ا ز قلم : طارق انور مصباحی کیا کسی متواتر کے تواترمیں اختلاف ہے؟۔
کیا کسی متواتر کے تواترمیں اختلاف ہے؟
وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
ضروری دینی کا ثبوت جس دلیل سے ہوتا ہے،وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص اور قطعی الدلالت بالمعنی الاخص ہوتی ہے۔ مفسر الفاظ وکلام قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہوتے ہیں اور متواتر لفظی قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہوتا ہے۔مفسرونص کے مفسرونص ہونے میں اختلاف نہیں،لیکن حدیث متواتر کے تواتر میں اختلاف ہے۔
قرآن مجید کے تمام الفاظ وحروف متواتر لفظی(قطعی الثبوت بالمعنی الاخص) ہیں۔اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
احادیث متواتر ہ کے لفظی متواتر ہونے میں اختلاف ہے،کیوں احادیث طیبہ کی روایت بالمعنی بھی ہوئی ہے۔
قرآن مقدس عہد نبوی میں ہی چمڑوں وغیرہ میں مرقوم اور کثیر صحابہ کرام کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکا تھا اوراس کی تکرار وتعلیم کا سلسلہ بھی عہد نبوی سے جاری رہا۔
احادیث نبویہ کی کتابت وتدوین کا سلسلہ پہلی صدی ہجری کے اخیر میں حضرت عمر بن عبد العزیز (61ھ-101ھ)کے حکم سے شروع ہوا۔
ضروریات دین کا ثبوت قرآن مجید کی مفسرآیت طیبہ،مفسرحدیث متواتر،اجماع متصل اور عقل صحیح سے ہوتا ہے۔ حدیث متواتر کے وجود ہی میں اختلاف ہے،اس لیے کسی حدیث متواتر سے کسی ضروری دینی کا ثبوت نہ ہوسکا۔
قرآن مجید بھی متواتر ہے،لیکن کسی آیت قرآنیہ کے تواتر میں کوئی اختلاف نہیں۔
احادیث مبارکہ کی روایت بالمعنی بھی ہوئی ہے،اس لیے اس میں اختلاف ہوگیا کہ متواتر لفظی حدیثوں کا وجودہے یا نہیں؟ایسی صورت میں کسی حدیث متواتر سے کسی ضروری دینی کا ثبوت محل نظر ہوجاتا ہے۔
تمام ضروریات دین قرآن مجید کی مفسر آیات مقدسہ،اجماع متصل اور عقل صحیح سے ثابت ہیں۔
ہمارے علم میں صرف صدقہ فطر کا مسئلہ ہے جوحدیث سے ثابت ہے اوراس کو بعض فقہائے شوافع ضروریات دین میں شمارکرتے ہیں،لیکن جس حدیث سے اس کا ثبوت ہے،وہ متواتر نہیں،پس صدقہ فطر کا ضروری دینی ہونا مختلف فیہ ہوگیا۔
اس کے علاوہ کوئی مثال ایسی نہیں جو ضروری دینی ہو، اور اس کا ثبوت حدیث متواتر سے ہوا ہو۔ارشادات نبویہ سے جو ضروریات دین ثابت ہوئیں،وہ اجماع متصل کے ذریعہ امت مابعد تک پہنچیں۔
جن اقوال نبویہ سے ان ضروریات دینیہ کا ثبوت عہد نبوی میں ہواتھا،وہ اقوال نبویہ خبرواحد کے طورپر مروی ہیں،جیسے تعداد رکعات اور تعداد نماز وغیرہ کی احادیث طیبہ خبرواحدہیں اوریہ امور حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتراً منقول ہیں،پس یہ امور ضروریات دین میں شامل ہیں اور جن احادیث نبویہ میں ان ضروریات دین کا ذکر ہے،وہ خبر واحد ہیں۔
خبر واحدسے ضروری دینی کاثبوت نہیں ہوتا اوران ضروریات کا ثبوت ہم ان اخبار آحاد سے نہیں مانتے،بلکہ اجماع متصل سے ان ضروریات دین کا ثبوت مانتے ہیں۔
اطلاع : صدقہ فطر کی بحث ”البرکات النبویہ“جلد یازدہم(ص 83تا86)سے منقولہ ذیل ہے۔
البرکات میں عربی عبارتوں کے تراجم مرقوم نہیں۔چوں کہ یہ علم کلام کے مشکل مباحث ہیں،جن سے اہل علم کا تعلق ہوتا ہے اور علماے کرام کے واسطے عربی اور اردو یکساں ہیں۔ قلت فرصت کے سبب یہاں بھی تراجم مر قو م نہیں۔
صدقہ فطر کی فرضیت کے ضروری دینی ہونے میں اختلاف
قال الہیتمی فی بیان ضروریات الدین:}ووجوب الزکاۃ فی الانعام والزرع والنقود-دون التجارۃ-وکذا الفطرۃ،ان راعینا خلاف ابن اللبان-ثم رأیت ابن سمح (ابن سمنج)قال:لا یکفر جاحدہا{(الفتاوی الحدیثیہ ص142-دارالفکربیروت)۔
توضیح : مال تجارت کی زکات ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔ اسی طرح صدقہ فطر بھی مختلف فیہ ہے۔ بہت سے علمانے صدقہ فطر کوبھی ضروریات دین میں شمار فرمایا ہے،لیکن اس پر اتفاق نہیں۔شافعی فقیہ ابن لبان:عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمن بکری وائلی اصبہانی (م446ھ)نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے۔
فقہاے شوافع نے اس اختلاف کو غلط بتایا ہے،لیکن بعض فقہاے شوافع نے صدقہ فطر کے انکار کو کفر بھی نہیں بتایا،اسی لیے علامہ ہیتمی نے فرمایا کہ اگر ہم ابن لبان کی مخالفت کا لحاظ کریں تو صدقہ فطر کا وجوب بھی ضروریات دین میں سے نہ ہو۔
واضح رہے کہ وجوب وفرضیت شوافع کے یہاں ایک ہی ہے۔احناف کے یہاں صدقہ فطر فرض نہیں، بلکہ واجب ہے۔
جواحناف کے یہاں واجب ہے، ان میں سے اکثرامور کوفقہائے شوافع سنت مؤکدہ کا درجہ دیتے ہیں، جیسے نماز عید ین۔
فتاویٰ حدیثیہ کے ایک نسخہ میں ابن سمح اور ایک نسخہ میں ابن سمح ہے۔ ایک قاضی ابن کج:ابوالقاسم یوسف بن احمد بن کج دینوری (م۵۰۴ھ)ہیں۔
شافعی فقہ کی کتابوں میں مسئلہ صدقہ فطرمیں ابن لبان کے اختلاف کے مقام پر قاضی ابن کج کا ذکر آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ صدقہ فطر کا منکر کافر نہیں ہوگا۔
ایک عبد السلام بن سمح بھی ہیں۔
ایک شیخ شمس الدین محمد بن شیخ ابو الحسن بن عبد الکریم بن طارق بن سمح بعلبکی (665ھ-748ھ)ہیں۔
چوں کہ علامہ ہیتمی نے بھی مسئلہ صدقہ فطر میں ابن لبان کے اختلاف کی جگہ قاضی ابن کج شافعی کا ذکر فرمایا ہے تواس سے واضح ہوتا ہے کہ فتاویٰ حدیثیہ کے نسخے میں ابن سمح اور ابن سمنج کا لفظ کتابت کی غلطی ہے:واللہ تعالیٰ اعلم
قال الہیتمی:(قولہ:بل ہومعلوم-الخ)عبارۃ المغنی:وہی احد ارکان الاسلام فیکفر جاحدہا-وان اتی بہا-ویُقَاتَلُ المُمتَنِعُ من اداۂا-وتوخذ منہ قہرا کما فعل الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ-والکلام فی الزکاۃ المجمع علیہا -اما المختلف فیہا کزکاۃ التجارۃ والرکاز وزکاۃ الثمار والزروع فی الارض الخراجیۃ والزکاۃ فی غیر مال المکلف فلا یکفر جاحدہا لاختلاف العلماء رضی اللہ تعالی عنہم فی وجوبہا-اھ
وفی النہایۃ والعباب نحوہا-(قولہ:فمن انکر اصلہا)ای انکر وجوب الزکاۃ من حیث ہی من غیر تعلق بشیء من الاموال،ع ش(کفر)ای:ومن جہلہا عُرِّفَ فان جحدہا بعد ذلک کفر-نہایۃ(قولہ:وکذا بعض جزئیاتہا الضروریۃ)ای:دون المختلف فیہ کوجوبہا فی مال الصبی ومال التجارۃ-نہایۃ،زاد العباب:وفطرۃ-اھ
قال شیخنا:ولیس زکاۃ الفطر منہ-لان خلاف ابن اللبان فیہا ضعیف جدا فلا عبرۃ بہ{
(تحفۃ المحتاج:کتاب الزکات ج11 ص453-مکتبہ شاملہ)
توضیح :مال تجارت کی زکات ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔ اسی طرح صدقہ فطر بھی مختلف فیہ ہے۔
قال الہیتمی:}نقل ابن المنذر الاجماع علی وجوبہا-ومخالفۃ ابن اللبان فیہ غلط صریح کما فی الروضۃ-قال وکیع:زکاۃ الفطر لشہر رمضان کسجدۃ السہو للصلاۃ-تجبر نقص الصوم کما یجبر السجود نقص الصلاۃ-ویؤیدہ الخبر الصحیح(انہا طہرۃ للصائم من اللغو والرفث)والخبر الحسن الغریب(شہر رمضان معلق بین السماء والارض-لا یرفع الا بزکاۃ الفطر)((تحفۃ المحتاج:باب زکاۃ الفطر ج12 ص374-مکتبہ شاملہ)
قال الہیتمی:(قولہ:غلط صریح-الخ)لکن صریح کلام ابن عبد البر ان فیہ خلافا لغیر ابن اللبان-و یجاب عنہ بانہ شاذ منکر-فلا ینخرق بہ الاجماع-او یراد بہ بالاجماع فی عبارۃ غیر واحد ما علیہ الاکثرون- ویؤیدہ قول ابن کج:لا یکفر جاحدہا-نہایۃ)۔
(تحفۃ المحتاج:باب زکاۃ الفطر ج12 ص381-مکتبہ شاملہ)
قال النووی:باب زکاۃ الفطر:ہی واجبۃ-وقال ابن اللبان من اصحابنا:غیر واجبۃ-قلت:قول ابن اللبان شاذ منکر،بل غلط صریح-واللّٰہ اعلم
(روضۃ الطالبین:باب زکاۃ الفطر ج2 ص152-دارالکتب العلمیہ بیروت)
قال النووی الشافعی:زکاۃ الفطر واجبۃ عندنا وعند جماہیر العلماء-وحکی صاحب البیان وغیرہ عن ابن اللبان من اصحابنا انہا سنۃ-ولیست واجبۃ-قالوا:وہو قول الاصم وابن علیہ-وقال ابوحنیفۃ:ہی واجبۃ و لیست بفریضۃ بناء علی اصلہ-ان الواجب ما ثبت بدلیل مظنون والفرض ما ثبت بدلیل مقطوع-ومذہبنا انہ لا فرق-وتسمی واجبۃ وفرضا-ودلیلنا حدیث ابن عمر مع احادیث کثیرۃ فی الصحیح مثلہ)۔
(المجموع شرح المہذب:ج6ص104-دارالفکربیروت)
توضیح:جب حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صدقہ فطرکی فرضیت کوتسلیم نہیں فرماتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ صدقہ فطر سے متعلق حدیث نبوی متواتر نہیں۔اگر وہ حدیث متواتر ہوتی تو اس سے ثابت ہونے والا حکم فرض ہوتا۔
اگر وہ حدیث متواتر لفظی(قطعی الثبوت بالمعنی الاخص) ہوتی تو اس سے ثابت ہونے والا فرض،فرض قطعی اور ضروریات دین میں سے ہوتا اور اگر وہ حدیث متواتر معنوی ہوتی تواس سے ثابت ہونے والا فرض،فرض اعتقادی، تمام ائمہ مجتہدین کے یہاں متفق علیہ اور ضروریات اہل سنت میں سے ہوتا،لیکن صدقہ فطر کی فرضیت ضروریات اہل سنت میں سے بھی نہیں،بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں صدقہ فطر واجب ہے،فرض نہیں۔
فقہ حنفی میں واجب وہ ہے جودلیل ظنی سے ثابت ہو۔اسے واجب اعتقادی کہا جاتا ہے۔واجب اعتقادی کی دوقسمیں ہیں:فرض عملی اور فرض اعتقادی۔فتاویٰ رضویہ جلداول (فتوی اول)میں ان امورکی تفصیل مرقوم ہے۔
قال النووی:قال البیہقی:وقد اجمع العلماء علی وجوب صدقۃ الفطر وکذا نقل الاجماع فیہا ابن المنذر فی الاشراف-وہذا یدل علی ضعف الروایۃ عن ابن علیۃ والاصم- وان کان الاصم لا یعتد بہ فی الاجماع کما سبق فی کتاب الطہارۃ-واللّٰہ اعلم
قال صاحب الحاوی فی وقت شرع وجوب الفطرۃ علٰی وجہین-احدہما:وہو قول اصحابنا البغدادیین -انہا وجبت بما وجبت بہ زکاۃ الاموال-وہو الظواہر التی فی کتاب السنۃ لعمومہا فی الزکاتین-والثانی:قالہ اصحابنا البصریون-انہا وجبت بغیر ما وجبت بہ زکاۃ الاموال-وان وجوبہا سابق لوجوب زکاۃ الاموال لحدیث قیس بن سعد المذکور-واختلف ہؤلاء-ہل وجبت بالکتاب ام بالسنۃ-فقیل بالسنۃ لحدیث قیس و حدیث ابن عمر وغیرہما-وقیل:بالقرآن وانما السنۃ مبینۃ:واللّٰہ اعلم
(المجموع شرح المہذب:ج6ص104-دارالفکربیروت)
سوال: اگر صدقہ فطرکی فرضیت ضروریات دین میں سے ہے،جیسا کہ فقہائے شوافع نے فرمایا تواس کی فرضیت کے انکار کے سبب فقیہ ابن لبان شافعی اور دیگر منکرین پر حکم کفر عائد ہونا چاہئے؟علامہ ابن عبد البرمالکی نے بھی دیگر منکرین فرضیت کا پتہ دیا ہے۔
جواب:ضروری دینی کے انکار پر حکم کفر اس وقت عائد ہوتاہے،جب وہ ضروری دینی منکر کے یہاں متواتر ہوجائے۔اگر صدقہ فطرکی فرضیت فقیہ ابن لبان شافعی اور دیگر علما کے یہاں تواتر سے ثابت ہوجاتی تو پھر انکار کی ضرورت ہی نہیں تھی،نیز اجماع سے یہاں وہ اجماع بھی مراد ہوسکتا ہے کہ جہاں اکثرفقہا کسی امر پر اتفاق کرلیں تو اس کواجماع کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدقہ فطر ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔ خبر واحد کے طورپراس کی روایت آئی ہے۔
قال البجیرمی الشافعی:}قال سعید بن المسیب وعمر بن عبد العزیز:ہی زکاۃ الفطر-والسنۃ بینت الکتاب-ووجوبہا مجمع علیہ-ولا نظر لمخالفۃ ابن اللبان حیث قال بعدم وجوبہا-ومع ذلک لو جحدہا انسان فلا یکفر-لانہا وان کانت مجمعا علیہا-لکنہا مما یخفی-فلا یکفر جاحدہا لخفاۂا{
(حاشیۃ البجیرمی علی الخطیب:فصل فی زکاۃ الفطر ج6ص332-مکتبہ شاملہ)
توضیح:مذکورہ بالا عبارت میں بتایا گیا کہ جب ضروری دینی کسی سے مخفی رہ جائے تواس پوشیدگی کے سبب منکرپرحکم کفر نہیں ہوگا۔
علامہ ہیتمی نے رقم فرمایا کہ صدقہ فطرکے وجوب کی روایت خبرواحد کے طورپرحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہے،اس لیے یہ صرف اس کے حق میں ضروری دینی ہوگا،جس نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس کے وجوب کوسنا۔دوسروں کے حق میں یہ ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا،اورنہ ہی اس کے انکار پر غیرحاضر پر حکم کفر عائد ہوگا،کیوں کہ وہ اس کے حق میں ظنی ہے،قطعی نہیں۔
قال الہیتمی:}ثم الشاہد لِلحَضرَۃِ النَّبَوِیَّۃِ وَغَیرُہ قد یتفقان فی الکفر بالانکار وقد یختلفان-فَیَتِّفَقَان فِی الکُفرِ بِاِنکَارِالضَّروری کَالاِیمَانِ بِرِسَالَۃِ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما جاء بہ-مِن وُجُودِ ذات المقدس اللّٰہ سبحانہ-وَاِنفِرَادِہ تَعَالٰی باستحقاق العبودیۃ عَلَی العٰلمین-فَلَا شَرِیکَ لَہ لِتَفَرُّدِہ بالالوہیۃ المستلزم لِقِدَمِہ- وانفرادہ بالخلق المستلزم لِکَونِہ تَعَالٰی حَیًّا عَلیمًا قادرًا مریدًا-وَمِن اَنَّ القُراٰنَ کَلَامُ اللّٰہ تَعَالٰی۔
وَمَا یَتَضَمَّنُہُ القُرآنُ مِنَ الاِیمَانِ باَنَّہ تَعَالٰی مُتَکَلِّمٌ سَمِیعٌ- مُرسِلٌ لِرُسُلٍ قَصَّہُم عَلَینَا وَرُسُلٌ لَم یَقصُصہُم عَلَینَا-وَمُنَزِّلٌ لِلکُتُبِ-وَلَہ عِبَادٌ مُکرَمُونَ وَہُمُ المَلاَءِکَۃُ-وَمِن اَنَّہ فَرَضَ الصَّلٰوۃَ وَالزَّکَاۃَ وَالصَّومَ وَالحَجَّ -وَمِن اَنَّہ یُحیِ المَوتٰی-وَاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لاَرَیبَ فِیہَا-وَمِن اَنَّہ حَرَّمَ الزِّنَا وَالخُمُورَ وَالقمار-فانکار شَیءٍ مِن ہٰذَا کُفرٌ فِی حَقِّ الفَرِیقَینِ۔
وَیَختَلِفَانِ فِیمَا نُقِل اٰحَادًا-کسوال المَلَکَینِ ووجوب زکاۃ الفطر-فَلَا یَکفُرُ بِاِنکَارِہ اِلَّا الشَّاہِد فقط ما لم یدَّع نحو نَسخٍ-لِاَنَّہ عَلِمَ بِالضَّرُورَۃِ مجیءَ النَّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہ لِسماعہ منہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وقیل انکار سوالہما کُفرٌ ولوفی حق الغائب لِتَوَاتُرِہ مَعنًی-وَمَحَلُّہ اِن اَنکَرَہ بَعدَ تَوَاتُرِہ عِندَہ بخلاف قَبلِہ-لِاَنَّہ لَاتَکذِیبَ فِیہِ حِینَءِذٍ لِلنَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وَاِنَّمَا فِیہِ تَکذِیب او تغلیط لِلرُّوَاۃِ-اَونحوہما-ومن ثم لَو عُلِمَ مِنہُ اَنَّہ رَدَّہ اِستِخفَافًا لِاَجَلِ التصریح بہ فی السنۃ دون القرآن،کَفَرَ-وَلَا یَکفُرُ بانکار قطعی غیرضروری کَاِستِحقَاقِ بِنتِ الابن السدس مع بنت الصلب۔
وظاہر کلام الحنفیۃ کُفرُہ-ویجب حملہ اَی بِنَاءً عَلٰی قَوَاعِدِہِم عَلٰی مُنکِرٍ عَلِمَ اَنَّہ قَطعِیٌّ-وَاِلَّا فَلَا یَکفُرُ -الا اذا ذَکَرَلہ اَہلُ العلم اَنَّہ من الدین وانہ قَطعِیٌّ-فَتَمَادّٰی فِیمَا ہُوَ عَلَیہِ عِنَادًا-فَیَکفُرُ لِظُہُورِ التَّکذِیبِ مِنہُ حِینَءِذٍ-کَمَا دَلَّ عَلَیہِ کَلَامُ امام الحرمین{
(الفتاوی الحدیثیہ ص141-دارالفکربیروت)
توضیح : مذکورہ بالا عبارت میں صراحت ہے کہ صدقہ فطر خبر واحد سے ثابت ہے۔جب وہ خبر واحد سے ثابت ہے تو اس کے ضروری دینی ہونے کی کوئی صورت نہیں:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
از قلم: طارق انور مصباحی
مدیر : ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی دیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع