تحریر : طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟۔
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے
خلیل بجنوری کے بعد فرقہ بجنوریہ اس مدعا کو بڑے زور وشور سے اٹھا رہا ہے کہ مسئلہ تکفیر تقلیدی نہیں تحقیقی ہے تو انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہ کس کے لیے تحقیقی ہے اور کس کے واسطے تقلیدی؟
نیز تحقیقی ہونے کا مطلب کیا ہے؟
مسئلہ تکفیر ہرایک کے واسطے تحقیقی نہیں ہوسکتا۔
عوام الناس کو مسئلہ تکفیر میں تحقیق کی اجازت نہیں،بلکہ عوام مسلمین کو کفرکلامی وکفرفقہی دونوں میں فتویٰ کفرکی تصدیق لازم ہے،کیوں کہ شرعی حکم مانناعام وخاص ہرایک کو لازم ہے۔
اسی طرح اگر کفر کلامی کامسئلہ ہے تو غیرمتکلم فقہا کو متکلمین کا اتباع کرنا ہے اور اس فتویٰ کی تصدیق کرنی ہے۔ فقیہ اگرمتکلم نہ ہوتوان کو کفرکلامی کے باب میں تحقیق کاحکم نہیں،بلکہ تصدیق کا حکم ہے۔
اگر کسی متکلم نے کفرکلامی کا صحیح فتویٰ دیا ہے تو دیگر متکلمین پربھی تصدیق فرض ہے،ورنہ کافر کو مومن قرار دینا لازم آئے گا۔اب سوال صرف یہ رہا کہ دیگر متکلمین کو تصدیق کے ساتھ تحقیق بھی فرض ہے یانہیں؟
جواب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے مدعیان نبوت کو مرتد قرار دیا اور ان کے متبعین کو بھی مرتد قرار دیااور ان لوگوں سے جنگ فرمائی۔یہ کفر کلامی کا فتویٰ تھا۔عہد صدیقی سے آج تک تمام فقہا ومتکلمین وجملہ مومنین ان مدعیان نبوت کو(باستثنائے تائبین) مرتد مانتے ہیں، لیکن کتنے متکلمین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتویٰ کفر کی تحقیق کی ہے؟عہد حاضر کے ہی متکلمین سے دریافت کرلیں۔
اگر متکلمین بلاتحقیق محض ان مدعیان نبوت کی تکفیر کی روایت کے سبب ان کو کافر مانتے ہیں توبلاتحقیق ان متکلمین نے ان مرتدین کومرتد کیسے مان لیا؟
پس علما ئے اسلام کے اعتقادوعمل سے ظاہر ہوگیا کہ ہرایک پر تحقیق فرض نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان مدعیان نبوت کے جھوٹے دعوے تواتر کے ساتھ منقول ہوکرہم تک آئے یا نہیں؟ اگر وہ دعوے تواتر کے ساتھ منقول ہوکر آئے ہیں تو وہ کن کتابوں میں منقول ہیں؟ان کے کلام میں احتمال بالدلیل یا بلا دلیل ہے یانہیں؟قائلین یعنی مدعیان نبوت کی طرف ان اقوال کی نسبت متواتر ہے یانہیں؟متکلم نے وہ بات ہوش وحواس میں قصداًکہی تھی یانہیں؟یعنی کلام،متکلم وتکلم تینوں جہات سے احتمال بلا دلیل بھی معدوم ہے یانہیں؟
فرقہ بجنوریہ کے پرجوش مبلغین ان سب سوالوں کے
جواب لکھیں،کیوں کہ کفرکلامی کی تحقیق کے لیے مذکورہ بالا امور کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے جھوٹے دعوے تواتر کے ساتھ منقول نہ ہوسکے،صرف ان مدعیان نبوت سے متعلق حکم کفر تواتر کے ساتھ منقول ہواہے توپھر ان کے کفر کلامی کی تحقیق کیسے ہوگی؟
تحقیق کے وقت دیکھنا ہوگا کہ کفریہ کلام میں کوئی احتمال ہے یانہیں؟اسی طرح اس کلام کی نسبت قائل کی طرف یقینی ہے یانہیں؟اور قائل نے ہوش وحواس میں بلاجبر واکراہ اپنے قصد وارادہ ورضامندی سے وہ کلام کہا یا نہیں؟بعد میں توبہ ورجوع کیا یا نہیں؟ان تما م امور کی تحقیق ہوتی ہے۔جب ان مدعیان نبوت کا کفریہ کلام ہی منقول نہیں توتحقیق کیسے ہوگی؟
دراصل یہ لوگ تحقیقی ہونے کا غلط مفہوم بتاتے ہیں،اوریہ بھی غلط ہے کہ مسئلہ تکفیر ہرایک کے لیے تحقیقی ہے۔
بجنوری مبلغین مسئلہ تکفیرکے تحقیقی ہونے کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ کسی مفتی نے کسی کو کافر قرار دیا تو اس بارے میں ہرایک مفتی کو اپنی تحقیق کی روشنی میں اختلاف کا حق حاصل ہے،یعنی تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ ہرایک کو اختلاف کا حق حاصل ہے،حالاں کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں کسی کو بھی اختلاف کا حق نہیں،حتی کہ خوداس مفتی کو بھی رجوع کا حق حاصل نہیں۔
دیگر متکلمین کو تحقیق کا حق حاصل ہے،اس کا محض مفہوم یہ ہے کہ وہ تکفیر کے دلائل میں غوروفکر کرسکتا ہے،لیکن فتویٰ صحیح ہونے کی صورت میں اختلاف کا حق نہیں۔ اگر وہ فتویٰ ہی غلط ہے تووہاں کفر کلامی موجود ہی نہیں تو کفر کلامی میں اختلاف نہیں ہوا،بلکہ ایک غلط فتویٰ میں اختلاف ہوا۔ ضروری تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
مسئلہ تکفیر میں عوام کوتحقیق کی اجازت نہیں
امام احمد رضا قادری نے تحریر فرمایا : ”جاہل کو احکام شرع خصوصًا کفرواسلام میں جرأت سخت حرام ، اشد حرام ہے۔کوئی ہو، کسے باشد۔ واللہ تعالیٰ اعلم “۔
(فتاویٰ رضویہ ج6ص209-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح :منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ عوام کومسئلہ تکفیر یا دیگر مسائل میں تحقیق کی اجازت نہیں۔
مسئلہ تکفیر کلامی میں غیرمتکلم فقہا کوتحقیق کی اجازت نہیں
امام غزالی (۰۵۴ھ-۵۰۵ھ)نے تحریر فرمایاکہ کفرکلامی کافتویٰ صرف متکلمین جاری کریں گے،اور فقہا کو ان کی تقلید لازم ہے۔غیر متکلم فقہا ئے کرام کوکفرکلامی کا فتویٰ جاری کرنے کی اجازت نہیں۔
فرقہ بجنوریہ مسئلہ تکفیر میں امام غزالی کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے،اس لیے امام غزالی قدس سرہ العزیز کی عبارتیں حوالہ میں نقل کی جاتی ہیں۔
۔(الف)قال الغزالی:(فاذا فَہِمتَ اَنَّ النَّظرَ فی التکفیر موقوفٌ علٰی جمیع ہذہ المقالات التی لایَستَقِلُّ بِاٰحَادِہَا الا المبرزون-عَلِمتَ اَنَّ المُبَادِرَ اِلٰی تَکفِیرِِ مَن یُُخَالِفُ الاشعریَّ اَو غَیرَ ہ جَاہِلٌ مُجَازِفٌ-وَکَیفَ یَستَقِلُّ الفَقِیہُ بمجرد الفقہ بہٰذا الخطب العظیم-وَاَیُّ رُبعٍ من ارباع الفقہ یُصَادِفُ ہذہ العلوم-فاذا رَأَیتَ الفَقِیہَ الذی بضاعتُہ مجردُ الفقہ،یخوضُ فی التکفیر والتضلیل-فَاعرِض عنہ وَلَاتَشتَغِل بہ قَلبَکَ وَلِسَانَکَ-فَاِنَّ التَّحَدِّیَ بالعلوم غَرِیزَۃٌ فی الطبع-لَا یَصبِرَعَنہَا الجُہال-وَلِاَجَلِہ کَثُرَ الخلافُ بین الناس وَلَوسَکَتَ مَن لَایَدرِی-لََََََََقَلَّ الخِلَافُ بَینَ الخَلقِ)۔
(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ ص74)
توضیح : تکفیر کلامی میں فقہا کو متکلمین کی تقلید لازم
تکفیرکلامی میں جہات محتملہ کا قطعی بالمعنی الاخص ہونا ضروری ہے،اس لیے اس کا سمجھنا آسان ہے،کیوں کہ وہاں احتمال بلادلیل بھی نہیں ہوتا۔
بالفرض اگر سمجھ میں نہ آئے تو بھی فقہا کو متکلمین کا فتویٰ تکفیر ماننا لازم ہے۔
مذہب شافعی میں اجماع شرعی میں غیر کافر بدعتی کا لحاظ ہوگا،کافربدعتی کا نہیں۔اگر فقہا کوکسی کافر بدعتی کے کفر کا علم نہ ہوسکااور فقہا نے اس کافر بدعتی کے اختلاف کے سبب اجماع کو غیرمنعقد سمجھا تو اس صورت کا حکم بیان کرتے ہوئے امام غزالی نے تحریر فرمایا کہ اگر فقہا کو اس بدعتی کے کفریہ قول کا علم تھا تو فقہا پر لازم تھا کہ متکلمین سے دریافت کرتے،اورپھر متکلمین کا فتویٰ ماننا ان پر لازم ہوتا۔اگر فقہاکواس بدعتی کے غلط قول کی اطلاع ہی نہیں تھی توفقہا عدم علم کے سبب اجماع کوغیر منعقد قرار دینے میں معذور ہوں گے۔
۔(ب)قال الغزالی:(فان قیل:فَلَو تَرَکَ بَعضُ الفقہاء الاجماعَ بِخِلَافِ المبتَدِعِ المُکَفَّرِ اِذَا لَم یَعلَم اَنَّ بدعتہ تُوجِبُ الکُفرَ-وَظَنَّ اَنَّ الاجماع لاینعقد دونہ-فَہَل یُعذَرُ من حیث اَنَّ الفقہاء لایطلعون عَلٰی مَعرفَۃِ مَا یُکَفَّرُ بِہ من التاویلات؟قلنا لِلمَسءَلَۃِ صُورَتَانِ۔
۔(۱) اِحدَاہُمَا اَن یَقُولَ الفقہاء:نحن لَا نَدرِی اَنَّ بدعتہ توجب الکفرَ اَم لَا؟ففی ہذہ الصورۃ لاَ یُعذَرُونَ فِیہِ اِذ یَلزَمُہُم مُرَاجَعَۃُ علماء الاصول،ویجب علی العلماء تعریفُہم،فاذا اَفتوہُم بکُفرِہ فعلیہم التقلید-فَاِن لَم یَقنَعہُمُ التَّقلید-فَعَلَیہِمُ السُّوَالُ عن الدلیل،حَتّٰی اذا ذُکِرَ لہم د لیلُہ،فَہِمُوہُ لَامَحَالَۃَ-لِاَنَّ دَلِیلَہٗ قَاطِعٌ،فَاِن لَم یُدرِکہُ فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا،کَمَن لَایُدرِکُ دَلِیلَ صدق الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانہ لَاعُذرَ مَعَ نَصبِ اللّٰہِ تَعَالٰی الاَدِلَّۃَ القَاطِعَۃَ۔
۔(۲) الصورۃ الثانیۃ اَن لَایکونَ بَلَغَتہُ بِدعَتُہ وَعَقِیدَتُہ فَتَرَکَ الاِجمَاعَ لِمُخَالَفَتِہ فَہُوَ مَعذُورٌ فِی خَطَأِہٖ وَغَیرُ مُوَاخَذٍ بِِہٖ)(المستصفٰی من علم الاصول جلداول ص184)۔
توضیح:جب متکلمین کفرکلامی کافتویٰ صادر کردیں تو فقہاکوان کی تقلید لازم ہے۔فقہا مسئلہ سمجھنے کے واسطے متکلمین سے دلائل دریافت کر سکتے ہیں۔لیکن انکار کا حق نہیں,خواہ فقہا کو متکلمین کے دلائل سمجھ میں ائیں یا نہ ائیں۔
جب کفر کلامی پر اجماع ہوجائے تو حکم کفر مزید مؤکد ہوجاتاہے,لیکن اگرایک ہی متکلم نے کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری کیا،اورابھی کفر کلامی کے فتویٰ پر اجماع نہیں ہوا توبھی متکلم دیگر کواختلاف کی اجازت نہیں۔
اگر کفر کلامی کا وہ فتویٰ صحیح ہے تو آخر اختلاف کس بنیاد پر؟ اگربلاوجہ انکار کرتا ہے تو ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کا حکم جاری ہوگا۔
اگر کوئی شبہ واحتمال ہے تواصل مفتی سے دریافت کرے۔
اعتراض ہونے پرامام احمدرضا قادری نے بھی ”تمہید ایمان“ میں رفع احتمالات کی وضاحت فرمائی۔ الحاصل دیگر متکلمین کو تحقیق کی اجازت ہے،لیکن فتویٰ صحیح ہونے کی صورت میں اختلاف کا حق حاصل نہیں اور تحقیق کا فائدہ محض حقائق ودلائل کا ادراک ہے،جیسے فقہی امور میں مقلد کو اپنے امام مجتہد کے دلائل کے ادراک کا حق حاصل ہے،لیکن مقلد کواپنے امام مجتہدسے اختلاف کاحق نہیں۔اسی طرح کفرکلامی کا فتویٰ صحیح ہے تو کسی کواختلاف کا حق نہیں۔
تکفیرکلامی میں دیگر متکلمین کو تحقیق کی اجازت،لیکن تحقیق فرض نہیں
سوال :اگر کسی متکلم نے کسی پر کفر کلامی کا حکم جاری کیا تو دیگر متکلمین آنکھ بند کرکے تسلیم کرلیں یا تحقیق کا حق انہیں حاصل ہے؟
جواب : دیگر متکلمین کوتحقیق کا حق حاصل ہے،لیکن فتویٰ صحیح ہونے کی شکل میں انکار کا حق حاصل نہیں۔
کوئی احتمال سمجھ میں آئے تو خود اسی مفتی سے سوال کرنا ہوگا،جس نے کفرکا فتویٰ جاری کیا ہے،جیسے مانعین زکات سے حکم جہاد جاری کرنے پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایاتھا۔
مذکورہ مفتی نہ ہوں تودیگراہل علم سے دریافت کرے۔
خلیل بجنوری نے تحقیق کو انکار کا مراد ف قرار دیا،اورجابجا لکھاکہ ہرایک کو تحقیق کا حق ہے،یعنی انکار کا حق ہے،حالاں کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ اگر دیگر متکلمین کو بلا سبب انکار کا حق حاصل ہوجائے تو ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا مفہوم ہی باطل ہوجائے گا۔
شریعت،عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی۔اگر دیگر متکلمین کوحق انکار حاصل ہوجائے تو ایک ہی ملزم کسی کے یہاں قطعی کافر ہوگا اورکسی کے یہاں مومن ہوگا اور ایمان وکفر دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مذکورہ صورت میں ایک ہی جگہ ایمان وکفر کا قطعی طورپر پایا جانا لازم آتا ہے، اوریہ اجتماع ضدین ہے،نیزباب اعتقادیات میں دوقول حق نہیں ہوسکتے،پس یقینی طورپر ایک باطل ہوگا۔
ہاں،فقہ کے اجتہادی مسائل میں ایسے متضاد اقوال کو حق تسلیم کیا جاتا ہے،کیوں کہ وہ ظنی امورہیں اور وہاں دونوں قول کوظنی طورپر حق تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ قسط دوم میں مزید وضاحت رقم کی جائے گی۔
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم::والہ العظیم
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع