Wednesday, November 20, 2024
Homeحالات حاضرہزمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

زمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

تحریر: طارق انور مصباحی زمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

زمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

چین وعرب ہمارا،ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم،وطن ہے سارا جہاں ہمارا

مکہ معظمہ جو حرم خداوندی تھا،اورحضور اقدس شفیع محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا آبائی وطن تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک خاندان حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے سے وہاں آباد تھا۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ وحضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہماالصلوٰۃوالسلام کے مبارک ہاتھوں سے تعمیر کردہ کعبہ مقدسہ بھی وہاں رونق افروز تھا

لیکن جب کفارمکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی اور مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا تواپنی جانوں کے تحفظ کے واسطے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔

ہجرت کے حکم سے واضح ہوگیا کہ انسانی جانوں کے بالمقابل ملک ووطن کی کوئی حقیقت واہمیت نہیں۔حضرات صحابہ کرام مکان وجائیداد چھوڑکر ہجرت فرماگئے۔

بہت افسوس ہوتا ہے کہ بھارت کی آزادی کو بہتر سال سے زائد ہوگئے،لیکن ریاست کشمیر میں امن وامان مکمل طورپر بحال نہ ہوسکا۔ ان بہتر سالوں میں لاکھوں کشمیری جوان،بچے،بوڑھے ہلاک ہوئے،یہاں تک کہ عورتیں بھی ہلاک کی گئیں۔

بہت سے لوگ بھارتی فوج اورپولیس اہل کاروں کے ہاتھوں مارے گئے، اورکچھ لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوابیٹھے۔

کشمیر اب جنت نظیر نہیں،بلکہ جہنم نظیر بن چکا ہے

کشمیر میں ہمیشہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ انجام بایں جا رسید کہ رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد سے اب تک دس ہزار سے زیادہ عورتوں کی عصمت دری ہو چکی ہے۔ شاید دنیا کے کسی حصے میں بھی ایسی شرمناک حرکتیں نہ ہوتی ہوں گی۔چوں کہ وہ مسلمان ہیں،اس لیے ان کی عزت و حرمت نہیں۔

وہاں ایسے ایسے مظالم ہوتے ہیں کہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کشمیریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ہر حکومت صرف امید دلاتی ہے کہ حالات کو کنٹرول کرے گی،لیکن عملی طور پر حالات میں کچھ بہتری نظر نہیں آتی۔

اگست 2019 کوریاست جموں وکشمیر سے مرکزی حکومت نے دفعہ 370 ہٹا دیا،اور 35 اے کو منسوخ کر دیا ہے۔ابھی تو لاک ڈاؤن ہے۔ اس بات کا قوی خطرہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کشمیری نوجوانوں کو ورغلا کر احتجاج اور مظاہروں میں جھونک دیا جائے اورماحول میں ابتری پھیل جائے،اورپھر انسانی جانیں ضائع ہوں۔حقوق انسانی کوملیا میٹ کیا جائے اور اہل کشمیر پر ایک نئی آفت ومصیبت ٹوٹ پڑے۔

اگر اہل کشمیر کی تعداد چند ہزار ہوتی تو میں یہی مشورہ دیتا کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت سے بات چیت کرکے وہ لو گ بھارت کی دیگر پرسکون آبادیوں کی طرف منتقل ہوجائیں،تاہم میں اتنا ضرور کہتا ہوں کہ جو کشمیری بھارت کے جن علاقوں میں امن وسکون کے ساتھ آباد ہیں،وہ وہیں جمے رہیں۔واپسی کا خیال دل سے نکال دیں۔جو لوگ بیرون ممالک کی شہریت پا چکے ہیں،وہ ان ہی ممالک میں باشندگی اختیار کرلیں۔

انسانی جانوں کی قیمت زمین کے ٹکڑوں سے بہت زیادہ ہے،بلکہ انسانی جانیں انمول ہیں،جن کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔کشمیر و فلسطین میں انسانی جانوں کی تباہی وبربادی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے،مگر ہم مجبور ہیں۔ ہم دعائے خیر کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ہم ایک کاتب ہیں،کچھ لکھ سکتے ہیں، وہ ہم لکھ رہے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ میری رائے صحیح ہے یاغلط؟ہاں، جذبہ خیر خواہی میرے دل میں موجود ہے۔اگر میری تجویزصحیح ہے تو اللہ تعالیٰ اس کوقبول فرمائے،اور لوگوں کے دلوں کواس جانب راغب فرما دے:(آمین)۔

بلاقصور اور بلاجرم ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشادفرمایا

مِن اَجَلِ ذٰلِکَ کَتَبنَا عَلٰی بَنِی ٓاِسرَآءِیلَ اَنَّہٗ مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَیرِ نَفسٍ اَو فَسَادٍ فِی الاَرضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا-وَمَن اَحیَاہَا فَکَأَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (سورہ مائدہ:آیت 32)۔

ترجمہ:اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی، بغیرجان کے بدلے یا زمین میں فساد کے توگویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اورجس نے ایک جان کو جِلا لیا،اس نے گویا سب لوگوں کو جِلالیا۔ (کنزالایمان)۔

منقوشہ بالا آیت مقدسہ سے واضح ہوگیا کہ بلا کسی جرم کسی انسان کو قتل کرنا سارے انسانوں کو قتل کرنا ہے اور ایک انسان کی زندگی بچالینا سارے انسانوں کی زندگی بچا لینا ہے۔انسانوں کو پیدا فرمانے والے رب نے انسانی جانوں کی اہمیت اس آیت مبارکہ میں بیان فرمائی ہے۔ کسی ایسے جرم کے سبب ہی کسی انسان کی جان لی جا سکتی ہے جوجرم اتنا بڑا ہو۔

سی اے اے کے مظاہرین پر جس طرح بلا کسی جرم کے پولیس والوں نے گولیاں برسائیں،وہ یقینا غلط تھا اور کشمیر میں آئے دن اس طرح کی غلطیا ں دہرائی جاتی ہیں۔

اپنی جان ومال اورعزت وعصمت کی حفاظت کے لیے ہرایک کو جائز قدم اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ خطہ کشمیر مکہ معظمہ سے بڑھ کر نہیں۔

مشرکین مکہ کی طرف سے اتنا سخت ظلم وستم نہیں ہوتا تھا،جس قدر ظلم کشمیریوں پر ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ نے کسی مسلمہ عورت کی عصمت ریزی نہیں کی تھی۔ حضر ت عماربن یاسرکے والدین کریمین حضرت یاسر و حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کے علاوہ ہلاکت کا کوئی واقعہ بھی مجھے نہیں ملا۔

اہل کشمیر پرظلم وستم کا آغاز کب سے ہوا ؟

کشمیر میں 1586سے 1751تک مغلوں کی حکومت تھی۔سلطنت مغلیہ کے کمزورہونے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے کشمیرپرقبضہ کرلیا۔1819میں کشمیرکے علاقوں پر رنجیت سنگھ (پنجابی سکھ)نے قبضہ کرلیا۔اسی کے زمانے سے کشمیری مسلمانوں پرظلم وستم کا ایک نیادور شروع ہوا۔گؤکشی کی سزا موت قراردی گئی۔بعدمیں ڈوگرہ حکومت نے اس سزا کو عمر قید سے بدل دیا،جب تک 19مسلمانوں کو پھانسی کی سزادی جا چکی تھی۔

گلاب سنگھ ڈوگرہ(1792-1857)، رنجیت سنگھ (1780-1839)کی حکومت کا ایک اعلیٰ عہدہ دار تھا۔گلاب سنگھ جموں کے ایک راجپوت خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس کا خاندان،ڈوگرہ خاندان کہلاتا تھا۔

رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کے وارثوں اورفوجیوں میں اختلاف ہوا۔اسی درمیان انگریزوں نے بھی رنجیت سنگھ کے علاقوں پرقبضہ کی کوشش کی۔گلاب سنگھ نے درپردہ انگریزوں کی حمایت کی۔

16:مارچ 1846کوانگریزو ں نے 75:لاکھ کے عوض کشمیرکا علاقہ جموں کے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کردیا۔ اس کے بعداس کا بیٹا زنبیرسنگھ،پھر زنبیرسنگھ کا بیٹاپرتاپ سنگھ کشمیر کا راجہ بنا۔زنبیرسنگھ کے تین بیٹے تھے۔ پرتاپ سنگھ،امر سنگھ،رام سنگھ۔پرتاپ سنگھ لاولدتھا۔ 1925 میں پرتاپ سنگھ کی موت ہوگئی۔

پرتاپ سنگھ کی موت کے بعد اس کا بھتیجہ ہری سنگھ ولد امرسنگھ سازش کے ذریعہ 1925 میں کشمیر کا حکمراں بن گیا۔ڈوگرہ خاندان کی حکومت کے آغاز سے ہی کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کاآغاز ہوچکاتھا۔

ہری سنگھ (1895-1961)کے عہد میں کشمیری مسلمانوں پرظلم وستم مزید تیز ہوگیا۔ ہری سنگھ کے عہد میں 1948میں کشمیر کا الحاق بھارت سے ہوا۔کشمیرکے معاملہ میں ہندوپاک کے اختلاف کے سبب آزادی کے بعد بھی وہاں ظلم وستم کا سلسلہ موقوف نہ ہوسکا۔کشمیر میں ظلم وستم کی تاریخ ایک صدی سے تجاوزکرچکی ہے۔

اس طویل مدت میں لاکھوں کشمیری مسلمان لقمہ اجل بن گئے۔صرف آزادی ہند کے وقت:1947 میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ کشمیری مارے گئے۔اب تک نہ جانے کتنے بچے یتیم،کتنی عورتیں بیوہ،اورنہ جانے کتنی ماؤں کی گود سونی ہو گئی۔

کشمیر کے سیاسی لیڈران بھی زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے۔

کفارمکہ کے مظالم یقینا کشمیروفلسطین کی بہ نسبت کم تھے،لیکن اسی قدر مظالم کے سبب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ہجرت کا حکم نازل فرمایا۔

کشمیر وفلسطین کے مظلوموں کی حالت زارتو بیان سے باہر ہے۔ زبانیں لرزہ براندام ہوجاتی ہیں۔قلم تھرتھرانے لگتے ہیں۔آنکھیں ساون بھادوں کی طرح آنسوؤں کی بارش برسانے لگتی ہیں۔ دلوں کا چین وقرارغائب ہوجاتا ہے۔عقل وخرد دَم سادھ لیتی ہے اور فکر ونظر تھم کررہ جاتی ہے۔

لرز رہی ہیں میری انگلیاں قلم تھامے
نہ جانے آج میں کیابات لکھنے والا ہوں

مجھے معلوم ہے کہ نہ مفکروں کومیری رائے پسندآئے گی،نہ کشمیریوں کومیرا مشورہ قبول ہوگا۔لوگ کہیں گے کہ یہ بزدلانہ مشورہ ہے۔ ہاں،بھائی!انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے اور بہن بیٹیوں کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے میں بزدل بن گیا ہوں۔بہتر سال سے تویہ مسئلہ حل نہ ہوسکا،پھر کب تک انسانی جانوں کی ہلاکت خیزی اور پردہ نشیں خواتین کی عصمت ریزی پرخموشی اختیار کی جائے۔مناسب حل کی راہ نکالنی ہوگی۔

اگر اس طرح انسانی جانیں،انسانوں کی عزت وآبرو اورپردہ نشیں خواتین کی عصمت وپاک دامنی کی حفاظت ہوجاتی ہے تو مجھے بزدل کہو، اتنا برداشت کرنے کومیں تیار ہوں۔برا بھلا کہو، میں سننے کوراضی ہوں۔

کشمیروفلسطین میں یا کسی خطہ ارض میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تواہل دل کے دلوں پرخنجر چلتا محسوس ہوتا ہے۔ اس سے نجات کی راہ نکالنی ہوگی۔زمینی ٹکڑوں کے عوض انسانی جانوں کی ہلاکت کیوں منظور کی جائے؟

اسلامی سلطنتوں کی سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ الگ ہے۔وہاں فریق مخالف سے مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔کشمیروفلسطین میں نسل کشی ہورہی ہے۔اس کومقابلہ آرائی کہنا ہی غلط ہے۔اسرائیلی فوج جب چاہتی ہے، فلسطین کی عام آبادی پرحملہ کرکے بہت سے مسلمانوں کو ہلاک کردیتی ہے۔کچھ الزام عائد کرکے نوجوانوں کو گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ایسی صورت میں دشمن کے منہ میں بیٹھے رہنا ایک بڑی غلطی ہے۔

کوئی مسلم ملک ان کی فوجی مددکرنے کوتیارنہیں۔محض اظہارافسوس کردینا یامذمتی قرارداد پاس کر دینا کافی نہیں۔بعض یوروپین ممالک خفیہ طورپراوربعض اعلانیہ طورپراسرائیل کی حمایت میں ہیں۔ اب توبعض عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔بہتر تویہی تھا کہ آس پاس کے مسلم ممالک فلسطینی مسلمانوں کو اپنے حدودمیں کچھ جگہ دے دیتے،جہاں آباد ہوکروہ لوگ امن وسکون سے زندگی بسر کرسکتے تھے۔

سقوط اندلس کے بعدبھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مراکش وافریقی ممالک کی طرف منتقل ہوگئی تھی۔ ہماری رائے کی مخالفت کرنے والا کوئی مفکر کشمیر یا فلسطین میں آباد ہونے کو تیار ہے یانہیں؟اگر نہیں توپھر دوسروں کے لیے کیوں وہ پسندکرتے ہوجواپنے لیے پسند نہیں؟ ع/ کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے۔مسلمانوں کے لیے ساری روئے زمین ہی وطن ہے۔کسی جگہ کی خصوصیت نہیں۔ جب حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہوگئے توفتح مکہ کے بعد بھی مدینہ منورہ ہی میں جلوہ افروزرہے۔حضرات صحابہ مہاجرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی مکہ معظمہ واپس آکریہاں آباد نہ ہوئے۔انجام کار مسلمانوں کا دارالخلافہ بننے کا شرف بھی مدینہ مقدسہ ہی کوحاصل ہوا۔

مسلمان جہاں آباد ہوجائے،وہی اس کا وطن ہے۔کسی ملک یا کسی علاقہ تک محدود رہنا ضروری نہیں۔

مردخدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی ہے نہ صفاہاں نہ سمرقند

بہت سے یہودی جرمن میں آبادتھے۔جب دوسری جنگ عظیم (1939-1945)کے موقع پر ہٹلر نے یہودیوں پر ظلم وستم کیا توبہت سے یہودی جرمن سے بھاگ کر برطانیہ ودیگر ممالک میں پناہ لیے،پھر برطانیہ ویوروپین ممالک کی مددسے وہ لوگ فلسطین میں آباد ہوئے۔ 14:مئی 1948کو یہودیوں نے فلسطین کے نصف حصہ کے ایک مستقل ملک ہونے کا اعلان کردیا۔فلسطین کا وہی حصہ ”اسرائیل“کہلاتا ہے۔

فلسطین سلطنت عثمانیہ کے زیرحکومت تھا۔ پہلی جنگ عظیم (1914-1918)کے وقت برطانیہ نے اس پر قبضہ کرلیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعدبرطانیہ ودیگر یوروپین ممالک نے یہودیوں کی آبادکاری کے واسطے فلسطین کودوریاست (یہودی ریاست وعرب ریاست)میں تقسیم کی تجویز پیش کی۔29:نومبر 1947کو اقوام متحدہ نے تقسیم فلسطین کی قرار داد کو منظور کرلیا۔اسی قراردا د کے مطابق یہودیوں نے نصف حصہ کواسرائیل بنایا۔

جب14:مئی 1948 کویہودیوں نے فلسطین کے نصف حصہ کواسرائیل بنادیا تو15:مئی 1948 کو مصر،شام،اردن اورعراق کی فوجیں فلسطین میں داخل ہوگئیں اورعرب:اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ سعودی عرب نے بھی مصر کی سربراہی میں اپنی فوج بھیجی۔ایک سال بعد جنگ بندی ہوئی۔ سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ مصر نے غزہ پٹی پر قبضہ کرلیا۔اردن نے یروشلم کے جنوبی حصے پر قابض ہوگیا۔

۔11:مئی 1949 کو اقوام متحدہ نے اسرائیل کوایک ملک تسلیم کرلیا۔جرمنی یہودی اوردیگر ممالک کے یہودی اسرائیل آکرآباد ہو گئے۔

اسرائیل نے 1967 میں غزہ پٹی پر قبضہ کرلیا۔اسی طرح آس پاس کے مسلم ممالک کے حصوں پربھی قابض ہوتا جارہاہے۔ جس حصے میں آج فلسطینی مسلمان آبادہیں،ان حصوں پر اسرائیل کی نظر بد لگی رہتی ہے۔

یہودیوں کے مقبوضہ علاقوں کے ماسوافلسطین کے باقی ماندہ حصوں کو15:نومبر 1988 کو فلسطینی تنظیموں نے ایک آزاد ملک قرار دیا۔اسرائیل سے بے گھرہونے والے فلسطینی بھی اسی علاقے میں آباد ہیں۔

سال 2012 میں اقوام متحدہ نے ان علاقوں کو”فلسطین“کے نام سے ایک آزادریاست کا درجہ دیا۔

اسرائیلی فوج ان علاقوں پرحملے کرتے رہتی ہے۔پہلے فلسطینیوں کاخیال تھا کہ وہ فلسطین کے باقی حصے کو یہودیوں سے آزاد کرالیں گے،حالاں کہ یہ خام خیالی تھی اورجان ومال کی تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

اسرائیل کی حمایت میں امریکہ اوریورپ کے طاقتور ممالک تھے۔

اسلامی جہاد کا حکم اسی وقت نافذہوتا ہے،جب جہاد کی شرطیں پائی جائیں۔دنیا میں انسانوں کو طاعت خداوندی کے واسطے پیداکیا گیا،نہ کہ زمین کے ٹکڑوں پر اپنی جانیں گنوانے کے واسطے،پس جہاں قانون خداوندی جہادکاحکم دے،وہیں تک حکم جہاد محدود ہوگا۔بیت المقدس یقینا بہت مقدس ہے،لیکن خداوندی شریعت کے مطابق ہی قدم اٹھانے کا حکم ہے۔

عہد نبوی میں ایک مدت تک کعبہ مقدسہ مشرکین مکہ کے قبضہ میں تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سال 06:ہجری میں 1400صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کے واسطے تشریف لے گئے۔کفارمکہ نے مکہ معظمہ داخل نہیں ہونے دیااور مقام حدیبیہ پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوروک لیا گیا۔کیا اس وقت صحابہ کرام مزاحمتی گروپ بناکرکعبہ مقدسہ پر قبضہ کی کوشش فرمارہے تھے؟ ہرگز نہیں۔اسی موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی،اور حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین عمرہ کیے بغیرواپس آگئے۔جب مشیت الٰہی ہوئی تو کائنات عالم نے فتح مکہ کا خوشنما منظر بھی یکھااور رفتہ رفتہ ساراعرب دامن اسلام سے وابستہ ہوگیا۔

دشمن کو ہر جگہ تیروتلوار کے ذریعہ شکست کا تحفہ نہیں دیا جاتا،بلکہ بسا اوقات عقل ودانش مندی سے بھی اسے چاروں شانے چت کردیا جاتا ہے۔صلح حدیبیہ کے وقت مسلمان طاقتور تھے اوراہل مکہ سے کئی جنگیں لڑچکے تھے،پھر بھی وہ اہل مکہ کی شرطیں مان لیے اور عمرہ کے بغیر مدینہ منورہ واپس لوٹ گئے۔

مسلم مفکرین کی بے فکریاں

مسلم مفکرین کا حال یہ ہے کہ اگر کہیں مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے تو اس جماعت کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے۔محض جوش وجذبے کا اظہار کرتے ہیں اور قوم کے افراد ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔بہر حال جوکچھ میں نے لکھا،یہ میراذاتی خیال ہے۔

ہمارے بیان کردہ حقائق کے پیش نظر علم فقہ کی روشنی میں بھی غور وفکر کرلیا جائے کہ اس طرح مسلمانوں کا ہلاک ہوتے رہنا صحیح ہے،یا انہیں کہیں دوسری جگہ آباد ہو جانا چاہئے؟شریعت اسلامیہ کا حکم یقینا ہماری اور آپ کی فکر سے بہتر اور بالاتر ہوگا،اور اس میں بہت سی حکمتیں مضمر ہوں گی۔

صرف وَجَاہِدُوا بِاَموَالِکُم وَاَنفُسِکُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ (سورہ توبہ:آیت 41) کونہ دیکھیں۔ بلکہ(وَلَا تُلقُوا بِاَیدِیکُم اِلَی التَّہلُکَۃِ)(سورہ بقرہ:آیت195)پربھی نظرر کھیں۔

معرکے صرف جوش سے نہیں سرکیے جاتے،بلکہ جوش کے ساتھ ہوش کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

زمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

اسی کشمیر میں 1990میں کشمیری پنڈتوں پر ظلم ہوا تو ڈھائی لاکھ پنڈتوں کو جموں لاکر بسا دیا گیا۔جب پنڈتوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ان کومنتقل کیا جا سکتا ہے تو مسلمانوں کواپنی جانوں کی حفاظت کے لیے کیوں انہیں کسی محفوظ مقام کی طرف منتقل ہونے کا موقع نہ دیا جائے؟کیا مسلمان ظلم وستم سہنے کوپیدا ہوئے؟

دراصل 1990 میں کشمیری پنڈتوں پر ظلم مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھی۔اگر پنڈتوں کو ہلاک کرنے والے مسلمان تھے تو آج تک کسی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ؟کسی پر کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟دراصل یہ بھی پلوامہ حملہ:14 فروری 2019 کی طرح ایک منصوبہ بند حملہ تھا،تاکہ کشمیری مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ اگر پنڈتوں پر ظلم وستم مسلمانوں نے کیا تھا تو پنڈتوں کا انخلا اس قدر سست رفتاری سے کیوں ہوا؟وہ کئی ما ہ میں دھیرے دھیرے منتقل ہوتے رہے۔انہیں اپنی جان بچانے کو فوراً بھاگنا چاہئے۔

تیسری بات یہ کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تیس سالوں میں 250پنڈتوں کا قتل ہوا،یہ نسل کشی ہے تو ڈوگرہ حکومت سے آج تک کئی لاکھ کشمیری مسلمانوں کا قتل ہوا۔اس کو نسل کشی کیوں نہ ما نا جائے؟

کیا جس طرح شودر،برہمنوں کی خدمت کے واسطے پیدا ہوئے ہیں،اسی طرح مسلمان برہمنوں کا ظلم وستم سہنے کو پیدا ہوئے ہیں؟

سلطنت مغلیہ کے خاتمے کے بعدسے ہی ملک بھر میں مسلمانوں پر ظلم کی بارش ہے۔


بھارتی فوج سرحد کی سخت نگرانی کرے اوردہشت گر دوں کوکشمیر میں داخل نہ ہونے دے۔اس طرح عسکریت پسندی کا رجحان خودبخود دم توڑدے گا۔

اگر فوج آبادیوں میں رہتی ہے اور ظلم وستم کرتی ہے تو انسانی فطرت انتقام پسند واقع ہوئی ہے۔ حالات کبھی کنٹرول نہیں ہوسکتے اور اہل تعصب یہی چاہتے بھی ہیں،تاکہ مسلمانوں پر مسلسل ظلم ہوتا رہے۔اہل کشمیر ریاست میں امن وامان کے واسطے مضبوط حکمت عملی اپنائیں۔

اہل کشمیر کو آزاد ریاست کے واسطے بھی ورغلایا جاتا ہے۔معلوم ہونا چاہئے کہ آزادی ہند کے وقت حیدر آبادایک آزاد مسلم ملک تھا۔نظام حیدرآباد کے تعلقات انگریزوں سے بہت گہرے تھے۔

آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے حملہ کرکے حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔حیدرآباد کوئی چھوٹا ساملک نہیں تھا،بلکہ رقبہ کے اعتبارسے برطانیہ،ترکی اوراٹلی سے بڑا تھا۔حیدرآبادکا نظام (بادشاہ)میر عثمان علی خاں دنیا کے امیر ترین حکمرانوں میں سے تھا۔

حیدرآباد کے پاس اپنی کرنسی،ٹیلی گراف،فون،ڈاک کا نظام،ہوائی اڈے،ریلوے لائنیں،تعلیمی ادارے اور اسپتال تھے۔
تعجب ہے کہ اس کے پاس فوجی نظام مستحکم نہیں تھا،وہ انگریزوں پر بھروسہ کرتے تھے۔

تقسیم کے وقت انگریزوں نے حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیا تھا۔

سال 1948میں بھارتی فوج نے 12اور13ستمبر کی درمیانی رات کو اچانک پانچ محاذوں پر حملہ کر دیا۔رضا کاروں نے کچھ مقابلہ کیا، لیکن تربیت یافتہ فوج سے رضا کاروں کی جماعت کب تک مقابلہ کرسکتی تھی۔


آخرکار 18:ستمبر 1948 کو حیدر آباد نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور ریاست حیدر آباد بھارت کا حصہ بن گئی۔


اس وقت بھی ریاست بھر میں ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل عام،آتش زنی، لوٹ مار اور مسلم عورتوں کی عصمت دری کی۔ بے شمار مسلمان اپنی جان گنوا بیٹھے۔

جب ایک مستحکم ریاست پر بھارت نے قبضہ کرلیا تو اپنے زیر قبضہ ریاست کو آزادی کیسے دے سکتا ہے۔انسانی جانوں کوتباہ نہ کریں۔

پنجابیوں نے ریاست پنجاب کو”خالصتان“کے نام سے آزاد ریاست بنانے کی آواز بلند کی۔ امرتسر کا گولڈن ٹیمپل (ہرمندرصاحب گردوارہ)کو ان لوگوں نے مرکز بنایا تھا۔بھارتی فوج نے جون 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کردیا۔03:جون سے 08:جون تک مقابلہ جاری رہا۔ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس کو ”آپریشن بلیو اسٹار“کہا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے کلک کریں 

سکھوں کو بھی ہندو قوم کا ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے

سلطنت مغلیہ کے عہد سے ہی سکھ  قوم مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھاتی رہی ہے۔ پہلی جنگ آزادی:1857 میں انگریزوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں کوتباہ وبربادکیا۔ تقسیم ہند کے وقت بھی ہندؤں کے ساتھ مل کر سکھوں نے کئی لاکھ مسلمانوں کوقتل وہلاک کیا۔ مسلمانوں کی جائیداد لوٹی۔ عصمت دری کا بازارگرم کیا۔ جب 1984 میں بھارتی فوج نے سکھوں پرحملہ کیا،تب انہیں ہوش آیا اور مسلمانوں کے حق میں نرم ہوئے۔

اہل کشمیر ماضی کے حوادثات وواقعات سے عبرت حاصل کریں۔کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں۔زمینی ٹکڑوں کے عوض ہمیں انسانی جانوں کی تباہی قبول نہیں۔

نہتے لوگ کسی تربیت یافتہ فوج سے مقابلہ کرے تو اس کو خود کشی کہا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں نفع ونقصان پر نظر رہنی چاہئے۔امن وسکون کی زندگی تلاش کریں۔

ہم نیک وبد حضور کوسمجھائے جاتے ہیں
مانو،نہ مانو،اس کا تمہیں اختیار ہے

کشمیری مسلمان دوصدیوں سے (1819سے آج تک)ظلم وستم کی چکی میں پسے جارہے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے مظلوم قوم ہے۔روہنگیائی مسلمانوں سے بھی زیادہ مظلوم۔مرکزی حکومت امن وامان بحال کرے۔

نوٹ:نہ میرا سیاست سے کچھ تعلق ہے،نہ کسی سیاسی پارٹی سے۔یہ تحریر مذہبی تناظر میں مرقوم ہوئی ہے۔

طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغام شرہعت دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا

www.afkarerza.com

زمینی ٹکڑوں کی حقیقیت کیا انسانی جانیں انمول ہیں

 

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن