Thursday, November 21, 2024
Homeاحکام شریعتوراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے

وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے

از قلم: مفتی خبیب القادری مدنا پوری وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے

وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے

بســــــم اللّــہ الرحـــمٰن الرحــــیم

نحــمدہ ونصـلی علـی رســــولـہ الکـریم

  میـراث کـے اصـطلاحـی معنیٰ: اس عـلم کـے ذریـعہ یـہ جانا جـاتا ہـے کہ کـسی شخـص کـے انتقـال کـے بعـد اس کا وارث کـون بنے گا اور کون نہیں

نیـز وارثیـن کو کتنـا کتنـا حـصہ ملے گا۔ قـرآن کریم میں متعدد جگہوں پر میراث کے احکام بیان کـیے گـئے ہیـں

 میـراث کے مسائل میں فقہا کــــرام وعلــماعــظام کا اختــلاف بہت کــم ہے

دین اسلام میں علم میراث کی بہت زیادہ اہمیت ہے چناں چہ نبی پاک ﷺ نے اس علم کو پڑھنے پڑھانے کی متعدد مرتبہ ترغیب دی ہے۔چناں چہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ عـــلمِ فــرائض سیــکھو اور لوگوں کو ســکھاؤ کیوں کہ یہ نصــف علــــــم ہے، اس کے مسائل لوگ جلدی بھول جاتے ہیں،یہ پہلا علم ہے جو میری امت سے اٹھالیا جائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ) پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے علم فرائض کو نصف علم قرار دیاہے۔

حضرت عـمــــر فـاروق اعظــم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’میراث کے مسائل کو سیکھا کرو کیوں کہ یہ تمہارے دین کا ایک حصّہ ہے  (دارمی )۔

 حــــــضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم کو سیکھے اس کو چاہئے کہ وہ علمِ میراث کو بھی سیکھے۔‘‘(بیہقی و طبرانی )۔

عــــــــلم میراث کے 3 اجزاء ہیں

۔۱مُــوَرَّث:وہ میت جس کا ساز وسامان وجائیداد دوسروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔

٢ وَارِثْ: وہ شخص جس کی طرف میت کا ساز وسامان وجائیداد منتقل ہورہی ہے وارث کی (جمع ورثاء آتی ہے)۔

 ٣ مَــــوْرُوْث:ترکہ یعنی وہ جائیداد یا ساز وسامان جو مرنے والا چھوڑ کر مرا ہے۔

 میت کے سازوسامان اور جائیداد میں درجِ ذیل 4  حقوق ہیں

۔1 میت کے مال وجائیداد میں سے سب سے پہلے اس کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے۔

۔2 دوسرے نمبر پر جو قرض میت کے اوپر ہے اس کو ادا کیا جائے

۔ 3 تیسرا حق یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ تک اس کی جائز وصیتوں کو نافذ کیا جائے۔

 تنبیہ

کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ ِکبیرہ ہے جیسا کہ حضور رسول الراحت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)۔

۔ 4 چوتھا حق یہ ہے کہ باقی سازوسامان اور جائیداد کو شریعت کے مطابق وارثین میں تقسیم کردیا جائے۔

 نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً “النساء 7 ” فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ “النساء 11” وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ “النساء 12 ” تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ”النساء13″۔

سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت میں ذکر کئے گئے حصوں کے اعتبار سے وارثین کو میراث تقسیم کرنا واجب ہے۔

ورثا کی 3   قسمیں ہیں

۔ 1 صاحب الفرض: وہ ورثا جو شرعی اعتبار سے ایسا معین حصہ حاصل کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی

۔ 2عـصبہ: وہ ورثاء جو میراث میں غیر معین حصے کے حقداربنتے ہیں، یعنی اصحاب الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں، مثلاً بیٹا۔ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن وسنت میں جن ورثاء کے حصے متعین کیے گئے ہیں ان کو دینے کے بعد جو بچے گا وہ قریب ترین رشتہ دار کو دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)۔

۔3 ذوی الارحام : وہ رشتے دار جو صاحب الفرض اور عصبہ میں سے کوئی وارث نہ ہونے پر میراث میں شریک ہوتے ہیں جیسے چچا، بھتیجے اور چچازاد بھائی وغیرہ۔ اِن میں سے کوئی ایک وجہ پائے جانے پر ہی وراثت مل سکتی ہے۔

۔1 خونی رشے دار : یہ 2  انسانوں کے درمیان ولادت کا رشتہ ہے البتہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ داروں کو میراث نہیں ملے گی، مثلاً میت کے بھائی وبہن اسی صورت میں میراث میں شریک ہوسکتے ہیں جبکہ میت کی اولاد یا والدین میں سے کوئی ایک بھی حیات نہ ہو۔ یہ خونی رشتے اصول وفروع وحواشی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اصول (جیسے والدین ،دادا ، دادی وغیرہ) وفروع (جیسے اولاد ، پوتے،پوتی وغیرہ) وحواشی (جیسے بھائی، بہن، بھتیجے وبھانجے، چچا اور چچازاد بھائی وغیرہ)۔

وضاحت : سورۃ النساء آیت نمبر 7 “مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَان وَالاقْرَبُون” سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میراث کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہوتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ حاجت مند ہو اس کو میراث کا زیادہ مستحق سمجھا جائے بلکہ جو میت کے ساتھ رشتے میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا۔

غرضیکہ میراث کی تقسیم’’ الاقرب فالاقرب‘‘ کے اصول پر ہوتی ہے خواہ مرد ہوں یا عورت، بالغ ہوں یا نابالغ۔

۔ 2 نکاح (میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث میں شریک ہوتے ہیں)۔

۔ 3 غلامیت سے چھٹکارا (اس کا وجود اب دنیا میں نہیں رہا اس لئے مضمون میں اس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی گئی )۔ حــــــالاں کہ مــذہب اسلام نــے صنف نازک (عورتوں) اور صنفِ ضعیف (بچوں)کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے اور زمانۂ جاہلیت کی رسم ورواج کے برخلاف انہیں بھی میراث میں شامل کیا ہے،

جیساکہ اللہ جل مجدہ الکریم نے قرآن کریم سورۃالنساء آیت 7 میں ذکر فرمایا ہے۔  مردوں میں سے یہ رشتے دار بیٹا،پوتا، باپ،دادا،بھائی،بھتیجا،چچا،چچا زاد بھائی، شوہر وارث بن سکتے ہیں  عورتوں میں سے یہ رشتے دار بیٹی،پوتی،ماں،دادی،بہن،بیوی وارث بن سکتے ہیں نوٹ : اصول وفروع میں تیسری پشت (مثلاً پڑدادایا پڑپوتے) یا جن رشتے داروں تک عموماً وراثت کی تقسیم کی نوبت نہیں آتی ، ان کے احکام یہاں بیان نہیں کئے گئے ۔

شوہر اور بیوی کے حصے

 شوہر اور بیوی کی وراثت میں 4  شکلیں بنتی ہیں النساء12

١ بیوی کے انتقال پر: اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2ملے گا-

٢ بیوی کے انتقال پر : اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4ملے گا۔

٣  شوہر کے انتقال پر : اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4ملے گا۔

 ٤ شوہر کے انتقال پر: اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8ملے گا۔

 وضاحت : اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو یہی متعین حصہ (1/4 یا 1/8) باجماعِ امت ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

باپ کا حصہ

۔:1  اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کا بیٹا یا پوتا بھی موجود ہیں تو میت کے والد کو 1/6ملے گ

٢ اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں البتہ میت کی کوئی بھی اولاد یا اولاد کی اولاد حیات نہیں تو میت کے والد عصبہ میں شمار ہوں گے،یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد میت کے والد کی ہوجائے گی،

٣ اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کی ایک یا زیادہ بیٹی یا پوتی حیات ہیں البتہ میت کا کوئی ایک بیٹا یا پوتاحیات نہیں تو میت کے والد کو 1/6ملے گا،

نیز میت کے والد عصبہ میں بھی ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی سب میت کے والد کا ہوگا۔

ماں کا حصہ

۔ 1 اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں تو میت کی ماں کو 1/3ملے گا

٢ اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں اور میت کی اولاد میں سے کوئی ایک یا میت کے2یا 2سے زیادہ بھائی موجود ہیں تو میت کی ماں کو 1/6ملے گا

٣ اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں لیکن میت کی بیوی حیات ہے تو سب سے پہلے بیوی کو 1/4ملے گا، باقی میں سے میت کی ماں کو 1/3ملے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔

اولاد کے حصہ

 ١_ اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے ایک یا زیادہ بیٹے حیات ہیں لیکن کوئی بیٹی حیات نہیں تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی

٢_اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے بیٹے اور بیٹیاں حیات ہیں تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں اُن کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں قرآن کریم کے اصول (لڑکے کا حصہ2 لڑکیوں کے برابر) کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی

٣_ اگر کسی شخص کی موت کے وقت صرف اس کی بیٹیاں حیات ہیں بیٹے حیات نہیں تو ایک بیٹی کی صورت میں اسے 1/2ملے گا اور 2 یا2سے زیادہ بیٹیاں ہونے کی صورت میں انہیں 2/3ملے گا۔ وضاحت : اللہ تعالیٰ نے میراث کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق حکم کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ2عورتوں کے برابر ہے۔ ‘‘النساء11 ۔

مذہب اسلام   نے مرد پر ساری معاشی ذمہ داریاں عائد کی ہیں چنانچہ بیوی اور بچوں کے مکمل اخراجات عورت کے بجائے مرد کے ذمہ رکھے ہیں حتیٰ کہ عورت کے ذمہ خود اس کا خرچہ بھی نہیں رکھا۔ شادی سے قبل والد اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ عورت کا خرچہ رکھا گیا اس لیے مرد کا حصہ عورت سے دو گنا رکھا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو میراث دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایاکہ لڑکوں کا حصہ 2 لڑکیوں کے برابر ہے۔ بھائی و بہن کے حصے : میت کے بہن بھائی کو اسی صورت میں میراث ملتی ہے جب کہ میت کے والدین اور اولاد میں سے کوئی بھی حیات نہ ہو۔ عموماً ایسا کم ہوتا ہے اس لیے بھائی بہن کے حصے کا تذکرہ یہاں نہیں کیا۔

ضــــــــروری تـنبیـہ : مــیراث وہ مال ہے جو انسان مرتے وقت چھوڑکر جاتا ہے اور اس میں سارے ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق حق دار ہوتے ہیں۔ انتقال کے فوراً بعد مرنے والے کی ساری جائیداد ورثاء میں منتقل ہوجاتی ہے لہذا اگر کسی شخص نے میراث قرآن وسنت کے مطابق تــقسیم نہیں کی تو وہ ظلم کرنے والا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تــقسیم میراث کی کوتاہیوں سے بچنے والا بنائے اور تمام وارثوں کو قرآن وسنت کے مطابق میراث تــقسیم کرنے والا بنائے،آمین

نـــوٹ : انسان اپنی زندگی میں اپنے مال وسامان وجائیداد کا خود مالک ہے۔

یہاں میراث کے مسائل کو بطور اختصار بیان کیا گیا ہے تفصیلات علما کرام  مفتیان عظام اور ائمہ مساجد سے معلوم کریں

اللہ تعــالــٰی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو نافع خواص و عوام فرمائے اور تقسیم میراث قرآن و حدیث کے مطابق کرنے کی توفیق خیر عطافرمائے

نــــوٹ : میراث کے مسائل مـندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھیں

درے مختــار

ردالمحتــار

 فتــــاوی عالمگـــــیری

 فتـــــاوی رضویـــہ

بہار شـــــــریعت

 تفســـیر نعیمی جلد 4

 وصیـــت اور میـــراث کے احکام

 قـــــانون شــــــریعت

انعـــام شــــریعت

آداب شــــریعت

راہ شــــــریعت

نـــوٹ. کہیـں کوئی غلطی نظر آئے تو علماے کرام اصلاح فرماکر درگزر فرمائیں  شـــکــریـــــــہ

کتبہ: العبـد المــذہب خـبیب القـــادری مدنـاپــوری بریلـی شـریف یوپی بھـارت

مفتی صاحب قبلہ کے دوسرے مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن