تحریر:سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط پنجم
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط پنجم
۔[۳] اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے
لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَ اَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا۔وَمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَأخُذُوْنَھَا وَکَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(سورۂ فتح ،آیت نمبر :۱۸۔۱۹]۔
ترجمہ :بلا شبہ اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ،سو اللہ جانتا تھا جو کچھ اُن کے دلوں میں ہے ، لہذا اللہ نے اُن کے دلوں پر سکون نازل فرمایااور اُن کو عن قریب آنے والی فتح کا انعام دیا ۔اور اُن کو بہت سی غنیمتیں عطا فرمائیں جن کو وہ حاصل کریں گے اور اللہ بہت غلبے والا بڑی حکمت والا ہے ۔
یہ آیتِ کریمہ اُس موقع پر نازل ہوئی تھی جب آپ ﷺ ماہِ ذو القعدہ سن ٦ ہجری میں اپنے چودہ سَو صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تھے اور کفارِ قریش نے آپ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا۔
چناں چہ مشہور صحابیِ رسول حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے : کُنَّا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ألْفًا وَّ أرْبَعَ مِأَۃٍ ۔[الصحیح للامام مسلم ،کتاب الامارۃ ،با ب استحباب مبایعۃ الامام الجیش ۔۔۔رقم الحدیث ۴۹۱۴:]۔
ترجمہ:صلحِ حدیبیہ کے موقع پر نبی ﷺ کے ساتھ چودہ سَو صحابۂ کرام موجود تھے ۔اِسی موقع پر’’بیعتِ رضوان‘‘ کا تاریخی واقعہ پیش آیا، جس کا نہایت مختصر بیان یہ ہے کہ
حضور ﷺ نے کفار سے صلح ہونے سے پہلے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر مکۂ مکرمہ بھیجا ، اِسی دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ’’ کفارِ مکہ نے سفیرِ مصطفیٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا ہے‘‘۔
نبی ﷺ نےحضرت عثمان غنی کے انتقام کے لیے، کفارِ مکہ سے جنگ کرنے کے لیے،اپنے صحابہ سے بیعت لی اور صحابۂ کرام نے جذبۂ صادق کے ساتھ یہ کہہ کر بیعت کی تھی کہ وہ مرتے دم تک آپ ﷺ کی قیادت میں ظالموں سے لڑتے رہیں گےاور آپ کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوں گے۔ تاریخ نے اِسی بیعت کو’’بیعتِ رضوان‘‘ کے نام سے محفوظ کیا ہے ۔
شیعہ مفسر ’’ابو علی فضل بن حسن طبرسی‘‘ نے بھی اِس واقعے کو تفصیلاً بیان کیا ہے اور اِس بیعت میں حاضر رہنے والے صحابۂ کرام کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی ہے،دیکھئے ! [مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج۹:،ص:۱۵۰،مطبوعہ دارالعلوم،بیروت،لبنان]۔
چوں کہ اُن چودہ سَو صحابۂ کرام نے اِس بیعت میں نہایت والہانہ انداز میں ’’اپنے خلوص ، محبت اور اسلام کے تئیں اپنے سچے جذبات‘‘ کا اظہار کیا تھا ، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرما کر اُن کے خلوص کو قبولیت کی سند سے سرفراز فرمایا اور ہمیشہ کے لیے اُن سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرمایا ۔
یہ آیتِ کریمہ صحابۂ کرام کے اخلاص،عدالت اور اُن کی وفاشعاری کی شہادت دے رہی ہے۔
چناں چہ مشہور مفسر حضرت امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اللہ مومنوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سےدرخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے،تو اللہ کو پہلے ہی سے اُن کے دلوں کی صداقت و عدالت کا علم تھا جس طرح اُسے منافقوں کے دلوں کی بیماری [ یعنی نفاق]کا علم تھا۔
پس اللہ نے اُن کے دلوں پر سکینہ نازل فرمایا؛ یہاں تک کہ انھوں نے موت پر بیعت کی ۔یہاں ایک لطیف معنٰی ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس آیتِ کریمہ سے پہلے فرمایا :’’جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا ،اللہ اُسے جنت کے باغوں میں داخل فرمائے گا ‘‘۔
اِس میں اللہ و رسول کی اطاعت کو دخولِ جنت کی علامت قرار دیا گیا ہے اور زیرِ تفسیر آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ ’’بیعتِ رضوان میں حاضر صحابہ کی جانب سے اللہ و رسول کی اطاعت پائی گئی ‘‘۔اللہ کی اطاعت کی جانب ’’لقد رضی اللہ عن المؤمنین‘‘ سے اشارہ کیا گیا اور اطاعتِ رسول کی جانب ’’اذ یبایعونک تحت الشجرۃ‘‘ سے اشارہ کیا گیا ۔
اورجہاں تک بیعتِ رضوان والوں کےجنتی ہونے کا تعلق ہے تو اِس کی جانب ’’رضی اللہ عن المؤمنین‘‘ سے اشارہ کیا گیا ہے؛کیوں کہ جنت میں داخلہ رضاے اِلٰہی کے بغیر ممکن نہیں ۔[تفسیرِ کبیر،ج:۱۴،جز:۲۸،ص:۹۶،مطبوعہ دارالفکر،بیروت]۔
اِس اقتباس سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیعتِ رضوان دین و ایمان میں نہایت مخلص ،صادق اور عادل تھے ۔یہی بات شیعہ مفسرین نے بھی کہی ہے ،چناں چہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں
اِس آیتِ کریمہ میں بیعت سے مراد’’بیعتِ حدیبیہ‘‘ ہےجسے بیعتِ رضوان بھی کہا جاتا ہے ۔مومنوں سے اللہ کے راضی ہو نے کا معنٰی یہ ہے کہ اُس نے مومنوں کو عزت وعظمت اور اجر و ثواب سے سرفراز کرنے کا ارداہ فرمایا ۔یہ اللہ رب العزت کی جانب سے اعلان و اِخبار ہے کہ وہ مومنوں سے راضی ہو گیا جس وقت انہوں نے مقامِ حدیبیہ میں ببول کے معروف درخت کے نیچے حضور ﷺ کے دستِ پاک پر بیعت کی ۔
کیوں کہ اللہ کو قتال وجہاد کے سلسلے میں اُن کی نیت کے سچے ہونے کا علم تھا ۔ مقاتل نے کہا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اللہ کو اُن کے یقین ،صبر اور وفا کا علم تھا ۔[جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج:۹،ص:۱۴۸،مطبوعہ دارالعلوم،بیروت ، لبنان]۔
یہ شیعی اقتباس بھی یہی بتلا رہا ہے کہ وہ حضرات انتہائی مخلص اور نہایت عادلانہ شان والے تھے ۔
جن صحابہ کو علاَّم الغیوب اللہ عز وجل نے دنیا ہی میں اپنی رضا و خوش نودی کی سند دے دی، اُن کے بارے میں یہ کہنا کہ
حضور ﷺ کے بعد چھ سات صحابہ کے علاوہ سبھی مرتد ہو گیے تھے کس قدر محال اور غیر معقول بات ہے ۔
جاری
تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ۔
پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے : باقی قسطوں کو پڑھنے کے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع