تحریر: طارق انور مصباحی تقسیم کے وقت فوج کی تقسیم ایک خطرناک فیصلہ
تقسیم کے وقت فوج کی تقسیم
۔1947میں تقسیم ہندکے وقت اگر دونوں ملکوں یعنی ہندوپاک کی فوجیں متحدہ کمان میں ہوتیں توتقسیم کے وقت ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانا بہت آسان ہوجاتا۔
فوجوں کی تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی فوج نے مسلمانوں کی مدد نہیں کی اور پاکستانی فوجوں نے ہندؤں کی مددنہیں کی،اور ماحول بگڑتا چلاگیا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ تقسیم کے وقت پنجاب وبنگال میں قریباً دس لاکھ لوگ ہجرت کرتے وقت ہلاک ہوئے۔ بہت سے لوگوں کو دہشت گردوں نے ہلاک کردیا اورکچھ لوگ راستے میں بھوک پیاس کی شدت کے سبب مر گئے۔بہت سے لوگ دونوں ملکوں میں اکثریتی طبقہ کے ظلم وستم کے شکار ہوئے۔
اگر فوج متحدہ کمان میں ہوتی تو فوج میں فرقہ ورانہ فکر نہ آتی۔ دہشت گردوں پر فوج کی طرف سے سختی ہوتی اور ماحول کنٹرول ہوتا۔
سابق صدر کانگریس ابوالکلام آزاد نے لکھا:”فوج کے سلسلے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس فوج کا ایک چوتھائی حصہ ہونا چاہئے اور ہندوستان کے پاس تین چوتھائی۔یہ سوال اٹھا کہ کیا فوج کوفوراً تقسیم کردیا جائے،یا دو یا تین برس کے لیے اسے ایک متحدہ کمان کے تحت کام کرنے دیا جائے۔
فوجی کمانڈروں نے صلاح دی کہ اس مدت کے دوران عام اسٹاف مشترکہ ہونا چاہئے۔میں ان کے دلائل سے متاثر ہوا،اوران کی تائید کی۔ان اسباب سے قطع نظر جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پیش کیے تھے،میرے پاس کچھ اپنی دلیلیں بھی تھیں۔مجھے ڈر تھا کہ تقسیم کے بعد بدامنی اور فساد ات پھیل جائیں گے۔
میں نے سوچا کہ اس سیاق میں ایک مشترکہ فوج ہندوستان کی بہتر خدمت کر سکے گی۔میں اپنے ذہن میں صاف تھا کہ اگر صورت حال کو بچانا ہے تو ہمیں فوج کے اندر فرقہ وارانہ بٹوارے نہیں کرنے چاہئیں۔
اگر فوج کو سیاست سے باہر رکھا گیا،ان کی ڈسپلن اور غیر جانب داری قائم رہے گی،اسی لیے میں نے ایک متحدہ کمان پر زوردیا اور میں ان الفاظ کوضبط تحریر میں لانا چاہتا ہوں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے میرے موقف کی حمایت کی۔
مجھے یقین ہے کہ اگر فوج متحدہ رہتی تو ہم آزادی کے فوراً بعد بہنے والی خون کی ندیوں سے بچ سکتے تھے۔
یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میرے رفقا نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا اور پرزور طریقے سے میری مخالفت کی۔
سب سے زیادہ حیرانی مجھے جس بات پر ہوئی،وہ ڈاکٹر را جندر پر ساد کی مخالفت تھی۔وہ امن پسند تھے اور عدم تشددان کا مسلک تھا۔اس اصرار میں کہ فوج کو تقسیم کردیا جائے،اب وہی پیش پیش تھے۔
انھوں نے کہا:اگر ہندوستان دوریاستوں میں تقسیم کردیا گیا توکسی متحدہ فوج کو ایک دن کے لیے بھی نہ تو باقی رکھا جا سکتا ہے،نہ ایسا کرنا چاہئے۔
میرا خیال ہے کہ یہ ایک خطر ناک فیصلہ تھا۔اس نے فوج کو فرقوں کی بنیاد پرتقسیم کردیا۔
مسلمان دستے پاکستان کے حصے میں چلے گئے او ر ہندو اور سکھ دستے ہندوستان ہی میں رہے۔اس نے فوج میں بھی فرقہ پرستی کا زہر پھیلا دیا،جواب تک اس سے بچی ہوئی تھی۔
جب 15:اگست کے بعد بے گناہ مردوں اور عورتوں کا خون سرحد کے دونوں طرف بہا تو فوج خاموش تماشائی بنی رہی۔اس سے زیادہ برا یہ ہواکہ بعض معاملات میں فوجی خود بھی اس لڑائی میں شامل ہوگئے“۔
(انڈیا ونس فریڈم:مترجم ص 267-268-مکتبہ جمال لاہور)
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع