کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط چپارم تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
۔[۲]اللہ ربُّ العزت نے سورۂ ہود میں ارشاد فرمایا
وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلٰی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ، وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ۔[سورۂ ہود ، آیت نمبر ۱۱۳:]۔
ترجمہ:اور تم اُن لوگوں سے میل جول نہ رکھو جنھوں نے ظلم کیا ہے؛ ورنہ تمھیں بھی دوزخ کی آگ جلائے گی اور اللہ کے سوا تمھارے کوئی مددگار نہیں ہوں گے ،پھر تمھاری مدد[بھی] نہیں کی جائے گی ۔
’’لَا تَرْکَنُوْا‘‘ رُکُون سے فعلِ نہی ہے ۔’’رُکُوْنْ ‘‘کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’رُکُوْنْ ‘‘الفت و محبت کے ساتھ کسی شے کی جانب مائل ہو نے[اور اُس پر بھروسا کرنے] کا نام ہے ۔اِس کا مقابِل ’’کسی شے سے نفرت کرنا اور اُس سے بیزار ہونا ‘‘ ہے ۔[تفسیرِ کبیر ، ج۹:،ص۷۳:]۔
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں
اِس آیتِ کریمہ میں جس رکون سے منع کیا گیا ہے اُس کا معنٰی ہے ’’ایسے کاموں سے راضی ہونا جن پر ظلم کی تاریکی ہو اور ظلم کے طریقے کو پسند کرنا ، اُسے سنوارنا اور اُس کے ابواب میں سے کسی باب میں شریک ہونا‘‘۔[مصدرِ سابق]
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس آیتِ کریمہ کے ذریعے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ظالموں سے میل جول نہ رکھیں ، اُن کی مداہنت نہ کریں ، اُن کے ساتھ الفت و محبت کا برتاؤ اور اُن پر بھروسانہ کریں ؛ بلکہ اُن سے دور رہیں،اُن کا بائیکاٹ کریں اور اُن سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں۔
اِس ممانعت کے ساتھ ، ظالموں سے پیار و محبت کرنے والوں کی سزا کا اعلان بھی کیا کہ ’’جو اُن سے پیار و محبت کرےگا اور اُن کی جانب جھکے گا وہ دوزخ کی آگ میں جلے گا اور کوئی بھی اُس کی نصرت و حمایت نہیں کر سکے گا ‘‘۔
اگر اہلِ تشیع کا یہ عقیدہ تسلیم کر لیا جائے کہ’’ چند صحابہ ہی اپنے ایمان میں مخلص اور حضور ﷺ سے سچی محبت کرنے والے تھے ، باقی تمام صحابہ منافق ، بے دین اور ظالم تھے ‘‘ تو حضور ﷺ پراُن سے الفت و محبت کا معاملہ نہ کرنا، اُن سے تعلقات قائم نہ فرمانا اور اُن سے رشتے داریاں نہ کرنا واجب و ضروری تھا۔
حالاں کہ حضور ﷺ نے زندگی بھر اُن سے میل جول رکھا اور اُن سے الفت و محبت کے تعلقات قائم رکھے ؛ لہذا ثابت ہوا کہ حضراتِ صحابۂ کرام منافق و فاجر نہ تھے ، بے دین و ظالم نہ تھے ؛ بلکہ نیک ، صالح ، عادل اور سچے پکے مسلمان تھے ۔اب اہلِ تشیع کے سامنے تین ہی راستے ہیں۔
۔[۱]اِس آیتِ کریمہ ہی کا انکار کر دیں۔
۔[۲] یہ اعلان کر دیں کہ حضور ﷺ اِس آیتِ کریمہ پر عمل نہ کرنے کے سبب ظالم ہیں۔
۔[۳]تمام صحابۂ کرام کی عدالت و صداقت کوتسلیم کریں۔
یہ احمق پہلے دونوں راستوں کو اختیارنہیں کر سکتے ؛ کیوں کہ اُنھیں پتہ ہے کہ اگر ہم نے اِس آیت کریمہ کا انکار کیا یا حضور ﷺ کو ظالم کہا تو خود انھی کی قوم اُن کے سروں پر اتنے جوتے برسائے گی کہ اُن کی نسلیں گنجی پیدا ہوں گی ۔
اب اُن کے لیے عافیت و سلامتی اِسی میں ہے کہ صحابۂ کرام کے خلوص اور اُن کی عدالت کو تسلیم کر یں اور اپنی ظالمانہ رَوِش سے باز آ کر آخرت کی سعادت و سرخروئی کو گلے لگائیں ؛ کیوں کہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ حضور ﷺ نے اِس آیتِ کریمہ کے نزول کے بعد بھی اپنے غلاموں سے الفت و محبت کے معامَلات قائم رکھے ۔
اِس کی ایک ہلکی سی جھلک ملاحظہ فرمائیں
حضرت سیدنا صدیقِ اکبر کی شہ زادی ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ ،حضرت سیدنافاروقِ اعظم کی نورِ نظر ام المومنین حضرت سیدتنا حفصہ اور حضرت امیرِ معاویہ کی بہن ام المومنین حضرت سیدتنا اُمِّ حبیبہ سے نکاح فرماکر اِن حضرات کو دائمی شرف سے سرفراز فرمایا ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔
یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دے کر اُنھیں ’’ذو النورین‘‘ کے ایسے عظیم الشان لقب سے مشرَّف فرمایا جو نہ کبھی کسی کے حصے میں آیا نہ صبحِ قیامت تک آئے گا ۔
صرف یہی نہیں کہ آپ ﷺ نے اِن حضرات سے رشتے داریاں قائم فرمائیں ؛ بلکہ اَپنی زبانِ اقدس سے متعدد بار نام لے لے کر اِن کے فضائل و مناقب بھی بیان فرمائے ۔جیسا کہ آگے آئے گا۔
اگر اہلِ تشیع یہ کہہ کر راہِ فرار اختیار کرنا چاہیں کہ’’ یہ لوگ حضور ﷺ کے وصال کے بعد کافر و مرتد ہوئے‘‘ تو یہی گفتگو ہم حضرتِ مولاے کائنات میں جاری کریں گے کہ اگر صحابہ کرام معاذ اللہ بے دین اور ظالم تھے تو حضرت شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم پر، خلفاے ثلثہ اور دیگر صحابہ ٔ کرام سے نفرت و بیزاری کا اعلان کرنا اور اُن سے میل جول نہ رکھنا واجب و ضروری تھا
حالاں کہ پوری اسلامی تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ فاتحِ خیبر نے اِن حضرات سے ہمیشہ الفت و محبت قائم رکھی ، اُمورِ خلافت میں اِن کی امداد فرمائی اور انھیں اپنے مخلصانہ مشوروں سے نوازا ، حتی کہ اپنی نورِ نظر حضرت سیدتنا ام کلثوم بنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دیا۔[الاستبصار للطوسی ،ج۳:،ص۳۵۲:]۔
تو کیا کسی رافضی میں ہے ہمت کہ وہ حضرتِ علی مولاے کائنات کو دوزخی اور بے یار و مدد گار کہہ سکے؟ ثابت ہوا کہ حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سچے مومن، عادل و مخلص مسلمان اور دین کے بے لوث خادم تھے
تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
صدر مدرس دار العلوم محبوب سبحانی کرلا ممبئی
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع