از قلم: محمد قمر انجم فیضی نئی تعلیمی پالیسی مواقع اور اندیشے
نئی تعلیمی پالیسی مواقع اور اندیشے
ملکِ ہندوستان میں نئی تعلیمی پالیسی
(NEP)
کے اعلان کے بعد مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور یونیورسٹی گرانڈ کمیشن کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی قومی تعلیمی پالیسی پر اپنی بات پیش کی۔3 سال کے طویل عرصےکےبعد لائی گئی نئی تعلیمی پالیسی کو لے کر وزیر اعظم نریندرمودی نے مستقبل میں تعلیم اور ریسرچ جیسے معاملات پر گفتگو کی۔
وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر کہا کہ ہر طالب علم کو یہ موقع ملنا چاہیئے کہ وہ اپنے پیشن کو فالو کرے۔وہ اپنی سہولت اور ضرورت کے حساب سے کسی ڈگری یا کورس کو فالو کرسکے اور اگر اس کا دل کرے تو وہ چھوڑ بھی سکے۔ انہوں نےمزید کہا کہ اب کوشش یہ ہے کہ بچوں کو سیکھنے کے لیے ڈیجیٹل طریقہ تعلیم، جیسے آن لائن مطالعہ،اینالسس پروسیس،
(Analysis Proses)
ڈسکوری ڈسکرس،
(Discovery Discers)
لرننگ ریسورسز
(Learning Resources )
پر زور دیا جائے۔
اس سے بچوں میں سیکھنے کی مزید دلچسپی بڑھے گی اور ان کے کلاس میں ان کا رجحان بھی بڑھے گا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ابھی تک جو ہمارا تعلیمی نظام ہے، اس میں آپ کیا سوچ ریےہیں،اس پر مرکوز کی جارہی تھی
جب کہ اسی تعلیمی پالیسی میں”آپ کیا سوچتے ہیں”پر زور دیا جارہا ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آج جس دور میں ہم جی رہےہیں وہاں انفارمیشن اور کانسیپٹ
(Concipet)
کی کوئی کمی نہیں ہے۔وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ اس میں کوئی تنازع نہیں ہے کہ بچوں کے گھر کی زبان اور اسکول میں تعلیم کی زبان ایک ہی ہونے سے بچوں کے سیکھنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے
جس کی وجہ سے جہاں تک ممکن ہو ، پانچویں کلاس تک ،بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے،لہذا ایک ایسے بھیانک ،خطرناک و دہشت زدہ وقت میں جب کہ پورا ملک ایک خطرناک وبائی بیماری ، سےپریشان اور بے حال ہوتاہوا نظر آرہاہے
اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے کئی زندگیاں اجیرن، اور موت کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہیں، ایسے سنگین اور معاشی بحران جیسے پُرخطر ماحول میں مرکزی کابینہ نے آناً فاناًمیں نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی ہے۔ جب کہ سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم، ارباب علم وفن، دانشوران ملت ومفکران قوم، نے پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان کھڑے کیئے تھے اور اس نئی پالیسی کو ایک مخصوص نظریئے کاحامل قرار دیاتھا۔ قومی تعلیمی پالیسی کی تاریخ کیاہے۔
(National Education policy)
واضح رہے کہ آزاد ملک ہندوستان میں یہ تیسری قومی تعلیمی پالیسی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب (1968ء) اور(1986ء) میں
اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں۔ تاہم (1986ء) کی پالیسی پر نظرثانی (1992ء) میں کی گئی تھی،جب کی اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ تھے
قومی تعلیمی پالیسی کے اغراض ومقاصد ۔
قومی تعلیمی تعلیمی پالیسی سے ملک کے تعلیمی نظام کومزید مضبوط وطاقتور بنانا،طلبہ کی بہترین ذہنی نشوونما اور انکی صلاحیت ولیاقت میں مزید نکھار پیدا کرنا، دنیاکے تمام ممالک تعلیمی پالیسی پر زور دیتے ہیں، تعلیمی پالیسیوں کے نتائج اور سماجی ومعاشی ترقی پر انکے اثرات پر توجہ دینے کے لئے عالمی سطح پر دنیا بھر کی حکومتوں کو غور کرنے کے لی ے کہا جاتاہے،
تعلیمی پالیسی مرتب کرنےکے لیے سالوں سال تک محنت ومشقت کی جاتی ہے جس میں کئی اہم باتوں کو مدنظر رکھا جاتاہے تاکہ ایک بہترین دیرپا اثر اور کام یاب پالیسی تیارہوسکے،
اور اس پالیسی سے طلباء کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کا بھی فائدہ ہوسکے، ہر تعلیمی پالیسی کےبنانےکے اغراض ومقاصد یہی ہوتے ہیں کہ تعلیمی نظام ونصاب کو موثر مستحکم اور پائدار بنانا
کوٹھاری کمیشن
(Kothaari commission )
کی تشکیل۔(1968ء)میں ہندوستان کی اُس وقت کی موجودہ حکومت نے(ڈی ایس کوٹھاری) ڈاکٹردولت سنگھ کوٹھاری جوکہ ہندوستان کے بہت بڑے سائنس داں اور علوم وفنون کے ماہر تھے) کی سربراہی میں اسکولی تعلیم نظام کو نئی صورت اور جدید طرز تعلیم سےلیَس کرنے کی غرض سے ایک نئی کمیٹی کا قیام عمل میں لائی تھی، جسے “کوٹھاری کمیشن”کےنام سے موسوم کیاگیاتھا،قومی
تعلیمی پالیسی کیا ہوتی ہے۔
تعلیمی پالیسی ایک جامع لفظ ہے اور وسیع الاطراف معانی کا حامل ہے، بالعموم یہ اس نظام یا سسٹم کے لئے استعمال کیا جاتاہے جو تعلیمی اداروں کی پالیسی، مقاصد اور طریقۂ کار طئے کرتاہے اور اداروں میں ان کی نفاذ کی رہنمائی کرتا ہے ،
جب کہ تعلیمی نظام کی تشکیل وتربیت ونفاذیت حکومتوں کی زمہ داری ہوتی ہے، حکومتیں حالات وضروریات کے لحاظ سے پالیسی کو مرتب کرتی ہیں، مسودہ تیار کرتی ہیں،اور اس کام پر اس کے لئے خطیر رقم صَرف کرتی ہیں، اسی طرح حکومتِ ہند نے بھی اپنے شہریوں کو یہ حق دے رکھاہے کہ وہ اپنی مرضی کی مطابق تعلیمی پالیسی بنائیں اور چلائیں، اس وجہ سے ہمارے ملک ہندوستان میں سرکاری نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ کئی متوازن نظام تعلیم بھی رائج ہیں،یعنی قومی تعلیمی پالیسی کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک قومی تعلیمی مسودہ ہے
جس میں حکومت کا تعلیم کو لے کر مستقبل میں لائحہ عمل کیاہے اس پر مشتمل یہ ڈاکیومینٹ ہیں، اور تعلیمی میدان میں ملک کی سونچ اور نظریہ کیاہےیہ پالیسی طئے کرتی ہے،ماہرین تعلیم کی نظر میں یہ پالیسی ہر 10- سے 15 سال میں ایک بار بنائی جاتی ہے لیکن اس بار بنتے بنتے 34 سال کا طویل عرصہ گزر گیا، اس سے پہلے بھی دو قومی تعلیمی پالیسیوں کا نفاذ کیا جا چکاہے ۔مگر اس بار کی قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کےلئے مرکزی حکومت نے( 2030ء) تک کا فیصلہ لیاہے،
پہلی قومی تعلیمی پالیسی کامسودہ۔
ڈاکٹر دولت سنگھ کوٹھاری اس وقت فروغ تعلیم ووسائل کمیٹی کے صدر تھے ،کوٹھاری کمیٹی نےپہلی تعلیمی پالیسی اسکولی نظام، اور تعلیمی نصاب کو خوب اچھی طرح سے مطالعہ، گہرائی وگیرائی،تجسس وتلاش کرنے کے بعد ایک مسودہ تیارکیا، اور اس مسودہ کو اندراگاندھی کے دورحکموت میں (1966ء)کو پیش کیا،کمیشن نے تعلیم کےاغراض ومقاصد میں سماج میں مطلوبہ تبدیلی، اور زندگی کو اعلی اخلاقی اقدار کے ساتھ بَرتنے کی ضرورت کو سامنے رکھ کر اپنی سفارشات پیش کیں
جس کی وجہ سے تعلیم وتعلم کے حوالے سے قوم کے اندر بیداری آئی، جوکہ تاریخ کے صحفات پر آج بھی موجود ہیں، کوٹھاری کمیشن (1964-1966ء)قومی تعلیمی کمیٹی ہندوستان کا پہلا ایسا کمیشن تھا۔جس نے سماج اور معاشرے میں تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام میں کچھ اہم نکات پیش کئے تھے، وہ اہم نکات کیا تھے؟آیئے اس پر نظر ڈالتے ہیں،
آئین دفعہ (45) کے پیش نظرکمیشن نے (14) سال تک کے بچوں کے لئے مفت تعلیم ،ہندی انگیریزی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں کےفروغ، مساوی تعلیم کے ذریعےسےطلباء کو، حساب وکتاب،زراعت اور صنعت کی عام تعلیم دی جائے،
پہلی قومی تعلیم پالیسی کا نفاذ۔
پھر 24 جولائی( 1968ء) کو ہندوستان کی پہلی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی، یہ پالیسی مکمل طور سے کوٹھاری کمیشن کی رپورٹس پر ترتیب دی گئی تھی،سماجی،اور قومی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بہترین معاشرے کو تشکیل کرنا،سائنس کو فروغ اور اعلی تعلیم کے مواقع، ہربچے کےلئے تعلیم کا حصول یقینی ہو،اس پالیسی کےخاص اور اہم اغراض ومقاصد تھے،
پہلی قومی تعلیمی پالیسی میں ترامیم
(1948ء) میں ہندوستان کے مشہور تعلیم یافتہ تجزیہ نگار سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر رادھاکرشن (جن کو 1964ءمیں ہندوستانی حکومت نے بھارت رتن جیسے عظیم ایوارڈسے نوازاتھا)
کی سربراہی میں جامعاتی تعلیمی کمیشن کا قیام عمل میں آنے کے بعد سے ہی تعلیمی نظام کو منظم کرنے پر کام شروع ہوگیاتھا،پھر (1952ء) میں لچھمی سوامی مدلیار کی صدارت میں قائم ہوئے ثانوی تعلیمی کمیٹی، اورپھر (1968ء) میں دولت سنگھ کوٹھاری کی سربراہی والی کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر(1968ء)میں تعلیمی پالیسی پر ایک نئی تجویز پاس کی گئی
جس میں قومی ترقی کے تئیں پرعزم،اور ملک کی ترقی میں نمایاں کردارادا کرنے نیزسماج کو ایک بہترین معاشرے میں تبدیل کرنے والے ماہر فن طلباء کوتیار کرنے جیسے اہم اہداف اور عزائم و منصوبے شامل تھے،پھر مئی (1986ء) میں ثانوی قومی تعلیمی پالیسی کانفاذ ہوا،جو کہ اب تک چل رہی ہے، پھراس تعلیمی پالیسی میں بدلاؤ لانے کے لئے آچاریہ رام مورتی کی صدارت میں ایک تعلیمی بورڈ کا انعقادہوا،
نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا مسودہ۔
اب نئی تعلیمی پالیسی (2020ء) کا جائزہ لیتے ہیں،یہ پالیسی (1986ء) میں جاری کی گئی تعلیمی پالیسی کے بعد تعلیمی دنیا میں پہلا نیا بدلاؤ لانے کا موقع فراہم کرتی ہے،
پھر اسی پالیسی میں( 1992ء)میں بدلاؤ کیا گیا۔
اور (2014ء) میں بی جے پی کے عام انتخابات کے چُناوی مدعوں میں نئی تعلیمی پالیسی کابھی ذکر تھا، تبھی سے اس نئی پالیسی پر کام کرنا شروع ہوگیا تھا، پھر جب وزیر برائے انسانی فروغ وسائل وترقی اسمرتی ایرانی کو بنایا گیا تھا تبھی ملک کے مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے گذشتہ تعلیمی پالیسیوں، دیگرممالک کے تعلیمی نظام ونصاب، اور مختلف شعبوں کی تحقیق کے بعد (2019ء) میں اپنی رپورٹ پیش کی،2019ء سے ہی مرکزی وزارت برائے فروغ تعلیم ووسائل نے عوام سے صلاح ومشورہ مانگنا شروع کردیاتھا
۔،2019″دی ڈرافٹ نیو ایجوکیشن پالیسی”کا تقریباً 22 زبانوں میں ترجمہ کرکے اسے “مائےگو”(مائے گورنمنٹ) اور وزرات برائے ترقی انسانی وسائل کی ویبس سائٹ پربھی اپلوڈ کیاگیا تھا۔اور ملک کے عوام اور ماہرین سے اس پر رائے طلب کی گئی تھی، تمام ریاستوں کے وزراء کے علاوہ عوام کی جانب سے بھی اس پالیسی پر تقریباََ 2 لاکھ سے زائد جوابات موصول ہوئے،
قومی تعلیمی پالیسی اور بی جے پی کے بارے میں غورکیاجائے تو (1977تا 1979ء) میں جب وہ جنتا حکومت کے حلیف کی حیثیت سے حکمران تھی، اُس وقت بھی اس نےیہی کوشش کی تھی کہ نئی تعلیمی پالیسی پیش کی جائے، لیکن ان کا دیاہوا خاکہ سینٹرل ایڈوائزری ایجوکیشن بورڈ
(CABE)
نے نامنظور کر دیا تھا، اب جب کہ بی جے پی ہندوستان میں مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آچکی ہے، مودی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے
لہذا مرکزی کابینہ کی جانب سے گزشتہ ماہ جولائی کی 29تاریخ (2020ء)کو مشہور سائنس داں ادارہ ‘اسروکے سابق صدر ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی قیادت والی کمیٹی کے ذریعہ تیار شدہ مجوزہ نیو ایجوکیشن پالیسی کو آخر کار وزیر برائے فروغ انسانی وسائل وترقی رمیش پوکھریال نشنک کے سپرد کرہی دیا،جب کہ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل وترقی رمیش پوکھریال نشنک،نے ،ای ٹی وی بھارت” کی سینیئر صحافی ‘انامکا رتناسے نئی تعلیمی پالیسی پر گفگتوکرتے ہوئے بتایا کہ یقینی طور پر جب حکومت کوئی قانون نافذ کرتی ہے تو سبھوں کے لیے نافذ کرتی ہے
ہم نے اس نئی تعلیمی پالیسی کو لےکر ہندوستان کے تینتیس کروڑ طلبااور ان کےوالدین سے بات کی ہےایک ہزار سے زیادہ بڑے بڑے ادارے، یونیورسٹیوں کےپروفیسران ،پینتالیس ہزار سے زیادہ ڈگری کالج کے منتظمین، ماہرین، دانشوران سے بات کی ہےاور پورے ہندوستان کے تعلیمی وزیروں سے بھی کھل کر اظہارِ رائے مانگ کر ہی اس نئی تعلیمی پالیسی کو ہندوستان میں نافذالعمل کئے جانے کا پلان ہے،
پھر سوال کرتےہوئے صحافی نے پوچھا کہ ۔
کیا آپ کا تعلیمی نظام اور آپ کی حکومت اس قانون کو ابھی سے پورے ہندوستان میں نافذ کرنےکے لئے تیار ہے؟؟ تو اس پر رمیش پوکھریال نشنک نےجواب دیتے ہوئے کہا۔نئی تعلیمی پالیسی کا یہ معاملہ صوبوں کاہے تو ابھی ہم لوگوں نے اس مسودہ کو عوام کے سامنے پیش کیاہے، اور سوا دولاکھ سے زیادہ لوگوں نے ہمارے اس نئی پالیسی کو نافذ کرنے کے رائے موصول ہوئے ہیں،
سوال۔۔آپ کی نئی تعلیمی پالسی میں مادری زبان میں سکھانےلکھانے پڑھانے تعلیم دینے کی بات کی گئی ہے جب کہ اگر کوئی یوپی کا ہے اور اس کے اہل خانہ کا ٹرانسفر تامل ناڈو میں ہوجاتاہے تو کیا وہاں وہ تامل زبان سیکھے گا، اس زبان کی تعلیم حاصل کرےگا،جب کہ ایسا ناممکن ہے
جواب۔۔ہمارے بھارت میں 22 بھارتی زبانیں ہیں، کون والدین نہیں چاہے گا کہ ان کےبچے اس مادری زبان کو نہ سکیھیں اور نہ ہی پڑھیں،مزید اس پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نےکہا کہ نئی تعلیمی پالیسی سے ملک میں اسکولی اور اعلی تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے لیےراہ ہموار ہوگی،اور یہ پالیسی ہندوستان کو عالمی سطح پر معلومات کےباب میں ایک سُپرپاور ملک
(Super Pawar Cantry)
کے طور پر پہچان بنائےگی، مزید اس پالیسی کا مقصد ہر ایک بچے کےلئے تعلیم کے مواقع کا دروزاہ کھولنا۔ تاکہ انکی جامع ترقی کو یقینی بنایاجاسکے، چھٹی کلاس سے بچوں پر توجہ مرکوز کی جائےگی، تاکہ بارہویں کلاس کے اختتام تک انہیں مہارت حاصل ہوسکے، مزید یہ کہ اعلی تعلیم میں بین مضامین مطالعات کو مزید لچکدار بناکر انہیں فروغ دیا جائے گا، اور یہ نئی تعلیمی پالیسی ایک نئے ہندوستان کی تعمیر میں اہم رول ادا کرےگی،وزیر برائے انسانی وسائل وترقی رمیش پوکھریال نشنک توکہہ ہی رہے ہیں
جب کہ حکومت کا بنانگ دہل دعوی بھی یہی ہے کہ اس پالیسی سےاس کا مقصد تعلیم تک ہر ایک انسان(چاہےوہ امیر ہو غریب، مجبورہویا مضبوط ہو) کی رسائی ہوجائے اور ساتھ ہی ساتھ اس پالیسی کے ذریعے سے مساوات کو فروغ دیناہے لیکن پالیسی کے اہم نکات اور اہم مشمولات کا عمیق نظری سے جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے سے حقیقت بلکل اس کے برعکس نظر آرہی ہے، جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ حکومت کا دعوی محض جھوٹا اور بے بنیادہے، آئیے اس پرکُھل کربات کرتے ہیں،
نئی تعلیمی پالیسی میں طلبہ کے لیے کیا جاننا ضروری ہے(1)-بچوں کے حقوق سے واقفیت۔
بچوں کو پہلے تعلیم کا حق پہلے صرف (14) سال کی عمر تک ہی تھا۔جسے اب 3-سے (18) سال کی عمر تک ضروری قرار دیاگیاہے،اور اسکولی تعلیمی نظام کوچار زمروں میں رکھا گیاہے تین سال کی عمر سے پری پرائمری کو تین سالوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک سال پری پرائمری 1 + 2 = (3 سال) دوسر ے حصّے کے طور پر تیسری، چوتھی، اور پانچویں جماعت کے 3 سالوں پر مشتمل ہوگا۔ تیسرے حصّے کے طور پر چھٹی، ساتویں اور آٹھویں 6 + 7 + 8 جماعتوں کو بھی تین سالوں پر مشتمل رکھا گیا ہے۔
چوتھا حصہ 10 + 2 پر مشتمل ہے، تاہم اس پالیسی میں 9 تا 12 ویں کلاس کے طلباء اسکولی طلباء کہلائیں گے۔ 12 ویں کا جو پری یونیورسٹی یا انٹرمیڈیٹ کورس کہلاتا ہے، اس کو ختم کر دیا جائے گا اور پورے ملک میں اسکولی تعلیمی نظام رائج رہے گا۔ 12 ویں کے بعد ہی طلباء اسکول سے فراغت حاصل کر سکیں گے۔ ہائیر سیکنڈری اور جونیر کالجز کا نظام ختم کرکے 11 ویں اور 12 ویں جماعتوں کو سکینڈری اسٹیج میں ملا دیاگیاہےجس سے بچوں کو بہترین تعلیم کے مواقع حاصل ہونگے،
۔ (2) نئی تعلیمی پالیسی کے حساب سےموجودہ تعلیم حاصل کرنےکے طریقے کو تبدیل کیاجانا۔10+2 اور اس سے زیادہ کی قابلیت رکھنے والے آنگن واڑی ورکرس،اساتذہ کو ای سی سی ای میں 6ماہ کا سرٹیفکیٹ پروگرام کی تربیت کی فراہمی کی بھی بات کی گئی ہے۔مذکورہ تعلیمی قابلیت سے کم قابلیت کے حامل ورکرس و اساتذہ کو ایک سال کے ڈپلومہ پروگرام کے ذریعے تربیت فراہم کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔بچوں میں فاصلاتی تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کے لئے ڈی ٹی ایچ
(DTH)
چینلس اور اسمارٹ فونس کے استعمال کی بھی بات کی گئی ہے۔لیکن نئی تعلیمی پالیسی میں آنگن واڑی مراکز پر کنڑایکٹ ، کی بنیاد پرخدمات انجام دینے والے ملازمین کو مستقل طورپر تعینات کرنے کا کوئی تیقن یا تذکرہ نہیں دیا گیا ہے۔مستقل ملازمت تو درکنا کم سے کم اجرت کی بھی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی گئی ہے۔تعلیم کے ڈیجٹالائزیشن پر نئی تعلیم پالیسی کچھ بھی نہیں کہتی کہ کس طرح طلبہ تک ڈیجیٹل رسائی میں اضافہ کیا جائے خاص طور پر ایسے طلبہ جن کے پاس ٹی وی نہیں ہے،
بغیر رکاوٹ کے بجلی کی فراہمی،انٹرنیٹ،اسمارٹ فونس یا الکٹرانک گیاٹ گیجس تک جن کی رسائی نہیں ہے۔آج بھی ملک کے 40 فیصدعوام کو ہی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔یہ حالت دیہی علاقوں میں مزید ابتر اور ناقابل بیان ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی ”مقامی و غیر مقامی تربیت یافتہ رضاکاروں اورسابقہ طلبہ کے ذریعے شخصی تدریس، اضافی سیشنس کے علاوہ کیرئیر سازی،طلبہ کی رہنمائی و رہبری اور درس تدریس و اکتساب سے متعلق دیگر امور تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں بچوں کی حفاظت اورنگہداشت کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دینے کی پرزور وکالت کرتی ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت اور درس و اکتساب کی ذمہ داریوں کو رضاکارافراد و اداروں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے حکومت بچوں کے لازمی حق تعلیم کو سلب کرنے کے ساتھ بچوں کی لازمی تعلیم کو یقینی بنانے سے پہلوتہی اور اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری اختیار کررہی ہے۔حکومت کسی بھی طورپر عوام کی تعلیم و تربیت،معیاری اور سستی تعلیم کے مواقع کی فراہمی کے اپنے فرض منصبی سے فرار اختیار نہیں کرسکتی
جاری
اس کو بھی پڑھیں: کیا کاشی متھرا ابھی باقی ہے
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع