تحریر: طارق انور مصباحی بھارت میں سیکولرزم کا مفہوم کیا ؟۔
بھارت میں سیکولرزم کا مفہوم کیا
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
ڈکشنری میں سیکولرزم کا معنی الگ ہے،لیکن بھارت میں سیکولرزم کا معنی اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی ہے۔
۔(1)اگرکوئی مسلمان ,قوم مسلم اور اسلام کی حمایت میں دولفظ بول دے تواسے فرقہ پرست کہا جاتا ہے۔
۔(2)اگر کوئی ہندو مذہب اسلام یامسلمانوں کے حق میں کچھ بول د ے تو اسے غدار شمارجاتا ہے۔
۔(3)اگرکوئی مسلمان اسلام اومسلمانوں کے خلاف بولے تووہ سیکولر کہلاتا ہے، اسی لیے خو دکو سیکولر ثابت کرنے کے واسطے بہت سے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولتے ہیں اور اپنی وفاداری کا صلہ پاتے ہیں۔ عارف محمدخاں کو کیر لا کا گورنر بنادیا گیا۔اس قسم کے وفاداروں کی ایک طویل فہرست تیارکی جا سکتی ہے۔
۔ (4)اگرکوئی غیر مسلم اسلام ومسلمین کے خلاف بولے تووہ ہیرومانا جاتا ہے۔ایسی صورت میں سیکولرزم کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی مخالفت اور اسلام کی مخالفت کا نام سیکولرزم ہے۔
جولوگ ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرتے ہیں، پھول کا ہار پہناکر ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔اس سے بھی ظاہر ہے کہ انڈیا میں سیکولرزم کا مفہوم کیا ہے۔
اس چند سطری تحریر سے محض یہ پیغام دینا مقصودہے کہ بھارت سیکولر کنٹری ہے،یہ سوچ کر غفلت کی نیند میں مدہوش نہ ہوجائیں۔جاگتے رہیں،او ر ہر محاذ پر اپنی حفاظت کا سامان خودکریں۔
کسی کو ہلاک کرنا یقینا جرم ہے اور خودکوہلاکت کی منزل تک پہنچا دینا بھی جرم ہی ہے۔
ہم نے کبھی بھارت کے سیکولرزم پر بھروسہ کرکے خودکوہلاکت تک پہنچایا اور کبھی سیکولرزم کا نعرہ لگانے والے لیڈروں کے پیچھے دوڑ کر خود کو غفلت میں مبتلا کیا،حالاں کہ ہرپارٹی کے یہاں سیکو لرزم کا معنی ومفہوم الگ ہے۔
بی جے پی بھی مرکزی حکومت وریاستی حکومت میں چند مسلمانوں کو منسٹربنا دیتی ہے،پھر یہ بھی سیکولر پارٹی ہوئی، لیکن سیکولرزم کا مفہوم ہر پارٹی کے پاس خود ساختہ ہے۔
آپ بھارت کے دستور یا ڈکشنری میں سیکولرزم کا معنی ومطلب دیکھ کر خود کو غلط راہ پر نہ ڈالیں،بلکہ بھارت کی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی نظریات دیکھ کر سیکولرزم کا معنی سمجھنے کی کوشش کریں۔
دوسری بات یہ بھی بتانی ہے کہ ہرمعاملہ میں سڑک پر اترکر احتجاج ومظاہرہ کرنامحض اپنی قوت ضائع کرنا ہے۔ کبھی عقل وخردکا استعمال کرکے ایسا حل نکالیں کہ مخالف چاروں شانے چت ہوجائے۔
جس طرح ہم لوگ صبح وشام اور شب وروز اپنے گھریلو مسائل پر غورکر تے ہیں،اسی طرح اگر ہردن صرف پانچ منٹ قومی مسائل پرغورکریں توہمارے اندرقومی فلاح وبہبود کا احساس بھی بیدار ہو،اور اجتماعی مفادات کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے کی بھی عادت لگے۔
ہر محلے میں مسجد کمیٹی کی طرح فلاحی کمیٹی بھی بنائی جائے۔ اس کمیٹی کے ذریعہ غربا واہل حاجت کا مالی تعاون بھی کیا جائے،اور قومی مستقبل پر بھی غوروفکرکیا جائے۔
جب غیرت مرجاتی ہے تو شجاعت دم توڑدیتی ہے
مسلمان سال بھر میں جتنے گھنٹے کرکٹ میچ دیکھنے میں خرچ کرتے ہیں،اگر اس کا نصف حصہ بھی قومی مسائل کے حل کے لیے صرف کرتے تو بہت سے مسائل کا آسان حل نکل آتا۔
دراصل ہماری ایمانی غیرت مردہ ہوچکی ہے۔جس کا باطن مر جائے،وہ ایک چلتی پھرتی لاش کی مانند ہوتا ہے۔اس سے کوئی امیدوابستہ کرنا بھی ایک بھول ہے۔ہاں، ہم رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں اور مسلمانوں کی حیات نوکے واسطے صو ر کے منتظر۔
اگر کسی کا بھائی،بیٹا،باپ مارا گیا تو چند دنوں تک ہم بیدار رہتے ہیں،پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں،لیکن جس کا بیٹا،بھائی اورباپ ہلاک ہوا ہے،اس کی نسلیں بھی اسے یاد رکھتی ہیں۔
جس طرح اس نے اپنی مصیبت یادرکھی ہے،اگر دوسرے مسلمان بھائی بھی اس کی مصیبت کواپنی مصیبت سمجھتے تو یقینا اسے یاد رکھتے اورپھر ایسے انہونی حادثات کا حل نکالتے۔
یہی وہ ملک تھا کہ جب شری لنکا سے عرب جانے والے جہاز کو سندھ کے راجہ داہر کے اشارے پر سمندری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور مسافروں کوقید کرلیا تواس میں بعض مسلم عورتیں تھیں،جن کی غائبانہ فریاد پر حاکم کوفہ حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے ہونہار بھتیجے محمد بن قاسم کو فوج دے کر سندھ روانہ کیا اور واجہ داہر کی حکومت کی انیٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
آج اسی ملک میں مسلم ماؤں،بہنوں،بہو اور بیٹیوں کی عصمت ریزی ہوتی ہے۔ یہ وحشت ناک خبر سن کر ہم چند لمحوں کے لیے افسردہ ہوتے ہیں،پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
دراصل ہماری غیرت مردہ ہوچکی ہے اورجب غیرت مرجاتی ہے توشجاعت وبہادری اورہمت وجرأت بھی فنا ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے اندرکچھ کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔
اے میری قوم! یہ صحیح ہے کہ امریکہ ولندن اورجاپان وچین میں مسلمانوں پر کوئی آفت آئے تو ہم اس کی مددنہیں کرسکتے۔افسوس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارۂ کار نہیں،لیکن جب ہمارے آس پاس کوئی حادثہ رونما ہوتو یقینا ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو آج اس کی, کل ہماری باری ہوگی۔ جب تم دفاعی پوزیشن سنبھال لوگے تو دشمن لرزنے اور کانپنے لگے گا۔اس کا قدم ڈگمگائے گا اوروہ الٹے قدم پیچھے بھاگے گا۔
کسی قوم کو شکست دینے کا صرف یہی طریقہ نہیں کہ تم مادی ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں کودپڑو۔ انگریزوں نے دو سوسال بھارت پرحکومت کی تھی۔انگریز لندن سے فوج لے کر نہیں آئے تھے۔وہ وہاں سے صرف مضبوط دل اور توانادماغ لے کر آئے تھے۔وہ قوی دل اور ذہنی قوتوں کے سہارے فاتح بن گئے۔
انگریز ی فوج میں بھارت ہی کے لوگ ہوتے تھے،یعنی مرنے الے بھی انڈین اور مارنے والے بھی انڈین۔انگریز صرف افسراورحاکم ہواکرتے تھے۔وہ میدان جنگ میں صرف فوج کو لڑاتے تھے۔
فوجیوں کی تنخواہ کے لیے بھی انگلینڈسے پیسے نہیں آتے تھے۔انڈیا ہی سے اتنے پیسے حاصل کیے جاتے تھے کہ یہاں سے پیسے انگلینڈبھیجے جاتے تھے۔بھارت سونے کی چڑیا تھا۔وہ اسے لوٹنے آئے تھے۔
مسلم سلاطین یقینا اپنے ساتھ فوج لے کر آئے تھے،پھر علاقوں کو فتح کیے،لیکن انگریز اور انگریزوں سے تین ہزار سال قبل برہمن بھارت آئے تھے تویہ کوئی لشکر یا فوج لے کر نہیں اترے تھے۔یہ اپنی مضبوط دماغی قوتوں کے بل بوتے ملک پر قابض ہوئے تھے۔
بر ہمن آج بھی ملک کے بے تاج بادشاہ ہیں،حالاں کہ ان کی تعداد ساڑھے تین فی صد ہے۔بر ہمن قوم ہمیشہ اپنے عمدہ مستقبل کے لیے فکر مند اورکوشاں رہتی ہے۔
اے میری قوم! اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرو۔جب تم اپنی بھلائی کے لیے سوچنا شروع کردوگے تو فلاح ونجات کے چھوٹے بڑے دریچے خودبخود کھلتے نظر آئیں گے۔ حالات کو پڑھو،اورآگے بڑھو!۔
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہی مردوں کی شمشیریں
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع