تحریر: طارق انور مصباحی مسجد ٹوٹی مندر بنا مجرم ہوے آزاد
مسجد ٹوٹی مندر بنا مجرم ہوے آزاد
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔اس کا دستور سیکولر ہے اور دنیاکے کسی ملک کا دستور اس قدر سیکولر اور ہر ایک فرد کے حق وانصاف کے قوانین کا جامع نہیں، لیکن اس کے باوجود کمزور لوگ حق وانصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔درحقیقت کسی کو انصاف اور اس کا حق اسی وقت مل سکتا ہے،جب قانون کے رکھوالے بھی حق پر ست اور انصاف پسند ہوں،ورنہ کسی قانون کی غلط توضیح وتشریح کرنا بہت مشکل یا محال نہیں۔
بابر بادشاہ (1483-1530) کے حکم سے اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528 میں بابری مسجد کی تعمیر کی۔ جب سے وہاں نماز پنج گانہ،نماز جمعہ ونمازعیدین ادا کی جاتی رہی۔22/23دسمبر1949 کی درمیانی شب کو وہاں مورتی رکھ دی گئی اور مسجد کو اہل حکومت نے بندکردیا،اور مسجدکواپنی تحویل میں لے لیا۔
۔06:دسمبر 1992 کوشرپسندوں نے مسجد کوشہید کر دیا۔الٰہ آبادہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے 30:ستمبر2010 کوفیصلہ سنایا کہ اجودھیاکی 77 ایکڑ، دواعشاریہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔
ایک تہائی حصہ زمین رام للا مندرکودی جائے،جس کی نمائندگی ہندومہاسبھا کرتی ہے۔
ایک تہائی حصہ سنی وقف بورڈ کودی جائے اورایک تہائی حصہ نرموہی اکھاڑا کودی جائے۔
یہ فیصلہ کسی فریق کوقبول نہ ہوا،پھر سب لوگ سپریم کورٹ گئے۔امید یہی تھی کہ سپریم کورٹ کے ججزاپنی قابلیت اورعقل کا استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسا حل نکالیں گے کہ ہرفریق کو قبول ہوسکے،اورملک کے سب سے بڑے کورٹ سے یہی امیدرکھنی چاہئے۔
سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمہ پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپردکردیا،جس میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی،موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے،ڈی وائی چندر چوڑ،اشوک بھوشن اور ایس عبد النذیر شامل تھے۔
۔09:نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور ساری زمین رام للا کو دینے کا فیصلہ دیا اورمسلم فریق کو وہاں سے بے دخل کردیا۔مسجد کی تعمیر کے لیے مرکزی وریاستی حکومت کو اجودھیا میں پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔ریویو پٹیشن بھی خارج کردی گئی۔اب کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔
بابری مسجد:انہدام کیس میں 32نامزدملزمین تھے۔یہ مقدمہ سی بی آئی کورٹ میں تھا۔
۔30:نومبر 2020 کوسی بی آئی کورٹ کے جج ایس کے یادو نے تما م ملزمین کوبری کردیا اورکہا کہ بابری مسجد کاانہدام منصوبہ بند نہیں تھا۔یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا۔غیرسماجی عناصر گنبدپرچڑھے اور اس کوگرادیا۔
ابھی سی بی آئی کورٹ نے کم ازکم بابری مسجد کے انہدام کوایک مجرمانہ فعل تسلیم کیا ہے،گر چہ ملزمین کو آزاد کردیا۔
اگر معاملہ آگے بڑھتا ہے تو کہیں ان مجرموں کو مجاہدین آزادی کا درجہ نہ دے دیا جائے۔
جمہوری ملک میں جس قوم کے پاس سیاسی قوت نہ ہو،اس کو غلامی کی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ یہ صرف بھارت کا معاملہ نہیں۔موجودہ عہد میں ساری دنیا کے جمہوری ممالک کے حالات کا جائزہ لیں اور سیاسی طورپر پسماندہ جماعتوں کی پوزیشن معلوم کرلیں۔
بہت مشہور مقولہ ہے
جس کی لاٹھی،اس کی بھینس
مسلمان نہ صرف تعداد میں کم ہیں،بلکہ ان کا شعور بھی کم ہے۔ساڑھے تین فی صد برہمن سارے ملک پر قابض ہیں اورچودہ فی صد مسلمان ہر محاذپر ظلم وجبر کے شکار ہیں۔اگر ان کے درمیان کوئی دانشور پیدا بھی ہوتا ہے تووہ اسمبلی وپارلیامنٹ میں محض دوچار مرثیہ خواں اور نوحہ گر کو بھیجنے کی وکالت کرتا ہے۔
افسوس ہے ان دانش وروں پر۔اسمبلی وپارلیامنٹ میں اکثریت دیکھی جاتی ہے۔جس جانب ووٹ زیادہ ہوں گے،اسی پر مہر لگائی جاتی ہے، خواہ وہ فیصلہ کمزور ہی کیوں نہ ہو،اورفریق مخالف جس قدر آہ وزاری کر لے اور چاہے،جتنی مخالفت کرلے۔
دراصل یہ دانشوران لاشعوری طور پر قوم کو ہمیشہ محکوم رکھنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔اس محکوم قوم کے دل ودماغ میں حاکمیت کا جذبہ بیدار کرنا ایک کرشمہ سے کم نہیں۔
جب دوسری قومیں مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرتی ہیں تو مسلمان بھی دوسری قوموں کواپنے ساتھ ملائیں۔تعداد کے اعتبارسے ہم کبھی بھی اکثریت میں نہیں آسکتے۔ایسی صورت میں لازم ہے کہ ہم اضافی قوتوں کو اپنا سہارا بنائیں۔
برہمن سب سے قلیل التعدادقوم ہے۔اس نے دھرم کے نام پر سب کوسیاسی محاذپر اکٹھا کرلیا۔برہمنی سیاست یقینا مضبوط ہے۔آپ بھی نکتہ اتحادتلاش کریں اورمتحد ہوجائیں۔
بھارت میں اکثریت مظلوم ہے۔درحقیقت جومحکوم ہوتا ہے،وہ مظلوم ہوتا ہے۔ تمام محکوموں اور تمام مظلوموں کو ایک ساتھ ہوجانا چاہئے۔نکتہ اتحاد مظلومیت ومحکومیت ہو۔
مسلمان بھی مظلوم ہیں اور دیگر مذہبی اقلیتیں بھی مظلوم۔بھارت کی مول نواسی قومیں بھی مظلوم ہیں۔مردوں کا قتل اورمارپیٹ ہوتی ہے اورعورتوں کی عصمت ریزی۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔آئے دن اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
کبھی کشمیر میں آٹھ سالہ بچی آصفہ کی عصمت ریزی وہلاکت اور کبھی ہاتھرس میں منیشاکی عصمت دری وہلاکت۔کورٹ میں معاملہ اس قدر طویل ہوجاتا ہے کہ وکیل کی فیس دیتے دیتے اور مقدمہ لڑتے لڑتے آدمی کنگال ہوجاتا ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ کبھی وکیل مجرم کو بے قصور اور مظلوم کو ہی مجرم ثابت کردکھاتا ہے۔
حالیہ چند سالوں سے یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مجرموں کی حمایت میں لوگ اعلانیہ طور پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور مجرم کو بے گناہ و بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور مجرم طبقات کی ذہنیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔در حقیقت آرین قوم غیر آرین کو انسان ہی نہیں سمجھتی۔
کئی سالوں سے میڈیا کا حال بھی جگ ظاہر ہے۔
محکومیت کے سبب ظلم ہوتا ہے،اس لیے ظلم وستم سے نجات پانے کے لیے محکومیت کو دور کرنا ہوگا۔ محکومیت اسی وقت دور ہوگی،جب سیاسی محاذپر آپ کے پاس اکثریت ہو۔افرادبڑھیں گے توووٹ بھی بڑھے گا۔
حالات کا تقاضا ہے کہ بھارت کے تمام اقلیتیں اور مول نواسی اقوام سیاسی محاذ پر متحد ہوجائیں۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بام سیف کے جھنڈے تلے تمام مول نواسی قومیں متحد ہورہی ہیں اور بھارت کی مذہبی اقلیتیں بھی اس سے منسلک ہیں۔ قوم مسلم کے بہت سے باشعور افراد بھی اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں۔عوام بھی شامل ہیں اور خواص بھی۔بہت سے علما بھی اور دیگر تعلیم یافتگان بھی۔یہ حالات کا تقاضا بھی ہے۔
ہم نے اپنی مختلف تحریروں میں شرعی تعلیمات کے مطابق اس اتحادکے اصول وحدودکو بیان کردیا ہے۔
الحاصل رفتہ رفتہ اب اتحاد کی طرف قدم بڑھنا شروع ہوچکا ہے۔ اس فکرکو ابھی قوت نہیں مل سکی ہے، تاہم اس کوکسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتاہے۔امید ہے کہ چندسالوں میں منظر نامہ کچھ بدل جائے۔
اگر اربا ب فکر ونظر نے اس جانب توجہ ارزانی کی تو امید ہے کہ اس مشن میں تیزی آجائے۔
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ فسادات کے موقع پر شودر اقوام(مول نواسی اقوام) کو مذہب کے نام پر ورغلاکر مسلمانوں کے خلاف میدان میں اتاراجاتا ہے۔وہ مسلمانوں کا قتل وخون بھی کرتے ہیں۔ ان کی جائیدادیں بھی لوٹتے اور تباہ کرتے ہیں۔ان کی پردہ نشیں خواتین کی عصمت دری بھی کرتے ہیں۔
سخت تعجب ہوتا ہے مسلم علما اور دانشوروں پر کہ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر بھی شودر اقوام سے اتحاد کی کوشش نہیں کرتے،تاکہ ان کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کی حرکتیں ناکام ہوجائیں۔وہ اپنے بھائیوں کی ہلاکت وخونریزی،اپنی بہنوں کی عصمت ریزی دیکھ کر بھی سدباب کی کوشش نہیں کرتے۔افسوس ہے اورتعجب بھی۔
شودروں کو کسی کے بہکاوے میں آنے سے روکنے کے واسطے ان پر ہونے والے ساڑھے تین ہزار سالہ ظلم وجبر سے انہیں واقف کرانا ہوگا۔ مسلمان سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعدیعنی 1857 سے مظلوم ہوئے۔مول نواسی قومیں (بھارت کے اصل باشندگان/شودر اقوام) اپنی حکومتوں کے زوال کے بعدسے ہی مظلوم ہیں۔
آرین قوم 1500 قبل مسیح بھارت آئی۔رفتہ رفتہ مقامی حکومتوں پر قابض ہوگئی،اور مقامی لوگوں پر ظلم کا آغاز ہوا۔اسی عہد میں برہمنوں نے ذات پات کا نظام قائم کیا اورشودروں کو پیدائشی غلام کا درجہ دیا۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع