Friday, October 18, 2024
Homeحدیث شریفعصر حاضر میں روزگار کی عدم فراہمی کے اسباب اور اس کے...

عصر حاضر میں روزگار کی عدم فراہمی کے اسباب اور اس کے تدارک کے لیے چند رہ نما اصول

از قلم : محمد ایوب مصباحی عصر حاضر میں روزگار کی عدم فراہمی کے اسباب اور اس کے تدارک کے لیے چند رہ نما اصول

عصر حاضر میں روزگار کی عدم فراہمی کے اسباب اور اس کے تدارک کے لیے چند رہ نما اصول

آج ہندوستان میں عام طور سے ہر طبقے میں اقتصادی زبوں حالی کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں خصوصا مسلمان اور ان میں بھی زیادہ تر علماءوائمہ جس کی کئی وجوہات و اسباب ہیں کچھ دینی اور کچھ دنیوی جن کا قدرے تفصیل سے ہم ذکر کریں گے، پھر اس کے تدارک کے لیے کچھ اصول قلم بند کرنے کی کوشش کریں گے، کہ جن پر عمل پیرا ہوکر دنیاوآخرت کو سنوارنے کی کوشش کی جا سکے۔
رزق میں تنگی کے اسباب
۔١۔ محدود فکر: آج ہر انسان کی اور خصوصا طلبہ واساتذہ مدارس کی فکر کافی حد تک محدود ہوچکی ہے۔ مثلا طلبہ کا ٹارگیٹ اور مطمحہ نظر صرف اتنا ہوتاہے کہ وہ مدارسِ اسلامیہ میں صرف اس قدر تعلیم حاصل کرلیں کہ وہ ایک اچھے پیشہ ور خطیب بن جائیں یا کم از کم اتنا بولنا سیکھ جائیں کہ کہیں بھی سال دوسال پڑھ کر مناسب امامت لگاکر اپنی زندگی بسر کرسکیں جس سے کئی ایک نقصان ہوتے ہیں کہ وہ لوگ جو خود اصلاح طلب ہوتے ہیں وہ قوم کی اصلاح و رہ نمائی کا فریضہ انجام دینے لگتے ہیں۔

اور قلتِ علم کے باعث ان میں بہت سی اخلاقی خرابیاں رونما ہوجاتی ہیں کہ وہ اس بات پر تیار ہوجاتے ہیں کہ انھیں یہاں رکھ لیا جائے یا یہاں سے نہ ہٹایا جائے چاہے معقول ماہانہ وظیفہ جاری ہویانہ ہو ،دراصل تحصیل علم میں انتھک جدوجہد نہ کرنے کے سبب وہ جانتے ہیں کہ وہ اسی کے لائق ہیں یہی حال ہر کم پڑھے لکھے ملازم کا ہے الاماشاء اللہ۔

۔٢۔ توکل کا فقدان : سرکاری دفاتر سے لےکر عام پرائویٹ اداروں و محکموں اور شعبوں میں ملازمین کا توکل سے خالی ہونا یعنی اپنی ملازمت کو حتمی اور یقینی بنانے کے لیے اور تادیر اس میں استقلال لانے کے لیے ناظمِ اعلی، صدر، ٹرسٹیوں، اور ذمہ داران کی خوشامد اور ان کی جھوٹی تعریف میں قصیدے نظم کرنا ہے

لیکن ان حضرات میں جو باشعور ہوتے ہیں وہ اولِ نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ خوشامد کرنے والے ملازمین سے کس قدر دین کا زیاں ہے۔ کہ وہ یہ کارنامہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے کرتے ہیں( اور یقینا ان اشخاص کو سمجھنا اور پرکھنا بہت ضروری ہے کہ خانقاہوں اور بیشتر مدارس ومراکز میں بھی خسارہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے)۔

جس سے ان کے رزق کے وسائل تنگ ہوجاتے ہیں کہ اولا تو انھیں کوئی رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اگر ہوبھی جاتاہے تو معقول وظیفے کا انصرام ناتمام ہوتاہے۔اس کے علاوہ اگر وہ امانت داری سے دین کی خدمت کرتے اور رزقِ وافر کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھتے تو وہ غیب سے اس کے سامان ضرور مہیا فرماتا۔

٣۔ کسبِ معاش میں کاہلی

انسان کا وطیرہ آج یہ ہوگیاہے کہ وہ کام سے بچنا چاہتاہے اور اپنے جسم کو آرام کا عادی بنا لیتاہے جس کے نتیجے میں اس کی سعی کسبِ معاش کے تئیں اس قدر رہتی ہے کہ وہ اتنا کمالے جتنا کھالے ،حالاں کہ مستقبل کی فکر بھی انسان کو ہونی چاہیے چیونٹی جس کی ایک بہترین مثال ہے کہ وہ بارش کے موسم کا انتظام و انصرام موسمِ گرما میں ہی کرلیتی ہے اور یہ توکل کے خلاف بھی نہیں ہے۔

اس لیے کہ انسان حقیقی رازق صرف اللہ کو تصور کرے لیکن اسباب و وسائل خود مہیا کرے جو ان دو آیتوں:”وَمَامِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا“اور”ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا“کے درمیان تطبیقِ انیق بھی ہے۔


۔۴ ذکرِ الہی سے اعراض

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا”(س:طہ،آیت:١٢۴)ترجمہ:اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا اس کے لیے تنگ زندگانی ہے۔ (کنزالایمان)۔

اس آیت کی تفسیر میں صدر الافاضل فخر الاماثل نعیم الدین مرادابادی تفسیرِ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:”دنیا میں، یاقبر میں، یاآخرت میں، یا دین میں، یا ان سب میں؛ دنیا کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ ہدایت کا اتباع نہ کرنے سے عملِ بد اور حرام میں مبتلاہو یا قناعت سے محروم ہوکر گرفتارِ حرص ہوجائے اور کثرتِ مال و اسباب سے بھی اسے فراغِ خاطر(بے فکری) اور سکونِ قلب میسر نہ ہو، دل ہر چیز کی طلب میں آوارہ ہو اور حرص کے غموں سے کہ یہ نہیں وہ نہیں، حال تاریک اور وقت خراب رہے اور مومن متوکل کی طرح اسے سکون وفراغ حاصل ہی نہ ہو۔

جس کو حیاتِ طیبہ کہتے ہیں:قال تعالیٰ:فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیٰۃً طَیِّبَۃً(تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جلائیں گے) اور قبر کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ کافر پر اس کی قبر میں ننانوے اژدہے مسلط کیے جاتے ہیں، اور آخرت میں تنگ زندگانی جہنم کے عذاب ہیں ،جہاں زقوم(تھوہڑ) یعنی دھتورا اور کھولتا پانی اور جہنمیوں کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دی جائیں گے، اور دین میں تنگ زندگانی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں تنگ ہوجائیں اور آدمی کسبِ حرام میں مبتلا ہو۔”۔

۔۵  تجارت میں قسم کھانا

تجارت میں قسم کھانا بھی تنگیی رزق اور بے برکتی کا ایک سبب ہے ۔ حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں، کہ آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ “تجارت میں قسم کی کثرت سے پرہیز کرو کہ یہ اگرچہ مال کو بکوادیتی ہے مگر برکت کو مٹادیتی ہے۔”(مسلم شریف، کتاب المسافاتِ والمزارعۃ ، باب النھی عن الخلف، ص:٨۶۵/مکتبہ دارِ حزم بیروت)۔
۔ ۶۔ مال کے لالچ میں امیر گھرانے میں شادی کرنا

یہ بلا بہت عام ہوچکی ہے کہ بچے جوان ہوجاتے ہیں اور کے اولیا اولا تو شادی ہی نہیں کرتے اور اگر شادی کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو طرح طرح کی ڈیمانڈ و مطالبات کہ جہیز میں یہ چاہیے وہ چاہیے، کھانا ایسا ویسا ہو پھر یہ سب حاصل کرنے کے چکر میں بڑے گھرانے میں شادی تاکہ مال کثرت سے حاصل ہوجائے حالانہ کہ جو شخص دوسرے مال پر نظر رکھ کر شادی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ محتاج و فقیر بنا دیتا ہے آج تک بیوی کے مال سے کوئی مال والا نہیں ہوا۔

حدیث شریف میں ہے:”آقاے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ فرمائے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو کسی عورت کے حسب (خاندانی مرتبے) کی وجہ سے نکاح کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے کمینے پن میں اضافہ فرمائے گا۔(المعجم الاوسط، ج:٢،ص:١٨،حدیث:٢٣۴٢)۔
رہ نما اصول
١- اللہ سے رزق کی دعا کرنا

اللہ تعالی اپنے بندوں کو دعا کی تعلیم دیتے ہوئے حضرتِ عیسی علیہ السلام کے طریقہ دعا کو بیان فرماتا ہے:”وَرْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ” ترجمہ:اور ہمیں رزق دےاور تو سب سے بہتر روزی دینےوالا ہے”۔
٢۔ تقوی و پرہیزگاری

اگرانسان اپنے رب سے ہر وقت ڈرتارہے،تقوی اور پرہیزگاری اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے رزق کی بے شمار راہیں کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمادیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ارشادِ باری تعالی ہے:”وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًَا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ“(س:طلاق، آیت:٣) ترجمہ:جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دےگا جہاں اس کا گمان نہ ہو، (کنزالایمان)۔

۔ ٣  توکل

ہر حال میں انسان کا بھروسہ اللہ ہی کی ذات پر ہونا چاہیے اور یقینا جس کا بھروسہ اللہ پر ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیےکافی و کارساز ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:”وَمَنْ یَتَوَکّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۔”(مرجعِ سابق) ترجمہ:اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تووہ اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والاہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھاہے۔(کنزالایمان)۔

بلکہ انسان کو اس طرح کی آیات ہمیشہ اپنے ورد میں رکھنی چاہیے۔ جیسے:یہی آیت اور “وَمَاتَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ“(س:ھود، آیت:٨٨)اور “وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ“(س: آلِ عمران،آیت:١۶۰)۔

جیسی آیتیں مستحضر رکھے اور جب بھی شیطان ورغلانے کی کوشش کرے تو فورا ان آیتوں کو پڑھے اور ایمان میں کمزوری نہ آنے دے اس لیے کہ شیطان راہِ خدا میں خرچ کرنے پر فقر و تنگدستی کا خوف دلاتارہتاہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر بھی فرمایا:”اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمُ بِالْفَحْشَاءِ وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا“(س:بقرہ،آیت:٢۶٨)۔

کہ شیطان تمھیں اندیشہ دلاتاہے محتاجی کا اور حکم دیتاہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتاہے بخشش اور فضل کا۔لیکن کیا کہیے؟ انسان کا طرزِ عمل خصوصا مسلمانوں کا کہ اگر کسی مسجد یا مدرسے میں صرف کرنے کی بات آجائے تو اسے سانپ سونگھ جاتاہے بلکہ بسا اوقات ادارے میں تعلیم حاصل کررہے اپنے بچے کی ماہانہ اور بوقتِ داخلہ داخلہ فیس ان لوگوں پر بوجھ معلوم ہوتی ہے، اور زکات کو تو آج مسلمان تاوان تصور کررہا ہے۔

لیکن اگر کہیں ناموری کے لیے خرچ کرنے کی بات آجائے تو پھر اس کے پاس پیسے کی فراوانی ہوجاتی ہے، رقاصہ و طوائف پر بر سرِ عام نوٹ لٹانے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتے، اس کی وجہ یہی ہے کہ جب انسان راہِ خدا میں خرچ کرنا چاہتاہے تو فورا شیطان غریبی اور مفلسی کا خوف دلادیتاہے اس وقت انسان اللہ پر بھروسہ رکھے اور مفلسی کا خیال بھی اپنے دل تک نہ آنے دے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتاہے بے حساب رزق عطا فرماتاہے۔

۔۴۔ غیر شادی شدہ مردوں و عورتوں کا نکاح کردینا

گھر میں اگر تنگی ہو یا کہیں سے روزگار فراہم نہ ہوتا ہو یا گھر میں فاقہ کشی ہو تو اسے دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گھر میں جو مردو عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کردیا جائے اس سے تنگدستی و فاقہ کشی ختم ہوجائے گی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان فرمایا:”وَاَنْکِحُوْا الْاَیٰامَی مِنْکُمْ وَالصّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَائِکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِہِ“(س:نور، آیت:٣٢)ترجمہ:اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں، اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انھیں غنی کردے گااپنے فضل کے سبب۔(کنزالایمان)۔

۔ ۵۔ کسبِ معاش کی کوشش کرنا

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِھَاوَکُلُوْا مِنْ رِزْقِہِ“(س:ملک، آیت:١۵)ترجمہ:وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین رام(تابع)کردی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ۔(کنزالایمان)۔

۔ ۶۔ راہِ خدا میں خرچ کرنا

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:”وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہُ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ۔”(س:سبا،آیت:۴٩)ترجمہ:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اللہ اس کے بدلے اور دے گااور وہ سب سے بہتررزق دینے والا۔(کنزالایمان) ۔

راہِ خدا میں خرچ کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا یہ ایسے کام ہیں کہ اگر انسان انہیں اپنالے تو رزق میں کشادگی تو ہوتی ہی ہے علاوہ ازیں مصائبِ دنیوی کو بھی اس کی برکت سے دفع کر دیا جاتا ہے، بعض کتبِ سیر و تواریخ میں ہے:”جب موسی علیہ السلام نے فرعون کی ہلاکت کی دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے یہ دعا اس وقت تک کے لیے مؤخر فرمادی اور فرعون کو اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جب تک اس کے دربار میں لنگرِ عام چلتارہا جس دن فرعون کو غرقآب کیا گیا اس دن اس کے دربار میں ایک بھی آدمی نے کھانا تناول نہیں کیا تھا (عامہ کتب)۔

۔٧۔ توبہ و استغفار کرنا

بسا اوقات انسان کے رزق میں تنگی اس کے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے بھی آجاتی ہے اس کا انکشاف خود اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کردیا، فریایا:”وَمَااَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِکُمْ“(س:شوری، آیت:٣۰)ترجمہ: اور تمھیں جو مصیبت پہونچی وہ اس کے سبب سے ہےجو تمھارے ہاتھوں نے کمایا(کنزالایمان)۔

اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کرے اور اپنے گناہوں کی معافی چاہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے پھر جب گناہوں کی نحوست نہ رہے گی تو رزق میں کشادگی ہوجائے گی خود حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ اصول سمجھانے کی کوشش کی

جس کو قرآن کریم نے اس انداز سے بیان فرمایا:”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھَارًا۔”(س:نوح، آیت:١١،١٢)ترجمہ:تو میں نے کہا: ” اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف فرمانےوالا ہے ، تم پر شراٹے کا مینہ(موسلادھار بارش) بھیجے گا اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرےگا اور تمھارے لیے باغ بنادے گااور تمہارے لیے نہریں بنائے گا(کنزالایمان)۔

۔ ٨۔ گھر میں نماز کا ماحول بنانا

جس گھر میں نماز کا ماحول نہیں ہوتا تو اس گھر والوں پر ان کا رزق تنگ کر دیا جاتا ہے آج تنگی رزق کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ راتوں کو زیادہ جاگتے ہیں پھرصبح آٹھ دس بجے تک آرام سے سوتے رہتے ہیں۔

پھر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ روزگار دستیاب نہیں ہورہا اگر صبح جلدی بیدار ہو جائے اور گھر والوں کو بھی نماز کی ترغیب دلایئ جائے اور نماز کا ماحول بنایا جائے تو ان شاءاللہ ضرور رزق کے دروازے ہم پرکھلتے چلے جائیں گے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

۔”وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی۔”(س:طہ، آیت:١٣٢)ترجمہ:اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ،کچھ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیں گے۔(کنزالایمان)۔

از قلم: محمد ایوب مصباحی 
صدر المدرسین دار العلوم گلشنِ مصطفی،بہادر گنج، سلطان پور، مراداباد، یو۔پی۔ہند
8279422079

قسط وار مضمون ضرور پڑھیں: مقالہ نگاری کے اصول و ضوابط

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن