یہ دُوزَخی کتے اُنھیں بر سرِ منبر و محراب کھلے عام بیان کر رہے ہیں۔ حالات اِس قدر بے قابو ہو چکے ہیں کہ یہ گستاخ ٹولہ پاگل کتے کی طرح دندناتے پھر رہا ہے اور خود سے موافقت نہ رکھنے والے ہر شخص کو کاٹنے اور زخمی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ ناہنجار و گستاخ جماعت بار بار اُنھیں اعتراضات کو دہرا رہی ہے جن کے مدلل جوابات ہمارے اسلافِ کرام اپنی بے شمارتصنیفات و تالیفات میں دے چکے ہیں ؛ مگر پھر بھی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اہلِ سنت و جماعت کے پاس اُن کے اعتراضات کے جوابات نہیں ۔
کم علمی اور قِلَّتِ معلومات کے سبب عوامِ اہلِ سنت کے متعدد افراد اور خود کو خواصّ میں شامل کرنے والے بعض اہلِ خانقاہ بھی اُن کے دامِ فریب میں آ کر رافضیت کا شکار ہو چکے ہیں اور سنی ہونے کے باجودبڑے طمطراق سے رافضیوں کی بولی بول رہے ہیں ۔
اِس لیے اہلِ بیتِ کرام کی مقرَّرَہ عظمت و شان کواُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ، صحابۂ کرام کے جاہ وجلال،عظمت و شان اور مقام و مرتبہ کو نا قابلِ تردید دلائل کی روشنی میں نہایت آسان اور واضح لب و لہجہ میں بیان کرنا اور اُن پاک باز ہستیوں پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے اُن کا دفاع کرنا علماے اہلِ سنت کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔
یہ مضمون اِسی سلسلے کی ایک مختصر کڑی ہے ۔ اِس مختصر مقالےمیں قسط وار صحابۂ کرام سے متعلق اہلِ سنت و جماعت کے صحیح ،حقیقی اور واقعی موقف کو واضح کیا جائے گا ، اہلِ رِفض کی جانب سے اُن پر کیے گئے اعتراضات کو معقولی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اُن کے عقائدِ باطلہ کا بھر پور رد کیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ العزیز۔قارئینِ کرام سے گزارش ہے کہ راقم کی آواز کو دور دور تک پہنچا کر، ناموسِ اہلِ بیت و ناموسِ صحابہ پر پہرا دینے کی کامیاب کوشش کریں۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین وہ مقدَّس ہستیاںہیں جنھوں نے ایمان کی حالت میں اپنی خوش قسمت آنکھوں سے حضور تاجِ دار کائنات رحمتِ کونین محمد مصطفیٰﷺ کا دیدار کیا ، حسن و جمالِ مصطفیٰ ﷺسے مستنیر ہوئے ، بلا واسطہ حضور ﷺ سے تعلیم پائی ،آپ ﷺ کی تربیت و رِفاقت میں رہے ۔
ہزاروں صحابۂ کرام نے دین کی سر بلندی کے لیے اپنے آقا و مولا ﷺ کے ساتھ جہاد کیا ، آپ ﷺ کے قدموں پر جانیں قربان کیں ۔ ہزاروں صحابۂ کرام نے سالہا سال تک حضور ﷺ کی زبانِ اقدس سے قرآنی آیات اور نبوی ارشادات سماعت کیے ۔
صحابۂ کرام دینِ متین کی مضبوط جڑیں ہیں ، کوئی بھی غیرِصحابی اُن خوبیوں کا حامل نہیں ہو سکتا جن سے اللہ عز وجل نے اپنے نبی ﷺ کے صحابہ کو سرفراز فرمایا ہے ۔ صحابۂ کرام کی عظمت و شان سے قرآنِ مقدس کی آیتیں اور رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بھری پڑی ہیں ، اُنھیں تسلیم نہ کرنا اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے ۔
اسی لیے اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک جملہ صحابہ کو مخلص ،مامون ، ثقہ، عادل اور متقی ماننا لازم وضروری ہے۔اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ [مرقاۃ المفاتیح ، ج:۵، ص:۵۱۷] ترجمہ: تمام صحابۂ کرام عادل اور قابلِ اعتماد ہیں۔ یہ ، فقہاے کرام ، محدثینِ عظام اور مشائخِ جرح و تعدیل کا اِجماعی و تسلیم شدہ عقیدہ ہے ۔ قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی کے ظاہری نصوص سے یہی ثابت ہے ۔صحابہ کرام پر جرح کرنا ، ان پر فسق کی تہمت لگانا اور انھیں بدعتی و غاصب قرار دینا ایمان و اسلام کو مشکوک کرنا ؛بلکہ دین متین کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کی ناپاک وناکام کوشش کرنے جیسا ہے
کیوں کہ انھی حضرات کے توسط سے یہ دین و ایمان ہم تک پہنچا ہے ۔ اُن کی پاکیزگی ، طہارت ، عدالت اور ثقاہت کو تسلیم کیے بغیر نہ ہی دینِ اسلام کو سمجھا جا سکتا ہے نہ ہی اُسے قبول کیا جا سکتا ہے ۔
تحریر: سید اکرام الحق قادری
پرسنپل دارالعلوم محبوب سبحانی کرلا، ممبٔی
فضائل حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پڑھنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع