کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط ہفتم تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے قسط ہفتم
مشہور شیعہ مفسر ابو علی فضل بن حسن طبرسی اِس آیتِ کریمہ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
اَلنُّزُوْلُ:قِیْلَ نَزَلَتْ ھٰذِہٖ الْآیَۃُ فِیْمَنْ صَلّٰی اِلٰی الْقِبْلَتَیْنِ ،عَن سَعِیْبِ بْنِ مُسَیَّبٍ وَالْحَسَنِ وَابْنِ سِیْرِیْنَ وَ قَتَادَۃَ۔ وَ قِیْلَ:نَزَلَتْ فِیْمَنْ بَایَعَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ ،وَھِیَ بَیْعَۃُ الْحُدَیْبِیَۃِ ،عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ:مَنْ أسْلَمَ بَعْدَ ذٰلِکَ وَ ھَاجَرَ فَلَیْسَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ ۔وَ قِیْلَ:ھُمْ اَہْلُ بَدْرٍ ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ اَبِیْ رَبَاحٍ ۔ وَقِیْلَ:ھُمُ الَّذِیْنَ أسْلَمُوْا قَبْلَ الْھِجْرَۃِ ، عَنِ الْجُبَّائِیْ ۔[مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج۵:، ص۸۶:]۔
ترجمہ:شانِ نزول کے بارے میں کئی اقوال ہیں
۔[۱]کہا گیا ہے کہ یہ آیت اُن صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے قبلتین یعنی خانۂ کعبہ اور بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل کی ۔یہ قول حضرتِ سعید بن مسیب ، حضرتِ حسن ، حضرتِ ابن سیرین اور حضرتِ قتادہ کا ہے ۔
۔[۲] دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت اہلِ بیعتِ رضوان کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔یہ قول حضرتِ امامِ شعبی سے منقول ہے ، اُنھوں نے کہا ہے کہ جو حضرات بیعتِ رضوان کے بعد مسلمان ہوئے اور ہجرت کی وہ مہاجرینِ اولین میں سے نہیں ہیں ۔
۔[۳]تیسرا قول یہ ہے کہ آیتِ کریمہ کے مصداق اہلِ بدر ہیں ،یہ حضرتِ عطا بن ابو رباح سے مروی ہے۔
۔[۴]اورچوتھا قول یہ ہے کہ سابقینِ اولین سے مراد وہ حضرات ہیں جو ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے ۔یہ قول جبائی سے منقول ہے
ہمارا تبصرہ
پہلے قول کے اعتبار سے ثابت ہوا کہ اہلِ قبلتین’’نیک ، مخلص ، عادل اور دائمی جنتی ہیں ، اُن سے خدا خوش اور وہ خدا سے راضی ہیں ‘‘۔حضرت سیدنا صدیقِ اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ، اہلِ قبلتین سے ہیں ؛ لہذا اِس نصِّ قطعی سے اِن حضرات کا مخلص اور جنتی ہونا ثابت ہوا اور چوں کہ دیگر صحابۂ کرام علیٰ نبیہم و علیہم الصلوٰۃ والسلام احسان و خیر کے ساتھ ، اعمالِ صالحہ میں اِن کی پیروی کرنے والے ہیں
لہذا بشمول حضرت معاویہ ،حضرت ابو سفیان تمام صحابہ کا عادل و مخلص، عظیم و برگزیدہ اور نیک و صالح ہونا ثابت ہوا ۔اب یہ کہنا کہ ’’حضور ﷺ کے وصال کے بعد تین یا سات صحابہ کے علاوہ سب مرتد ہو گئے تھے ، اُن سے خدا ناراض ہے اور وہ دائمی طور پر دوزخ میں رہیں گے ‘‘کس قدر بد بختی اور شقاوتِ قلبی ہے ۔جاہلوں اور احمقوں کو ہمارے علما کانہیں تو کم از کم اپنے علما کے تفسیری اقوال کا خیال کرنا چاہیے ۔
دوسرا قول اِس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ’’اہلِ بیعتِ رضوان سے خدا راضی اور وہ دائمی جنتی ہیں‘‘ ۔ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروقِ اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بلا شک و ریب اہلِ بیتِ رضوان میں شامل ہیں ، علماے شیعہ بھی اِس کا انکار نہیں کر سکتے
لہذا ثابت ہوا کہ خلفاے ثلثہ سمیت تمام اہلِ بیعتِ رضوان سے خداے تعالیٰ راضی اور وہ اُس سے خوش ہیں ، اِن کے لیے ایسے دائمی باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور چوں کہ تمام صحابہ اِن کے پیرو کار ہیں ؛ لہذا یہ حکم متعدی ہو کر حضور ﷺ کے تمام صحابہ کو شامل ہوگا ۔
اِسی لیے ہم اہلِ سنت و جماعت پورے اذعان و اعتقاد کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولا حضور رحمتِ عالَم ﷺ کے تمام صحابہ عادل ، مخلص ، نیک ، دین کے بے لوث خادم اور جنتی ہیں ۔اُن پر فسق و نفاق اور کفر و ارتداد کا حکم لگانا در اصل اِس آیتِ کریمہ کا انکار ہے ۔
تیسرا قول اِس بات کی شہادت فراہم کر رہا ہے کہ ’’تمام شرکاے بدر ‘‘سے اللہ عز وجل راضی ہے اور اُن کے لیے جنت کی دائمی نعمتیں ہیں ۔حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروقِ اعظم اور حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا بدری صحابی ہونا آفتابِ نصف النہار سے بھی زیادہ روشن ہے ،کوئی مخبوط الحواس اور علم و دانش سے کورا شخص ہی اِس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے
لہذا خلفاے ثلثہ سمیت تمام بدری صحابہ اِس بشارت کے حق دار ٹھہرے اور چوں کہ دیگر صحابۂ کرام اصحابِ بدر کے نقشِ قدم پر چل کر، افعالِ خیر میں اُن کی اتباع کرکے’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ میں داخل ہیں ؛ لہذا اِس آیتِ کریمہ کی رو سے سبھی صحابۂ کرام، اللہ تعالیٰ کے مقرَّب بندے اور جنت کی دائمی نعمتوں کے حق دار ثابت ہوئے ۔
چوتھا قول اختیار کرنے کی صورت میں بھی حضراتِ شیخینِ کریمین اور حضرت ذو النورین عثمانِ غنی سمیت تمام صحابہ کا جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے ؛ کیوں کہ خلفاے ثلثہ کا ہجرت سے قبل مسلمان ہونا اخبارِ متواترہ سے ثابت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ ،ہجرت سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے والے صحابہ کے پیروکار ہیں؛ لہذا فرقِ مراتب کے باوجود دونوں کا حکم یکساں ہیں ۔دونوں کے لیے ’’وکلا وعد اللہ الحسنیٰ‘‘کا مژدہ ہے ۔
اِس شیعی تفسیر کو کسی بھی زاویے سے دیکھیے !اور چاروں قولوں میں سے کوئی بھی قول لیجیے! تمام صحابہ کانیک،صالح،عادل،مخلص،بر
گزیدہ،،دین کا بے لوث خادم،سچا عاشقِ رسول اور جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
لگتا ہے کہ جاہل رافضیوں کو اپنے گھر کی بھی خبر نہیں،جَہل و تعصب نے اُن کی مَت مار دی ہے کہ ضلالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بھٹکتے ہوئے آج تک یہی راگ اَلاپ رہے ہیں کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد چند صحابہ کے علاوہ سب مرتد ہو گئے تھے ۔معاذ اللہ ۔
اِس طرح کے غالی رافضیوں کے پاس سواے سچی توبہ کے کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔نہ یہ،اِس آیتِ کریمہ کا انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے محقق شیخ طبرسی کی تفسیر کا رد کر سکتے ہیں ؛ کیوں کہ اوَّلاً ’’مجمع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ اہلِ تشیع کے یہاں علمِ تفسیر کی بڑی معتبر اور بے نظیرکتاب ہے، شیعہ دانش مندوں نے کھُل کر اِس کی تعریف کے پل باندھے ہیں اور اُنھوں نے اِسے علمِ تفسیر کے قدیم ترین منابع میں سے شمار کیا ہے
ثانیاً اُن کے دیگر فضلا و مفسرین نے بھی اِسی قسم کی گفتگو کی ہے ، یہ نادان کس کس کا انکار کریں گے اور کس کس سے منہ موڑیں گے۔
جاری
تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ ۔
پرسنپل : دارالعلوم محبوب سبحانی کرلا ممبیٔ
پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے : گذشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے ملاحضہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع