از قلم: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوم قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوم
قسط اول میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا کہ مسئلہ تکفیر میں عوام الناس کو تحقیق کی اجازت نہیں اور کفر کلامی کے مسئلہ میں غیر متکلم فقہا کو تحقیق کی اجازت نہیں۔دوسری بات یہ کہ جب ایک متکلم نے کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری کیا تو دیگر متکلمین کو تحقیق کی اجازت حاصل ہے،لیکن تحقیق فرض نہیں۔ہاں، فتویٰ صحیح ہونے کی صورت میں ہر متکلم،ہرفقیہ اورہر عام مومن پر اس فتویٰ کی تصدیق فرض ہے۔
تحقیق اس متکلم ومفتی پرفرض ہے جو کفر کا فتویٰ جاری کرے۔جب کفر کا صحیح فتویٰ جاری ہوگیا تو اب وہ مسئلہ مثلاً زید کا کافر ہوناباب اعتقادیات کا ایک مسئلہ ہوگیا۔
ان شاء اللہ تعالیٰ باب اعتقادیات کے تحقیقی اور تقلیدی ہونے کا مفہوم لکھا جائے گا۔مسئلہ تکفیر کے تحقیقی ہونے کا مفہوم درج ذیل ہے۔
مسئلہ تکفیر کے تحقیقی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جو عالم ومفتی فتویٰ کفرجاری کرے،وہ شرعی اصول وقوانین کو موجودہ کفریہ قول وفعل پرمنطبق کر ے،پھر اگر اس قسم کی جزئیات یا اس کے نظائر موجود ہیں توان پرغور وفکرکرے، جہات محتملہ کی تحقیق کرے کہ وہ یقینی درجہ میں ہیں یا محض ظنی ہیں؟ تمام شرائط کی تحقیق کے بعدفتویٰ کفر جاری کرے۔
غیراہل کوتحقیق کی اجازت نہیں ہے،بلکہ علمائے محققین کے فیصلے کوتسلیم کرنا اسے لازم ہے۔
خلیل بجنوری نے مسئلہ تکفیرکے تحقیقی ہونے کی غلط تشریح کی،اور یہ بتایا کہ ہرایک کو ذاتی تحقیق کی بنا پر کسی کو کافر ماننا ہے۔فرقہ بجنوریہ اس سوال کا جواب دے کہ اگر مسئلہ تکفیرمیں ہرایک پر تحقیق واستدلال فرض ہے تو عہد صدیقی کے مدعیان نبوت کو بلا تحقیق محض تقلیدی طورپر علمائے سلف وخلف مرتد کیسے مانتے ہیں؟
کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی اجازت نہیں۔
اگر کسی پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری ہوجائے تو عالم وغیر عالم کسی کو بھی اختلاف کی اجازت نہیں۔کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے اور ضروریات دین میں اختلاف،انکار یا توقف کی اجازت نہیں۔
مندرجہ ذیل عبارتوں میں عالم وغیر عالم کی تفریق کے بغیر یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ کافر کلامی کے کفر کا جوانکار کرے،وہ کافر ہے۔
ہاں،اگر کفر کلامی کا فتویٰ ہی غلط تھا تووہاں کفر کلامی میں اختلاف نہ ہوگا،بلکہ غلط فتویٰ میں اختلاف ہوگا۔کوئی فرد کافر کلامی اسی وقت قرار پائے گا،جب کفر کلامی کا صحیح حکم اس پر وارد ہو،ورنہ وہ کافر کلامی نہیں۔
کافرکلامی کے کفرکا انکار اوراس میں شک کرنے والابھی کافر کلامی ہے، پھر جو اس منکرکو کافر نہ مانے،وہ بھی کافر کلامی ہوگا۔کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔ جس کسی نے کافر کلامی کومومن بتایا،اس نےضروری دینی کے انکار کو ایمان بتایا۔ضروری دینی کی تصدیق ایمان ہے،نہ کہ انکار۔اس سے متعلق علمائے اسلام کی عبارات درج ذیل ہیں۔
قال القاضی بعد ذکر الاقوال الکفریۃ:(فَلَا شَکَّ فی کفر ہؤلاء الطوائف کلہا قطعًا اجماعًا وَسَمعًا- کذلک وقع الاجماع علٰی تکفیر کل مَن دَافَعَ نَصَّ الکتاب اَو خصَّ حدیثًا مجمعًا علٰی نقلہ مقطوعًا بہ مجمعًا علٰی حملہ علٰی ظاہرہ کتکفیر الخوارج بابطال الرجم
ولہٰذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل اَو وَقَفَ فیہم او شَکَّ اَو صَحَّحَ مَذہَبَہ وان اظہر مع ذلک الاسلام واعتقدہ-واعتقد ابطال کل مذہب سواہ فہو کافرٌ باظہارہ مَا اَظہَرَ من خلاف ذلک)۔
(الشفاء جلددوم ص286-دارالکتب العلمیہ بیروت)
قال الخفاجی:((قطعا)ای جزما من غیر تردد فیہ(اجماعا)ای بالاجماع(وسمعًا)من اللہ ورسولہ وکتابہ وسنتہ)۔
(نسیم الریاض جلد ششم ص 358-دارالکتب العلمیہ بیروت)
قال القاری:((قطعا)ای بلاشبہۃ(اجماعا)بلا مخالفۃ(وسمعا)ای وسماعا من الکتاب والسنۃ مایدل علی کفرہم بلامریۃ)۔
(شرح الشفاء للقاری جلد دوم ص520-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:مذکورہ بالا اقتباسات سے واضح ہوگیا کہ ضروریات دین کے منکر کا کافر ہونا قرآن وحدیث اور اجماع متصل سے ثابت ہے۔ تکفیرقطعی کے شرائط واحکام قیاس واجتہادسے ثابت نہیں ہیں۔قطعی کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ اجتہاد سے ثابت ہونے والاامر ظنی ہوتا ہے۔
قال القاضی عیاض:(وقال نحو ہٰذا القول الجاحظ وثُمَامَۃُ فی ان کثیرًا من العامۃ والنساء والبُلہ وَمُقَلَّدَۃِ النَّصَارٰی والیہود وغیرہم لَا حُجَّۃَ لِلّٰہ علیہم اِذ لَم تَکُن لہم طباع یمکن معہا الاستدلال
وقائل ہٰذا کلہ کافرٌ بالاجماع علٰی کُفرِمَن لَم یُکَفِّر اَحَدًا من النصارٰی والیہود وکل من فارق دین المسلمین اَو وَقَفَ فی تکفیرہم او شَکَّ- قال القاضی ابو بکر: لان التوقیفَ والاجماعَ اِتَّفَقَا عَلٰی کُفرِہم-فمن وَقَفَ فی ذلک فَقَد کَذَّبَ النَّصَّ والتوقیفَ،اَو شَکَّ فیہ وَالتَّکذِیبُ اَوِ الشَّکُّ فیہ لا یقع الامن من کافر)
(کتاب الشفاء جلددوم ص281)
قال القاری:((قال القاضی ابوبکر)الباقلانی(لان التوقیف)ای بالسماع من اللّٰہ ورسولہ (والاجماع اتفقا علٰی کفرہم-فمن وقف فی ذلک فقد کذب النص)ای نص الکتاب (والتوقیف)بہ من السنۃ علی الصواب(او شک فیہ-والتکذیب او الشک فیہ)ای فی کفر ہم(لایقع)کل منہما(الا من کافر))۔
(شرح الشفا للقاری جلددوم ص514-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح :تو قیف سے قرآن وحدیث میں کسی امر کا وراد ہونا مراد ہوتا ہے،جیسے کہا جاتا ہے کہ اسمائے الٰہیہ توقیفی ہیں،یعنی قرآن وحدیث میں جواسمائے طیبہ وارد ہیں،انہیں کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر ہوگا۔
قاضی ابو بکر باقلانی کی عبارت میں توقیف سے یہی مفہوم مراد ہے،یعنی قرآن وحدیث میں کسی امر کا مذکور ہونا۔ضروریات دین میں اجماع سے اجماع متصل مراد ہوتا ہے۔ اسی طرح انکار ضروریات کے باب میں بھی اجماع سے اجماع متصل مراد ہوتا ہے۔قاضی باقلانی کی عبارت اور ماقبل کی عبارت میں اجماع سے اجماع متصل مراد ہے،یعنی ایسے لوگوں کا کافر ہونا قرآن وحدیث سے بھی ثابت ہے اور اجماع متصل سے بھی ثابت ہے۔
قال الخفاجی :((ولہذا)ای للقول بکفر من خالف ظاہر النصوص والمجمع علیہ(نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الاسلام)ای اتخذہ دینا(من)اہل(الملل)جمع ملۃ وہی الدین وبینہما فرق بحسب المفہوم(او وقف فیہم)ای توقف وتردد فی تکفیرہم(اوشک)فی کفرہم(اوصحح مذہبہم)ای اعتقد صحتہ کما تقدم عن بعضہم ان الایمان انما ہو عدم جحد وحدانیۃ اللّٰہ وقد تقدم بیانہ وابطالہ-والفرق بین التوقف والشک ان التوقف ان لا یمیل الی شئ من الطرفین-والشک مع التر جیح للمخالف(وان اظہر الاسلام)باعتقادہ والتزام احکامہ(واعتقدہ)بقلبہ(واعتقد ابطال کل مذہب سواہ)ای غیر الاسلام بان یقول انہ منسوخ باطل فی الواقع غیر مقبول عند اللّٰہ ولکن یزعم ان من اقر بالالوہیۃ والتوحید غیر کافر،کما تقدم من مذہب الجاحظ)۔
(نسیم الریاض جلدششم ص359)
قال الخفاجی :((وقائل ہذا کلہ کافر بالاجماع علی کفر)متعلق بالاجماع (من لم یکفر احدا من النصاری والیہود) کما ذکرہ الجاحظ(و)لم یکفر(کل من فارق دین المسلمین)کارباب الملل من المجوس وغیرہم ومفارقتہ مخالفتہ لہم قولاوفعلا(او وقف فی تکفیرہم)ای احجم عنہ وترکہ نفیا واثباتا(او شک)فیہ فیجوز وجودہ وعدمہ وفی نسخۃ: توقف،وقیل:الوقوف والتوقف کالتردد بحیث لا یرجح احد الجانبین و الشک ان یجوزہ تجویزا مرجوحا وکلاہما کفر لانہ یقتضی التردد فی دین الاسلام وہو کفر بلا شک)۔
(نسیم الریاض جلدششم ص342-دار الکتب العلمیہ بیروت)
قال الشیخ مرعی بن یوسف الحنبلی:(من اعتقد قدم العالم اوحدوث الصانع اوسخربوعد اللّٰہ او وعیدہ-اَو لَم یُکَفِّرمَن دَانَ بِغَیرِالاِسلَامِ اَو شَکَّ فِی کُفرِہٖ-اوقال قَولًا یتوصل بہ الٰی تضلیل الامۃ-او کَفَّرَ الصَّحَابَۃَ فَہُوَ کافر)۔
(غایۃ المنتہی جلدسوم ص 338 -المؤسسۃ السعدیہ ریاض)
توضیح :مذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کافر کلامی کو مومن ماننے والا کافر ہے۔ ان عبارتوں میں یہ تفریق نہیں کہ عالم ومفتی اپنی تحقیق کی روشنی میں کسی کافر کلامی کے کفر کا انکار کرے اور اس کومومن مانے تو اس کے لیے یہ جائز ہے اور غیر عالم ومفتی ایسے کافر کومومن مانے توکافر ہوجائے گا،بلکہ یہ حکم مطلق ہے کہ جو کافر کلامی کو مومن مانے، یا اس کے کفر میں شک کرے،وہ کافر ہے۔عالم وغیر عالم کا کوئی فرق نہیں۔
کافر کلامی کے کفر میں شک کرنا بھی کفر کلامی
قال النووی والہیتمی:(وَاَنَّ مَن لَم یُکَفِّر مَن دَانَ بِغَیرِ الاِسلَامِ کَالنَّصَارٰی اَو شَکَّ فِی تَکفِیرِہِم اَو صَحَّحَ مَذہَبَہُم فَہُو کَافِرٌ وَاِن اَظہَرَ مَعَ ذٰلِکَ الاِسلَامَ وَاِعتَقَدَہ)۔
(روضۃ الطالبین جلد ہفتم ص290-الاعلام بقواطع الاسلام ص378)
توضیح:کافرکلامی کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔ کافرکلامی کوکافرمانناضروریات دین میں سے ہے اور جب کسی کو ضروری دینی کا قطعی علم ہوجائے تو اسے ماننا فرض قطعی ہے،پس جب عالم ومفتی کو کسی کے کفر کلامی کا علم قطعی ہوگیا تو اس پر اس کافرکلامی کوکافر ماننا فرض قطعی ہے،نہ کہ ہرمتکلم پر تحقیق فرض ہے۔
مفتی اول پر تحقیق فرض ہے،اور جب فتویٰ صحیح ہے تو دوسروں پر تصدیق فرض ہے۔
اگر کسی کو کوئی شبہہ ہوتو مفتی اول سے دریافت کرے،جیسے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکات سے جہاد سے متعلق حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا تھا۔مفتی اول نہ ہوعلمائے معتمدین سے دریافت کرے۔یہ کہاں لکھاہے کہ ہر متکلم پر فتویٰ کفر کی تحقیق فرض ہے؟
فرقہ بجنوریہ سے سوال ہے کہ آج اگر کسی متکلم کومسیلمہ کذاب کے کفر کی تحقیق میں کلام،متکلم یا تکلم میں احتمال پیدا ہوگیا تو وہ مسیلمہ کذاب کو مومن مانے گا یاکافر؟
واضح رہے کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔ کفر فقہی قطعی التزامی میں فقہا ومتکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے،اور کفر فقہی لزومی ظنی میں فقہا کابھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔تفصیل ”البرکات“میں ہے۔
فرقہ بجنوریہ کو کفر فقہی اور کفر کلامی کی تقسیم پر بھی اعتراض ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ اہل حق کی تائید ومعاونت کرتا رہوں گا،جب تک کہ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی جانب سے توفیق وعطا جاری رہے۔
کافر کلامی کوکافرکلامی ماننا ضروری دینی کیسے؟
۔(۱)کافر کلامی کوکافر کلامی ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔یہ اجماع متصل اورقرآن وسنت سے ثابت ہے۔
۔(۲)متکلمین صرف ضروری دینی کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں اور متکلمین کافر کلامی کے کفر کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔ اس کا صریح مفہوم یہ ہوا کہ کافر کلامی کوکافرکلامی ماننا ضروریات دین میں سے ہے،ورنہ متکلمین منکر تکفیرپر حکم کفر عائد نہیں فرماتے۔فتویٰ کفر کلامی میں ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“کا یہی مفہوم ہے
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر:ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع