تحریر: طارق انور مصباحی ( کیرلا)۔ کمزوروں کو بھیک ملتی ہے یا ظلم و ستم
کمزوروں کو بھیک ملتی ہے یا ظلم و ستم
بھارت کے پرائم منسٹر کو بھی ایک ووٹ کا حق ہے اور ایک غریب و مزدور اور عام شہری کو بھی ایک ووٹ کا حق حاصل ہے۔یعنی قانون کی نظر میں پرائم منسٹر اور ایک غریب شہری دونوں برابر درجہ کے شہری ہیں۔
بھارتی مسلمان سیاسی میدان سے غائب ہو کر خود کو اس قدر کمزور کر چکے ہیں کہ کسی کو ان کی پرواہ نہیں۔اگر جیتنے والی پارٹی چاہے تو ان پر رحم و کرم کرے اور ان کے کشکول میں کچھ بھیک ڈال دے۔اگر وہ چاہے تو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔کوئی پرسان حال نہیں۔
کورٹ میں فیصلے اس کے حق میں ہوتے ہیں,جس فریق کے دلائل مضبوط ہوتے ہیں۔کورٹ کے فیصلے کبھی اصل حقیقت کے خلاف بھی جاتے ہیں۔کبھی بےگناہ کو پھانسی ہو جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے قاتل کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔
کمزور اور بے سہارا ہونے کے سبب مسلمانوں کو کورٹ پر بھی بہت زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔یہ اعتماد بار بار ٹوٹا ہے,لیکن مسلمانوں کی امیدیں اج بھی کورٹ سےوابستہ ہیں۔اے کاش! قوم مسلم میدان عمل میں اتر کر خود اپنے آپ کو سہارا دیتی تو مایوسیوں کے یہ برے دن ہم سے دور رہتے۔
مسلمانو! تم کو بھارت میں برابر درجہ کی شہریت اور دیگر حقوق حاصل ہیں۔جمہوری ملک میں جس قوم کو سیاسی قوت حاصل ہوتی ہے,اسی کو حقوق ملتے ہیں۔کمزوروں کو کشکول میں بھیک ملتی ہے, یا پھر ظلم وستم۔
ابھی بھارت کی تمام مشہور سیاسی پارٹیاں برادریانہ پارٹیاں(Caste Parties)ہیں۔ان میں بعض سیکولر ہیں اور بعض فرقہ پرست۔سیکولر پارٹیوں میں بھی دوقسم کی پارٹیاں ہیں۔برہمنی پارٹیاں اور غیر برہمنی پارٹیاں۔
غیر برہمنی سیکولر پارٹیاں اگر با اختیار ہوں تو مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں کرتیں,بلکہ ان کے ساتھ ظاہری طور پر رحم و مہربانی کا سلوک کرتی ہیں,لیکن اپ کو اپ کی ابادی کے مطابق ہر محکمہ میں حصہ داری نہیں مل سکتی۔وہ برادریانہ پارٹیاں ہیں۔اپنی برادری کے مفادات کی تکمیل کریں گی۔اپ کو صرف اتنا ملے گا,جتنے میں اپ کا منہ بند ہو جائے۔
بھارت میں مسلمانوں کو اسی وقت مناسب حقوق مل سکتے ہیں جب یہاں بہوجن سماجی سیاست کو فروغ ملے۔اس کے فروغ ملنے پر برہمنی سیاست کا سورج گہن زدہ ہو جائے گا,لیکن اس سیاست کو کچلنے کے لئے برہمنی تھنک ٹینک بھی میدان میں موجود ہے اور غیر برہمنی برادریانہ پارٹیاں بھی کچھ تکلیف محسوس کرتی ہیں۔
بہوجن سماجی سیاست اگر فروغ پاتی ہے تو مسلمانوں کو بہت سے حقوق مل سکتے ہیں,ورنہ روز بروز حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
مسلم سیاست کا خواب ہی غلط ہے۔برادریانہ پارٹیاں اس لئے کامیاب ہیں کہ بہت سی دیگر غیر مسلم برادریاں ان کو ووٹ دیتی ہیں,مثلا لالو پرساد یادو کو یادو برادری کے علاوہ دیگر پرادری کے لوگ بھی ووٹ دیتے ہیں۔برادریانہ پارٹیاں دیگر برادری کو اپنے ساتھ کر لیتی ہیں۔
مسلم پارٹیاں غیر مسلموں کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔اگر وہ سب کو سیاسی سطح پر اپنے قریب کرنے میں کامیاب ہو جاتیں تو یہ برا دن دیکھنے کو نہ ملتا۔
بعض مسلم سیاسی پارٹیاں ازادی ہند کے بعد سے متحرک ہیں,لیکن ان کا سیاسی دائرہ وسیع نہ ہو سکا۔انڈین یونین مسلم لیگ کی تاریخ دیکھ لیں۔
آج بہار اسمبلی الیکشںن: 2020 کا رزلٹ ہے۔اہل بہار ہمیشہ نئی بہار کی تلاش میں رہتے ہیں۔اج دیکھنا ہو گا کہ بہار میں کتنی پتنگ اڑتی ہے۔کتنی لالٹین جلتی ہے اور کتنے پنجے بلند ہوتے ہیں۔
کمل کا پھول بہار کی تہہ دار کیچڑ میں پھنس چکا ہے۔اج وہ کیچڑ سے باہر اتا ہے,یا کیچڑ میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔بس چند گھنٹوں میں معلوم ہو جائے گا۔ابھی تو سب انتظار میں ہیں۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ تیر کا زمانہ چلا گیا۔
آج چند گھنٹوں میں بتا دے گا یہ نتیجہ
کرسی پر چچا بیٹھے گا یا اس کا بھتیجہ
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر : ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع