Friday, October 18, 2024
Homeحالات حاضرہیہ حال ہے تو کون کورٹ میں جائے گا

یہ حال ہے تو کون کورٹ میں جائے گا

از قلم: محمد ہاشم اعظمی مصباحی یہ حال ہے تو کون کورٹ میں جائے گا بابری مسجد کیس کے تناظر میں چشم کشا تحریر 

یہ حال ہے تو کون کورٹ میں جائے گا

مغل فرماں روا ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ایودھیا میں واقع عظیم تاریخی مساجد میں سے ایک تھی جسے مغل سالار میر باقی نے 1528ء میں شہنشاہ کے حکم سے تعمیر کروایا تھا۔

آئیے اس عظیم مسجد کی اجمالی تاریخ پر سرسری نظر ڈال لیں تاکہ انصاف کا خون کرتا ہوا عدالت کا حالیہ فیصلہ آسانی سے سمجھا جاسکے. 1528ء میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد میں 1949ء تک مسلسل نمازیں ادا کی جاتی رہیں۔ برطانوی راج میں پہلی مرتبہ 1885 میں رگھبیر داس نامی شخص نے “سب جج” کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر مندر کی اجازت مانگی جسے رد کردیا گیا۔

 ۔ 1936ء میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا جس میں سوچی سمجھی سازش کے تحت بابری مسجد پر بھی حملہ کیا گیا اس حملہ میں مسجد کا جزوی نقصان ہوا۔ آزادئِ ہند کے دو سال بعد دسمبر  1949 ءکو رات کے اندھیرے میں چوری چھپے مسجد کے منبر پر مورتیاں رکھ دی گئیں اور صبح شور مچا دیا گیا کہ پرشوتم بھگوان رام “پرکٹ” ہوئے ہیں۔

 یہیں سے ظلم و زیادتی اور حکومت و عدالت کے انصاف کی آنکھ مچولی کا گھناؤنا کھیل شروع ہوتا ہے اس کا پہلا نمونہ اس وقت ظاہر ہوا جب بھگوان رام کے “پرکٹ” ہونے کے محض شور سے 1949 ء میں ضلع انتظامیہ نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا گیا مسجد میں تالا لگوا دیا

لیکن چار پجاریوں کے تقرر کے ساتھ ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی۔ اس طرح مسجد پر قبضے کی سرکاری کوششوں کا آغاز ہوا۔خدا جانے یہ کیسا انصاف تھا کہ صدیوں سے چلی آرہی نماز بند کردی گئی اور غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی مورتی پر پوجا کی اجازت دے دی گئی۔

۔31 جنوری 1986 ء میں عدالت میں بابری مسجد کا تالا کھولنے اور پوجا کی عام اجازت کا مطالبہ کیا گیا۔ جج صاحب کی “منصف مزاجی” کی داد دینا ہوگی کہ ایک دن کی سنوائی میں ہی انہوں نے تالا کھولنے اور پوجا کی عام اجازت دینے کا حکم جاری کردیا۔

ظاہر ہے کہ اس حکم نامے کے پس پردہ راجیو گاندھی کی منشا بھی شامل تھی۔ تالا کھلنے کے تیسرے سال یعنی 1989 میں اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے رام مندر کا شلانیاس (سنگ بنیاد) کرایا۔

اس سے قبل راجیو گاندھی کے کہنے پر ہی “راماین” نامی ٹی وی ڈرامہ شروع کرایا گیا جس نے عوامی ذہن کو رام مندر تعمیر کے لیے برانگیختہ کرنے میں اہم رول ادا کیاتھا۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد شدت پسندوں کا جنون بڑھتا گیا اسی جنون کا اثر تھا کہ31 اکتوبر اور 2 نومبر 1990 کو جنونی ہندوؤں کی بھیڑ نے مسجد پر حملہ کر دیا۔

حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں چند شرپسند ہلاک بھی ہوئے تھے ۔اسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ تھا کہ ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کے مسیحا بن گئے اور آج تک ان کا کنبہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مسلمان اس وقت سہم گیے جب بی جے پی رہ نما ایل کے اڈوانی نے “سوم ناتھ سے اجودھیا” کے لیے رتھ یاترا کا اعلان کیا۔ رتھ یاترا جہاں سے گزری قتل وغارت گری کی آگ لگاتی گئی۔

ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔دوسال تک قتل وخون کا بازار گرم کرنے کے بعد 1992 ء میں بابری مسجد پر “کار سیوا” کا اعلان کیا گیا جسے کچھ شرائط کے ساتھ سپریم کورٹ نے بھی منظوری دے دی۔ ایسے سخت ماحول میں کار سیوا کی اجازت سمجھ سے باہر تھی۔ بہرحال ‘کار سیوا’ کی اجازت ملتے ہی ملک بھر سے شدت پسند ہندوؤں کے ٹولے اجودھیا کے لیے نکل پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اجودھیا میں لاکھوں کار سیوکوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔

حالات انتہائی کشیدہ بن گیے تھے اب بابری مسجد بارود کے ڈھیر پر تھی چونکہ ان حملہ آور کار سیوکوں کو مسجد کے پاس ہی ٹھہرایا گیا تھا۔” 6 دسمبر 1992 ء کی صبح بابری مسجد کی حیات ظاہری کی آخری صبح تھی جب ‘کار سیوا’ شروع ہوئی تواسٹیج پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران موجود تھے۔

اشتعال انگیز تقریریں اور نعرے بازیاں ہورہی تھیں ۔ تقریباً 11 بجے کار سیوکوں نے مسجد پر چڑھائی کردی۔دو بجے کے آس پاس پہلا گنبد شہید ہوا۔ شام پانچ بجے تک سارے گنبد گرا دیئے گئے۔رات گئے تک سارے ملبے کو برابر کرکے ٹینٹ لگا کر مورتی نصب کر دی گئی اور عارضی مندر بنا دیا گیا۔بابری مسجد کے ساتھ اجودھیا کی تقریباً 30 مسجدوں اور 300 سے زائد مکانوں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔

بعد میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی تعمیر کا بھروسہ دلایا لیکن جب بنی ہوئی مسجد ہی شہید کردی گئی تو شہید مسجد کے بننے کا یقین سوائے کانگریسی مسلمانوں کے، کسی کو نہیں تھا۔ اور ایسا ہی ہوا۔

آخرکار 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ثبوت نہ ہونے کے باوجود محض “آستھا” کی بنیاد اور اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ غنیمت یہ رہی کہ چیف جسٹس نے کچھ باتیں بہت واضح انداز میں صاف کردیں:

۔1 بابری مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی گئی تھی

۔2 1949 میں مسلمانوں کو غیر قانونی طریقے پر نماز پڑھنے سے روکا گیا تھا

۔3-بابری مسجد کا انہدام سپریم کورٹ کی خلاف ورزی اور سخت مجرمانہ عمل تھا۔ سپریم کورٹ کے اس کمینٹ کے باوجود سی بی آئی کے خصوصی کورٹ نے 30 ستمبر 2020 کو بابری مسجد انہدام کے جملہ ملزمین کو باعزت بری قرار دے دیا اس طرح 1949 سے شروع ہوا عدالتی انصاف کا کھیل اب اپنے انجام کو پہنچ گیا

یہ حال ہے تو کون کورٹ میں جائے گا

۔71 سال کے اس سفر میں بابری مسجد نے انصاف کے کتنے نئے نئے رنگ دیکھے ہیں آئیے اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمالیں

۔(1) 421 سال سے جس مسجد میں نماز ادا کی جارہی تھی وہاں ایک مورتی رکھ دینے سے نماز بند اور پوجا شروع کرا دی گئی

۔(2) 1949 تا 2019 مورتی رکھے جانے کو غیر قانونی قرار دیا جاتا رہا لیکن مورتی نہیں ہٹائی گئی

۔(3) مسلمان لگاتار نماز کی اجازت مانگتے رہے لیکن محروم رہے جبکہ ہندو فریق کی درخواست پر تالا کھول کر پوجا کی عام اجازت مل گئی

۔(4) معاملہ کورٹ میں ہونے کے باوجود نومبر 1989 میں شلانیاس (سنگ بنیاد) بھی کرایا گیا

۔5 اڈوانی کی رتھ یاترا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے باوجود 1992 میں ‘کار سیوا’ کی اجازت دی گئی

 ۔6 لاکھوں کار سیوکوں کو مسجد کے پاس ٹھہرا کر انہیں مشتعل کیا گیا لیکن حکومت وانتظامیہ تماشائی بنے رہے

۔(7) 6 دسمبر 1992  ء کو بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کیا گیا، سیکڑوں لوگ عینی شاہد تھے۔ دنیا نے دیکھا مگر “انصاف” کو ثبوت نہیں ملے

۔ 8 بابری کے قاتل آج بھی کھلے عام بابری مسجد انہدام  کی بات قبول کر رہے ہیں لیکن انصاف کے کان ایسی آوازوں کو سننے سے بے نیاز ہوچکے ہیں

۔9 رام مندر کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس گوگوئی نے انہدام بابری کو مجرمانہ عمل قرار دیا تھا اب یہ معمہ کون سلجھائے کہ جس مسجد کا انہدام مجرمانہ عمل تھا تو اس کے ملزمین کیسے بری کر دئیے گئے؟ڈاکٹر راحت اندوری نے ٹھیک کہا تھا

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائےگا

 یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا

ان کو بھی پڑھیں

بابری مسجد کے دلال قسط اول 

بابری مسجد کے دلال قسط دوم 

آخری بات ! مسلمان برسوں سے جن اداروں سے انصاف کی امید لگائے اپنے جوش جذبوں کو دبائے ہوئے تھا ہائے افسوس ان اداروں نے اپنے  آقاؤں کے سامنے قانون کی بالا دستی بھی قربان کر دی آج جب بابری مسجد کی شہادت کے مجرمین کو باعزت بری کر دیا گیا تو دل خون کے آنسو رو پڑا

یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اس کے پیچھے بڑے بڑے منصوبے پوشیدہ ہیں، ہمیں اب بیدار ہو جانا چاہیے اور اپنی خود احتسابی کے ساتھ ان امور پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ عزیز ہندوستان جہاں کی جمہوریت اور قانون کی پاس داری کی مثالیں سارے عالم میں مشہور تھیں اسی جمہوریت میں آج سے کم و بیش 28 سال قبل ایک تاریخی عظیم بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کر دیا جاتا ہے۔

 جس میں ملوث اکثر مجرمین اسے کار ثواب بتا کر فخر سے اس کا اعتراف بھی کرتے رہتے ہیں، اس کے باوجود ہمارے ادارے ظلم کو کچلنے، ظلم کو دبانے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے مظلوم کو کمزور کرتے نظر آتے ہیں۔

کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں، نہ صرف حکومتی انتظامات بلکہ سول سروسز تک میں اپنی ذہنیت کو پروان چڑھا چکی ہیں۔ ورنہ وہ ادارے جو حکومتوں کے زیر اثر نہ ہوں، جن کا کردار غیر جانب دار ہونا تھا ان کے فیصلے ایک مخصوص طبقے کے زیر اثر ثابت ہو رہے ہیں

جو قانون کی حد میں رہ کر خود مختارانہ فیصلے سنانے کے متحمل ہوں ان کی جنبشِ لب بھی فرقہ پرستوں کی حمایت کرنے لگیں تو ہمیں بہت کچھ سمجھ لینا چاہیے۔ جن سے ہم نے امید وفا رکھی، وہی در پے آزار ہیں یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں پر انصاف کی پٹی چڑھا کر اتنا وار کیا گیا ہے کہ ہمارا وجود لہو لہان ہو چکا ہے 

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید 

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے 

نوٹ : مذکورہ بالا تحریر کی ترتیب میں مولانا غلام مصطفیٰ نعیمی کے مضمون آخر انصاف اپنے انجام کو پہنچا سے بھرپور استفادہ حاصل کیا گیا ہے 

تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی

 نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یو پی

 9839171719 

Hashimazmi78692@gmail.com

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن