Saturday, November 23, 2024
Homeعظمت مصطفیٰرب کا حسین تحفہ ہے میلاد مصطفےٰ ﷺ

رب کا حسین تحفہ ہے میلاد مصطفےٰ ﷺ

تحریر: محمد صدر عالم مصباحی رب کا حسین تحفہ ہے میلاد مصطفےٰ ﷺ

رب کا حسین تحفہ ہے میلاد مصطفےٰ ﷺ

آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انسانی دنیاظلم وضلالت کے بھیانک بوجھ تلے دبی ہوئی تھی،کفروشرک،ظلم وستم،گھٹیارسم و رواج ،غیر اخلاقی سماجی بندھن اورگمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے  ہر طرف چھائے ہوئے تھے

شیطانی طاقتوں نے لوگوں کاجینادوبھرکردیاتھا،مجبوروبے بس انسانوں کوظالموں نے اپنے ظالمانہ پنجوں میں جکڑ رکھا تھا،دولت و مال حاصل کرنے کی لالچ نے اچھے برے کا فرق مٹاکر انسانیت کو غلامی کی زنجیریں پہنادی تھی

عورت کو ہوس کی تسکین کا صرف ایک سامان تصور کیاجاتا تھا،خانۂ کعبہ میں خدائے وحدہٗ لاشریک جل جلالہٗ کی عبادت کے بجائے تین سوساٹھ بتوں کی پوجاہو رہی تھی،لڑکیوں کوزندہ درگورکردیاجاتا تھا،اہل عرب و قریش سخت قحط سالی میں مبتلاتھے

غربت وخشک سالی نے مکہ والوں کابراحال بنادیاتھا،جانوروں کاتھن سوکھ چکا تھا،غرض کہ ہرطرف خوف و ہراس اورفکر و غم چھایا ہوا تھا، زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوگیا تھا،ہرطرح کی برائیوں اور مشکلات سے اہل عرب دو چار تھے۔

ایسے ہولناک وَدردناک حالات میں حضورنبی اکرم،نورمجسم،رحمت عالم،شافع امم،مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارہ ربیع الاول شریف مطابق۲۰؍اپریل ۵۷۱ ء  پیر کے دن صبح صادق کے وقت ولادت باسعادت ہوئی

آپ کی ولادت ہوتے ہی آپ کے نورکی چمک سے پوری دنیاروشن و منور ہوگئی، تمام شیاطین زنجیروں میں جکڑدیے گیے،دنیاکے سارے بت سجدے میں گرپڑے،قیصر وکسریٰ میں زلزلہ برپاہوگیا اورآپ کی آمد کی برکت سے ظلم وقحط سالی ختم ہوگئی

ویران زمینوں پربہارآ گئی،ہرطرف سبزہ لہلہانے لگا،اناج سے کھیت وکھلیان بھرگئے ،ہرطرف ہریالی چھاگئی۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:جب حضورنبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی توپوری زمین روشن ومنور ہو گئی،ابلیس نے انہیں بتایاکہ ایک اسیابچہ پیدا ہوا ہے جو شیطانی کا روبار کو تباہ وبرباد کردے گا شیاطین نے مشورہ دیا کہ تم ابھی آنے والے خطرات کے دروازے بند کردو

ابلیس نے کہا کہ میں ابھی جاتا ہوں،جب وہ شرارت کی نیت سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھاتوحضرت جبرئیل امین نے اسے ایک زور دار ٹھوکر لگائی وہ عدن میں جا کر گرا۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص۵۱)۔

اور ابونعیم نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطن آمنہ میں جلو گرہونے کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اس رات قریش کے تمام جانوروں کو قوت گویائی مل گئی اور وہ کہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اقدس میں جلوہ گر ہوگئے وہ دنیا کے لیے امان اورکائنات کے لیے سراج منیرہیں اوردنیاداربادشاہوں کے تخت میں کوئی بھی ایسانہ بچاجواوندھانہ ہوگیاہو۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۷)۔

اسی میں آگے ہے:اوربادشاہ گونگے ہوگئے اس دن بات نہ کرسکے اورمشرق کے جانورمغرب کے جانوروں کوبشارت دینے کے لیے دوڑے اسی طرح سمندرکی مخلوق نے بھی ایک دوسرے  کو خوش خبری سنائی ،زمین وآسمان میں ندادی گئی ،خوش ہوجاؤ کہ ابوالقاسم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کاوقت قریب آگیاہے۔(الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۷)۔

اسی میں ہے :میں نے سناکوئی کہہ رہاتھا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کومشرق ومغرب اورانبیاے کرام کی جائے ولادت پرگھماؤ اورجن وانس،پرندوں اوردرندوں سے اورہرقسم کی روحانی مخلوق سے ان کاتعارف کراؤ اورانہیں حضرت آدم علیہ السلام کی صفات،اورحضرت نوح علیہ السلام کی رقت،اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلت اورحضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی زبان اورحضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت اورحضرت یوسف علیہ السلام کاحسن اورحضرت داؤد علیہ السلام کی آوازاورحضرت ایوب علیہ السلام کاصبراورحضرت یحیٰی علیہ السلام کازہداورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سخاوت عطافرماؤ اورانبیاء کرام کے اخلاق سے انہیں معمورکردو۔

ابونعیم نے عمروبن قتیبہ سے روایت کی ہے۔انہوںنے کہا:کہ میرے والد ایک متبحرعالم تھے ان سے میں نے سنا کہ جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں ولادت کا وقت قریب آیا، تواللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیا: تمام آسمانوں اورجنتوں کے دروازے کھول دواوراللہ تعالیٰ نے وہاںفرشتوں حاضرہونے کاحکم دیا،وہ اترے اورایک دوسرے کوبشارت دینے لگے، دنیا کے پہاڑفخرسے بلند ہوگئے، اور سمندروں میں طغیانی آگئی اورایک دوسرے کوبشارت دینے لگے۔اورتمام فرشتے وہاں حاضرہوگئے۔ اورسرکش شیاطین کوزنجیروں میں جکڑدیا گیا۔ اوراس دن سورج کوعظیم نورپہنایا گیا۔

اوراللہ تعالیٰ نے دنیاکے تمام عورتوں کو حکم دیاکہ وہ اس سال لڑکے ہی جنیں۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو پوری دنیا روشن و منور ہوگئی اور فرشتے ایک دوسر کوبشارت دینے لگے۔ (الخصائص الکبریٰ ج:۱،ص:۴۸۔

حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی برکت سے وہ سال جس میں عرب قحط سالی میں مبتلاتھاوہی سال خوش حالی کاسال کہلایا۔چناں چہ امام حلبی نے یہ روایت نقل کی ہے:کہ جس سال نورمحمدی سیدہ آمنہ کوودیعت ہواوہ فتح ونصرت،تروتازگی اورخوش حالی کا سال کہلایا

اہل قریش اس سے پہلے معاشی بدحالی اورسخت قحط سالی میںمبتلاتھے ،آپ کی ولادت مبارکہ کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے چٹیل اوربنجرزمین کوشادابی اورہریالی عطافرمائی اورسوکھے درختوںکی ٹہنیوں کوہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا،اہل قریش اس طرح ہرطرف سے بھلائیاں آنے سے خوش حال ہوگیے۔(السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص ۴۸)۔

اوپربیان کی گئی دلیلوں سے ثابت ہوگیاکہ حضورمصطفی جان رحمت ،شمع بزم ہدایت،رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مسلمانوں کے لی ے اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت ورحمت وفضل ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی ہرنعمت کاچرچاکرنے اوراس پرخوشیاں منانے کاحکم دیاہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وامابنعمۃ ربک فحدث-اوراپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (الضحیٰ آیت۱۱) ۔

ایک اورجگہ ارشادفرماتاہے:قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذالک فلیفرحوا– تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اوراسی کی رحمت اوراسی پرچاہئے کہ خوشی کریں۔(سورۂ یونس،آیت ۵۸)۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمت پرخوشی منانے کاحکم دیااورحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کی رحمت ہیں جیساکہ خوداللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:وماارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین-اورہم نے تمہیں سارے جہان کے لئے رحمت بناکربھیجا(الانبیاء،آیت ۱۰۷)۔

ہرصحیح العقیدہ مسلمان کاایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کاسب سے بڑافضل اوراس کی سب سے بڑی نعمت ورحمت حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ورحمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پربے شمارنعمتوں کانزول فرمایامگرکسی کے نزول پراحسان نہیں جتلایا اگرایسا کیا ہے تو وہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ووِلادت ہے جس پراللہ تعالیٰ نے احسان جتلایاہیے۔

چناں چہ ارشادباری تعالیٰ ہے:لقدمن اللہ علی المؤمنین اذبعث فیہم رسولاًمن انفسہم– بےشک اللہ تعالیٰ کابڑا احسان ہوامسلمانوں پرکہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔

اس آیت کریمہ نے یہ ثابت کردیاکہ حضورسراپانورکی ولادت انسان کے لئے عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ولادت خودخالق کائنات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بہت ہی عظیم ہے جبھی تواس پراحسان جتلایا،اس لیے میلاد النبی کے موقع پرخوشیوں کا اظہارکرنا یقینا جائزومستحسن ہے۔

قرآن وحدیث،آثارصحابہ،بزرگوں کے عمل اورارشادات ائمہ،علما  ومحدثین سے یہ بات بخوبی ثابت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں بڑے جوش وخروش اورنہایت تزک واحتشام کے ساتھ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کیاجاتا ہے ،کہیں جلسے توکہیں جلوس،کہیں چراغاں توکہیں جھنڈیوں سے گلی کوچوں کوسجاکراپنی اپنی خوشی وشادمانی کااظہارکیاجاتا ہے،سوائے مٹھی بھرلوگوں کے جنہیں عظمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کابیان بالکل نہیں بھاتاہے ایسے لوگوں کے سامنے معاذاللہ کوئی اللہ ورسول کی توہین کرے توانہیں خوشی ہوتی ہے ایسے بد نصیب لوگوں سے اللہ تعالیٰ بچائے

دنیا کے ہرمذہب وفرقہ والے اپنے پیشواؤں اورسرداروں کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے،کوئی کرسمس ڈے منارہاہے توکوئی گاندھی جینتی،کوئی امبیڈکرجینتی منارہاہے توکوئی مہاویرجینتی اورکوئی گرونانک جینتی

الغرض سب لوگ اپنے اپنے سرداروں کایوم پیدائیش مناکران کی عظمت کودنیاوالوں کے سامنے ظاہرکرناچاہتے ہیں مگربنام مسلم یہ مٹھی بھرلوگ ایسے گندے اوربد نصیب ہیں کہ انہیں ہروقت یہ فکرلگی رہتی ہے وہ کس طرح سے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکے۔

اورنبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اندرکس طرح کمیاں ڈھونڈ سکیں،اگرکسی نے بھی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف وتوصیف بیان کی توجھٹ سے اس پرشرک وکفرکا فتویٰ لگادیا،اللہ تعالیٰ ایسے گندے لوگوں سے ہمیں بچائے جواپنے نبی کی شان کوگھٹانے میں لگے ہوئے ہیں معاذاللہ رب العٰلمین۔

ْقرآنی آیات کے بعد ذیل میں چنداحادیث کریمہ اورکچھ ائمہ ومحدثین کے اقوال ذکرکررہے ہیں جن سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کابھرپورثبوت مل جائے گا۔

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث پاک کی روشنی میں 

۔(۱)عن ابی قتادۃ ان رسول اللہ ﷺ سئل عن صوم الاثنین فقال فیہ ولدت وفیہ انزل علیّ(مسلم شریف،ج ۱،ص۳۶۸)”حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیرکے دن کاروزہ کے بارے میں پوچھاگیا(کہ آپ اس دن کاروزہ کس لئے رکھتے ہیں)آپ نے فرمایا(میں اس دن کاروزہ اس لیے رکھتاہوں)کہ یہ میرایوم میلادہے اوراسی دن مجھ پرنزول وحی کاآغازہوا”۔

۔(۲)اسی مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ کی روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیرکے دن کاروزہ کے بارے میں پوچھاگیا(کہ آپ اس دن کاروزہ کس لئے رکھتے ہیں)آپ نے فرمایا(میں اس دن کاروزہ اس لئے رکھتاہوں)کہ میں اسی دن پیداہوا،اسی دن مجھے مبعوث کیاگیا،اسی دن مجھ پرقرآن شریف نازل ہوا۔ّ(مسلم شریف،ج ۱،ص۳۶۸)۔

مذکورہ دونوں حدیثوں سے ثابت ہواکہ ہمارے آقاﷺ خود بھی اپنے یوم میلادکادوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ اہتمام فرماتے تھے اوراظہارتشکروسرورکے لئے روزہ رکھتے تھے لہٰذایہ دن دوسرے دنوں کے بہ نسبت زیادہ عبادت کامستحق ہے چوں کہ آ پ ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پرمحفل میلادکااہتمام کرناباعث خیرو برکت ونجات ہے اس لئے دوسری عبادت کے ساتھ ساتھ آپ کے ذکرکی محافل کاانعقادکثرت سے کیاجاتاہے۔اوراس نعمت عظمیٰ کے حصول پراظہارتشکرکیاجاتاہے اورخوشی منائی جاتی ہے۔

لہٰذااس دن کوبطورعیدمنانا،اس کازیادہ اہتمام اوراظہارتشکروسرورقرآن وحدیث سے ثابت ہوا۔انفرادی طورپرمیلادشریف مناناتوعہدرسول کریم ﷺ اورعہد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ثابت ہے جس پرمذکورہ حدیث کے علاوہ اوربھی دلائل ہیں۔ میلادشریف کی تقریبات کوہیٔت اجتماعی میں منانایہ اگرچہ عہدصحابہ ؓکے بعدمیں شروع ہوالیکن پھربھی حضورسرورکائنات ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک اچھی سنت اورکارثواب ہے۔اس تعلق سے حدیث پاک ملاحظہ ہو۔

حضرت جریررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:من سن فی الاسلام سنۃ فلہ حسنۃ اجرھاواجرمن عمل بھامن بعدہ(مسلم شریفـ:بحوالہ مشکوٰۃ،ص۳۳)کہ جس شخص نے اسلام میں کوئی نیا،اچھاطریقہ شروع کیااس کے لئے اس اچھائی کاثواب ہے اورجواس اچھے طریقے پراس کے بعدچلیں گے ان کا ثواب بھی” ۔

حدیث شریف سے پتہ چلتاہے کہ دین میں کوئی ایسانیاطریقہ اپناناجواسلامی اصولو ں کے خلاف نہ ہواگرچہ وہ نیاتوہے ہی ‘وہ نیاکام صرف جائزنہیں ہوگابلکہ سرورکائنات ﷺ کے فرمان گرامی کے مطابق اس پرثواب بھی ہوگا۔لہٰذامحافل میلادشریف کاانعقادکرکے تمام مسلمانو ں کواجتماعی طورپراس کارخیرمیں جمع کیاجاتاہے اورسیدعالم ﷺ کے میلاداورآپ کے فضائل کاذکرکرکے ان مسلمانوں کے دلو ں کوجان بخشی جاتی ہے جوسیدعالم ﷺ کے میلاداورآپ کے اصحاب ؓ کازمانہ نہ پاسکے ،لہٰذ میلادالنبیﷺ کی خوشیاں ہمیں اس مقدس عہدکے قریب کرنے کاایک وسیلہ ہے جسے ہم اپنے زمانہ کے لحاظ سے پانہ سکے۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ میلادالنبی ﷺکی خوشی پربخاری ومسلم شریف کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:بخاری ومسلم میں ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ شریف تشریف لائے توآپ نے یہودیوں کوعاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا،آپ نے ان سے پوچھاکہ ایساکیوں کرتے ہوتوانہوں نے کہاکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کوغرق کردیاتھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کونجا ت دی تھی ہم اللہ تعالیٰ کاشکراداکرنے کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ جس متعین دن میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت عطاکی ہے یاکوئی بلاٹالی ہے تووہ خاص دن جب بھی آئے اس نعمت کاشکراداکرناچاہئے اورشکرنماز،روزہ،صدقہ،تلاوت قرآن کریم اوردوسری عبادتوں سے اداہوتاہے اورحضورنبی رحمت کی ولادت اورآپ کے ظہورسے بڑھ کرکونسی نعمت ہے؟اس لیے جب ولادت کادن آئے تواس میں انواع واقسام کی عبادتوں سے اللہ کاشکراداکرناچاہئے۔(بحوالہ شرح مسلم،ج۳،ص۱۷۶)۔

ٰٰیہی امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ میلادالنبی کے موقع پربیہقی شریف کی ایک حدیث پاک سے خوشی منانے پردلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:مجھ پراورایک دلیل ظاہرہوئی وہ یہ ہے کہ سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اعلان نبوت کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپناعقیقہ کیاحالانکہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ کے داداحضرت عبدالمطلب نے آپ کی ولادت کے ساتویں دن آپ کاعقیقہ کردیاتھااورعقیقہ دوبارنہیں کیاجاتاتومعلوم ہواکہ آپ نے یہ عقیقہ اپنی پیدائش اوراللہ تعالیٰ کاآپ کوسارے جہان کے لئے رحمۃ للعالمین بناکربھیجنے پراللہ تعالیٰ کاشکراداکرنے کے لئے کیاتھالہٰذاہمارے لئے یہ مستحب ہے کہ ہم آپ کی ولادت کے دن میں محفلیں منعقدکریں،کھاناکھلائیں،دیگرتقریبات کاانعقادکریں،عبادت زیادہ سے زیادہ کریںاورآپ کی ولادت پرخوشیوں کااظہارکریں۔(حوالہ سابق)۔

ٓاوپرکی حدیثوں سے یہ بات بالکل صاف ظاہرہوگئی کہ میلادالنبی کے موقع پرخوشیامنانااللہ جل جلالہ ،حضورنبی اکرم ﷺ اورصحابہ کرام کی سنت ہے اس لئے بزرگان دین نے کثیرتعدادمیں اس کے فضائل وبرکات بیان فرمائے ہیں۔ مجمع بحارالانوارمیں ہے:شھرالسروروالبھجۃ مظھرمنبع الانواروالرحمۃ شھرربیع الاول فانہ شھرامرناباظہارالجورفیہ کل عام۔(ج۵،ص۳۰۷،خاتمۃ الکتاب)۔

ربیع الاول خوشی وشادمانی کامہینہ ہے اورسرچشمۂ انوارورحمت ﷺ کازمانۂ ظہورہے،ہمیں حکم ہے کہ ہرسال اس میں خوشی کریں۔علامہ سیداحمدزینی دحلان مکی فرماتے ہیں:حضوراکرم ﷺ کی تعظیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کی ولادت والی رات میں خوشی منائے ،تذکرۂ ولادت کرے اورذکرولادت کے وقت قیام کرے،لوگوں کوکھاناکھلائے اوران کے علاوہ دیگرامورخیربھی انجام دے جن کے کرنے کے لوگ عادی ہیں ،اس لئے کہ یہ سب کام حضوراقدس ﷺ کی تعظیم میں شمارہوتے ہیں۔(الدررالسنیۃ)۔

حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت رب تبارک وتعالیٰ نے جشن کااہتمام فرمایا”
حضوراکرم ﷺ کی پیدائش مبارک کے پورے سال میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کانزول جاری رہااللہ تعالیٰ نے دنیامیں اپنے محبوب کی آمدکے موقع پرمشرق سے لے کرمغرب تک کائنات کی ہرچیزکوروشن ومنورفرمادیا۔ حضرت آمنہ اپنے عظیم الشان لخت جگرکی پیدائش کوبیان کرتی ہوئیں فرماتیں ہیں:فلمافصل منی خرج معہ نوراضاء لہ مابین المشرق الی المغرب۔(الخصائص الکبریٰ،ج۱،ص۴۶)جب سرورکائنات کاظہورہواتوساتھ ہی ایسانورنکلاجس سے مشرق ومغرب سب روشن ہوگئے۔

آپ ہی سے ایک روایت یوں مروی ہے:بے شک مجھ سے ایسانورنکلاجس کی روشنی سے بصریٰ کے محلات میری نظروں کے سامنے روشن اورواضح ہوگئے میں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنوں کوبھی دیکھ لیا۔(البدایہ والنہایہ:ج۲،ص۲۷۵)۔

فضائل وسیرت کی کتابوں میں یہ روایتیں ملتی ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت پراس طرح خوشی کااظہارفرمایاکہ سال بھرکے لئے پوری زمین کو سر سبز و شاداب کردیا اور روئے زمین کے تمام سوکھے درختوں کو پھلوں سے لبریز کردیا

ہرطرف رحمتوں اور برکتوں کی بوچھار فرمادی اور قحط سالی میں مبتلا لوگو ں کے رزق میں اتنی کشادگی فرمادی کہ وہی قحط زدہ سال سرکار مصطفی ﷺ کی آمد کی برکت سے خوشی وفرحت والاسال کہلایا

چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ :جس سال نورے محمدی ﷺ حضرت آمنہ کوودیعت ہواوہ فتح ونصرت،تروتازگی،اورخوشحالی کاسال کہلایا۔قریش اس سے پہلے سخت قحط سالی میں مبتلاتھے۔ولادت کی برکت سے زمین ہری بھری ہوگئی،اوردرختوں کوپھلوں سے لاددیاگیا،قریش اس سال ہرطرف سے خیرکثیرآنے کی وجہ سے خوشحال ہوگئے۔(السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص۷۸)۔

عرب میں جس کے یہاں بچی پیداہوتی اہل عرب اس کو منحوس سمجھتے اور اس کے والدین کوحقارت وذلت کی نگاہ سے دیکھتے نتیجۃ والدین بچی کی پیدائش سے غمگین ہوتے اورلڑکے کی پیدائش پرخوش ہوتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی ولادت کے جشن میں پورے عرب بلکہ پوری دنیاکوشامل کرنے کے لی ے اس سال اتنالطف وکرم فرمایاکہ ہرعورت کے یہاں لڑکاپیداہوا۔

ایک روایت عمرو بن قتیبہ سے ہے کہ :میں نے اپنے والد سے سنا جوبہت بڑے عالم تھے کہ جب حضرت آمنہ کے یہاں ولادت باسعادت کاوقت قریب آیاتواللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تمام آسمانوں اورجنتوں کے دروازے کھول دو ۔

اور اس دن سورج کو عظیم نورپہنایاگیا اوراس سال اللہ تعالیٰ نے دنیا بھرکی عورتوں کے لیے یہ حکم نافذکردیا کہ وہ محمدﷺ کی آمدکی برکت سے لڑکے جنیں۔(انوارمحمدکہ،ص۲۲/السیرۃ الحلبیہ،ج۱،ص۷۸)۔


ابوحسان محمدصدرِعالم قادری مصباحی
امام روشن مسجد،میسورروڈ،بنگلور26
09620747322

اس کوبھی پڑھیں: آو دھوم مچائیں عید میلاد النبی ﷺ آئی

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن