Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتعناصر اربعہ کا کلام اور مفسر میں عدم اختلاف

عناصر اربعہ کا کلام اور مفسر میں عدم اختلاف

از قلم: طارق انور مصباحی( کیرلا)۔ عناصر اربعہ کا کلام اور مفسر میں عدم اختلاف

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

عناصراربعہ کا کلام اور مفسر میں عدم اختلاف

قرآن مجید اور احادیث طیبہ دربار رسالت مآب علیہ التحیۃ والثنا کے غیر حاضرین کے حق میں مسموعات میں سے نہیں،بلکہ منقولات میں سے ہے۔

منقولہ کلام کی ایک تقسیم ثبوت وروایت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ کبھی منقولہ کلام متواتر ہوتا ہے اور کبھی غیر متواتر۔متواتر کلام کو قطعی الثبوت بالمعنی الاخص کہا جاتا ہے۔

الفاظ وکلام کی ایک تقسیم دلالت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ دلالت کے اعتبارسے فقہا کے یہاں الفاظ وکلام کی متعدد قسمیں ہیں۔ ظاہر،نص،مفسر ومحکم،یہ چاروں قسمیں دلالت کے اعتبار سے ہیں اور قطعی ہیں،یعنی جو کلام ظاہر یانص یا مفسر یا محکم ہو، وہ اپنے مفہوم پردلالت کے اعتبارسے قطعی ہوگا۔

مفسر ومحکم قطعی بالمعنی الاخص ہیں،یعنی ان دونوں قسموں میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہیں ہوتا ہے۔ظاہر ونص قطعی بالمعنی الاعم ہیں،یعنی ان دونوں قسموں میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل ہوتا ہے،لیکن احتمال بالدلیل نہیں ہوتا۔چوں کہ وہ احتمال بلادلیل ہوتا ہے،اس لیے فقہائے کرام کے یہاں اس کا اعتبار نہیں ہوتا۔متکلمین کے یہاں اس احتمال کا اعتبار ہے۔

اسی احتمال بلادلیل کے سبب اسماعیل دہلوی کفر کلامی سے بچ گیا اور اشخاص اربعہ کے کلام میں احتمال بلا دلیل بھی نہیں،اس لیے وہاں کفر کلامی کا حکم عائد ہوا۔

چوں کہ اشخاص اربعہ میں سے ہرایک کی موت ہوچکی، اور موت کے سبب ان کفریہ عبارتوں میں قائلین کی جانب سے نسخ وتبدیلی یعنی توبہ ورجوع کی گنجائش ختم ہوگئی، اس لیے یہ عبارتیں کفری معنی میں محکم ہوگئیں۔

احتمال بلادلیل کی گنجائش نہ ہونے کے سبب یہ عبارتیں کفری معنی میں مفسر تھیں۔الحاصل یہ عبارتیں کفری معنی میں مفسر ومحکم ہیں۔یہ عبارتیں کفری معنی میں اٹل ہیں۔ کروڑوں تاویلات کرلی جائیں،کفر ٹل نہیں سکتا۔تاویل باطل کرنے والا انہی کی طرح کافرومر تد ہے۔

قطعی الدلالت کی قطعیت میں اختلاف نہیں ہوتا

فقہاے اسلام کے یہاں قطعیات کو ظاہر ونص اور مفسرومحکم کہاجاتاہے۔یہ اصطلاحی نام ہیں۔متکلمین کے یہاں عام طورپر قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم کی اصطلاح مروج ہے۔

ان دونوں قسموں کی قطعیت میں اختلاف نہیں ہوتا،یعنی قطعی بالمعنی الاعم کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے(یعنی نص کے نص ہونے)اور قطعی بالمعنی الاخص کے قطعی بالمعنی الاخص ہونے(یعنی مفسرکے مفسرہونے) میں اختلاف نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ الفاظ وکلام کی یہ قسمیں دلالت کے اعتبارسے ہیں۔ثبوت کے اعتبار سے بھی کلام کی متعددقسمیں ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی بحث آئے گی۔

قرآن مجید کی مفسر آیت اور مفسر حدیث متواتر سے جو ثابت ہوتا ہے،وہ ضروری دینی ہوتا ہے۔اگر کسی مفسر آیت ومفسرحدیث متواتر کے مفسر ہونے میں اختلاف ہوتا تو اس سے ثابت ہونے والے ضروری دینی کے ضروری دینی ہونے میں بھی اختلاف ہوتا،لیکن اس اعتبارسے کسی ضروری دینی میں اختلاف نہیں۔

آیت قرآنیہ اور حدیث متواتر جونص ہو، یعنی قطعی بالمعنی الاعم ہو، اس سے جو ثابت ہوتا ہے،وہ ضروری اہل سنت ہوتا ہے۔اگر کسی آیت یاحدیث متواتر کے نص ہونے میں اختلاف ہوتا تو اس سے ثابت ہونے والے ضروری اہل سنت کے ضروری اہل سنت ہونے میں بھی اختلاف ہوتا،لیکن اس اعتبارسے کسی ضروری اہل سنت میں اختلاف نہیں۔

سوال:جب قطعی بالمعنی الاعم اور قطعی بالمعنی الاخص کی قطعیت میں اختلاف نہیں ہوتا ہے تو دیوبندیوں نے اشخاص اربعہ کی کفری عبارتوں کو کفری معنی میں متعین ومفسرہونے کا انکا ر کیسے کردیا؟

جواب:قطعیات کی قطعیت میں اختلاف نہ ہونے سے مرادیہ ہے کہ اہل حق کا اختلاف نہیں ہوتا۔ اہل باطل کا اختلاف تو بدیہیات اولیہ میں بھی ہوتا ہے۔ فرقہ لاادریہ،سمنیہ,سوفسطائیہ وغیرہ بدیہیات میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔ایسا اختلاف معتبر نہیں ہوتا۔اختلاف سے معتبر اختلاف مراد ہے۔

قال الہیتمی:(لیس کُلُّ خِلافٍ جاء معتبرًا-الا خلافًا لہ حظٌّ من النَّظَرِ)۔(تحفۃ المحتاج ج11 ص453-مکتبہ شاملہ)۔

قطعی بالمعنی الاخص وبالمعنی الاعم کی قطعیت میں اختلاف نہیں

اہل حق کے درمیان قطعی بالمعنی الاخص (مفسر)اورقطعی بالمعنی الاعم (نص)کی قطعیت میں اختلاف نہیں ہے۔ قطعی بالمعنی الاخص سے جوثابت ہو،وہ ضروری دینی ہے۔اگر کسی مفسر کے مفسر ہونے میں اختلاف ہوتا تواس سے ثابت ہونے والے ضروری دینی میں بھی اختلاف ہوتا۔

جو اس آیت قرآنیہ یا حدیث متواتر کو مفسر نہ مانتے،وہ اس ضروری دینی کواس آیت وحدیث کے سبب ضروری دینی بھی نہیں مانتے۔گرچہ کسی دوسر ے اعتبارسے مثلاً اس کے اجماع متواتر یاعقل صحیح سے ثابت ہونے کے سبب اس کوضروری دینی مان لیں۔

اسی طرح قطعی بالمعنی الاعم کی قطعیت میں بھی اختلاف نہیں ہوتا ہے۔قطعی بالمعنی الاعم سے جوثابت ہو،وہ ضروری اہل سنت ہے۔اگر کسی نص کے نص ہونے میں اختلاف ہوتا تواس سے ثابت ہونے والے ضروری سنی میں بھی اختلاف ہوتا۔

جو اس آیت قرآنیہ یا حدیث متواتر کو نص نہ مانتے،وہ اس ضروری سنی کواس آیت وحدیث کے سبب ضروری سنی بھی نہیں مانتے۔گرچہ کسی دوسر ے اعتبارسے مثلاً اس کے اجماع صحابہ یاعقل صحیح سے ثابت ہونے کے سبب اس کوضروری سنی مان لیں۔

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:}وانا اقول،وباللّٰہ التوفیق:بل القطع علٰی ثلثۃ اوجہ-قطع عام یشترک فیہ الخواص والعوام-وہو الحاصل فی ضروریات الدین-و خاص یختص بمن مارس العلم-وہو الحاصل فی سائر الفرائض الاعتقادیۃ المجمع علیہا-و الثالث:قطع اخص یختلف فی حصولہ العلماء کما اختلف فی حصول الثانی العوام والعلماء۔
فربما یؤدی ذہن عالم الی قرائن ہجمت وحفت فرفعت عندہ الظنی الی منصۃ الیقین-ولا تظہر ذلک لغیرہ او تظہر فتظہر لہ معارضات تردہا الی المرتبۃ الاولی من الظن واعتبرہ بمسألۃ سمعہما صحابی من النبی صلی اللہ علیہ وسلم شفاہا-وبلغ غیرہ باخبارہ فہو قطعی عندہ-ظنی عندہم۔

فالمجتہد لا یثبت الافتراض الا بما حصل لہ القطع بہ-فان کان العلماء کلہم قاطعین بہ،کان فرضا اعتقادیا-وان کان قطعا خاصا بہذا المجتہد،کان فرضا عملیا-ہذا ما ظہر لی وارجوا ان یکون صوابًا ان شاء اللّٰہ تعالٰی-والیہ اشرت فیما قررت فاعرف{(فتاویٰ رضویہ جلد اول ص 249،250-جامعہ نظامیہ لاہور)۔

ترجمہ:اورمیں بتوفیق الٰہی کہتا ہوں،بلکہ یقین کی تین صورتیں ہیں۔
۔(۱)عام یقین:جس میں عوام وخواص سب شریک ہوں۔ یہ ضروریات دین میں ہوتا ہے۔

۔(۲)خاص یقین:جو علم سے مشغولیت رکھنے والوں کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ یہ وہ ہے جو تمام اجماعی فرائض اعتقادیہ میں پایا جاتا ہے۔

۔(۳)اخص یقین:جس کا حصول علما کے درمیان فرق ہوتا ہے،جیسے قسم دوم کے حصول میں عوام اورعلما کے درمیان فرق ہوتا ہے۔

بسا اوقات ایک عالم کا ذہن کچھ ایسے قرائن کو پالیتا ہے،جو (اس کے ذہن میں) ہجوم کیے ہوتے ہیں اور اسے گھیرے ہوتے ہیں،جن کے سبب اس کے نزدیک ظنی، یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے،اوروہ قرائن دوسرے عالم کے لیے ظاہر نہیں ہوتے،یا معارض قرائن کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جو اس امر کومنزل اول یعنی ظن کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔

اسے اس مسئلہ سے سمجھیں،جس کوکسی صحابی نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا اور دوسروں کواس صحابی کے بتانے سے معلوم ہوا تو اس صحابی کے نزدیک وہ قطعی ہے،اور دوسروں کے نزدیک ظنی ہے تو مجتہد فرضیت کا اثبات اسی دلیل سے کرتا ہے،جس کے متعلق اسے قطعیت حاصل ہوچکی ہے۔

اگریہی قطعیت تمام علما کے نزدیک حاصل ہے تووہ فرض اعتقادی ہے،اوراگر یہ قطعیت خاص اسی مجتہد کو حاصل ہے تو اس کے نزدیک وہ فرض عملی ہے۔

یہ وہ ہے جو مجھ پر منکشف ہوا،اورمیں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ صحیح ہوگا۔اسی طرف میں نے اپنی تقریر مذکورہ میں اشارہ کیا تو اسے جان لیجئے۔

توضیح :مذکورہ بالا عبارت میں یقین کی تین قسمیں بیان کی گئیں۔قسم اول قطعی بالمعنی الاخص ہے۔اس میں جو یقین پایا جاتا ہے،اس کی تعبیر یقین عام سے کی گئی ہے،کیوں کہ اس یقین میں عوام وخواص مشترک ہوتے ہیں۔

قطعی بالمعنی الاخص ہی کوفقہائے احناف مفسر کہتے ہیں۔مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ قطعی بالمعنی الاخص کے قطعی ہونے یعنی مفسر کے مفسر ہونے میں عوام وخواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا ہے۔

منقولہ بالا عبارت میں قسم دوم قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس میں یقین خاص پایا جاتا ہے،یعنی ایسا یقین جواہل علم کے ساتھ خاص ہوتا ہے،گرچہ وہاں عوام کو یقین حاصل نہ ہوسکے۔

قطعی بالمعنی الاعم ہی کوفقہائے احناف نص کہتے ہیں۔مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ قطعی بالمعنی الاعم کے قطعی ہونے یعنی نص کے نص ہونے میں خواص میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہوتا ہے۔

جب کسی نص یاکسی مفسر میں اہل علم کا اختلاف ہوتا نہیں تواس سے یہ واضح ہوگیا کہ نص ومفسر کے تعین کے اصول وضوابط نظری یا بہت مشکل نہیں،نیز تعین کے قواعد وقوانین بہت مستحکم،واضح اورسہل ہیں۔

مفسر کی مثال

فقہاے احناف جس کومفسر کہتے ہیں،فقہائے ثلاثہ کے یہاں اسی کو نص کہا جاتاہے۔یہ محض لفظی فرق ہے۔

امام غزالی شافعی نے نص کے تین مفاہیم بیان کیے،اور تصریح فرمائی کہ متکلمین کے یہاں نص کامفہوم ثانی مراد ہے، یعنی جس میں جانب مخالف کانہ احتمال قریب ہو،نہ احتمال بعید ہو۔چند مثالیں بھی رقم فرمائیں۔

قال الغزالی فی بیان معانی النص:}(الثانی)وہوالاشہرمَا لَا یَتَطَرَّقُ اِلَیہِ اِحتِمَالٌ اَصلًا-لَا عَلٰی قُربٍ وَلَا عَلٰی بُعدٍ کَالخَمسَۃِ مَثَلًا فَاِنَّہ نَصٌّ فِی مَعنَاہُ-لاَیَحتَمِلُ السِّتَّۃَ وَلَا الاَربَعَۃَ وَسَاءِرَالاَعدَادِ-وَلَفظُ الفَرسِ لَا یَحتَمِلُ الحِمَارَ وَالبَعِیرَ وَغَیرِہٖ-فَکُلُّ مَا کَانَت دَلَالَتُہٗ عَلٰی مَعنَاہُ فی ہذہ الدرجۃ سُمِّیَ بالاضافۃ الٰی معناہ نَصًّا فی طرفی الاثبات والنفی-اَعنِی فی اِثبَاتِ المُسَمّٰی وَنَفِیِّ مَا لَا یَنطَلِقُ عَلَیہِ الاِسمُ-فَعَلٰی ہٰذَا حَدُّہ-اللفظ الذی یفہم منہ علی القطع معنًی-فہو بِالاِضَافَۃِ اِلٰی مَعنَاہُ المَقطُوعِ بِہ نَصٌّ{(المستصفٰی جلد اول ص386)۔

توضیح :اعداد اپنے مفہوم میں مفسر ہوتے ہیں،مثلاً کہا جائے کہ میرے پانچ بیٹے ہیں تو یہاں چار یا چھ مراد نہیں ہوسکتا۔پانچ کا لفظ پانچ کی تعدادکو بتانے کے واسطے متعین ہے۔اسی طرح کہا کہ پانچ بیٹے ہیں تو بیٹا کا لفظ مذکر اولاد کوبتانے کے لیے متعین ہیں۔یہاں ”بیٹے“سے مذکر ومؤنث دونوں قسم کی اولاد مرادنہیں ہوسکتی۔

اس مضمون میں دلالت کے اعتبارسے قطعیت پر بحث کی گئی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ دیگر متعلقہ امور پر مضمون مابعد میں بحث ہوگی۔ تاویل کی تینوں اقسام کی مختصر و ضاحت اور صدقہ فطر سے متعلق بحث ہوگی۔

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغامِ شریعت دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا

www.afkareraza.com

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن