از قلم :: طارق انور مصباحی ( کیرلا)۔ بہار الیکشن اور مسلم قیادت
بہار الیکشن اور مسلم قیادت
دہلی اسمبلی الیکشن:فروری2020 میں مسلمانوں نے متحد ہو کر انتہائی مشقت وجاں فشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو فتح دلائی۔08:فروری کو ووٹنگ ہوئی اور 11:فروری کو نتیجوں کا اعلان ہوا۔
چند دنوں بعد ہی 23:فروری کی شام سے دہلی میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے۔ان فسادات کو روکنے میں کیجریوال حکومت نے کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔اس کا مکمل احساس مسلمانوں کو بھی ہے۔
گرچہ دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے زیر انتظام ہے,لیکن کیا ریاستی حکومت کو وزارت داخلہ سے ریکویسٹ کرنے پر پابندی عائد تھی؟ یا معاملہ کچھ اور تھا؟
دراصل ایمرجنسی:(26:جون1975 تا 21:مارچ 1977) کے بعد بھارت کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا تھا۔
1977 کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس ہار گئی۔ایمرجنسی کے وقت ہی سے کانگریس کی مخالفت اور کانگریس کی آئیڈیا لوجی کی بھی مخالفت ہو رہی تھی۔
کانگریس ایک برہمنی پارٹی ہے,لیکن خفیہ ہندتو کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔سخت گیر ہندؤں نے اعلانیہ ہندتو کی راہ اپنائی اور 1980 میں جن سنگھ پارٹی کی جگہ بی جے پی کا قیام ہوا۔
فرقہ پرستانہ ذہنیت کے بالمقابل رفتہ رفتہ غیر برہمنی اقوام یعنی اوبی سی
(OBC)
ایس سی اور ایس ٹی کی متعدد پارٹیاں وجود میں آئیں۔اس وقت غیر برہمنی پارٹیوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم نہ کیا,بلکہ ظلم وستم سے بچانے کی کوشش کی۔
غیر برہمنی پارٹیوں کے عہد حکومت میں بھی مسلمانوں کو خاطر خواہ حقوق نہ مل سکے, کیوں کہ یہ سب برادریانہ پارٹیاں تھیں اور سب کو اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ضروری تھا۔
دھیرے دھیرے برہمنوں نے ان غیر برہمنی پارٹیوں میں بھی ہندتو کا زہر پھیلا دیا۔لالو پرساد یادو کی حکومت بہار میں پندرہ سال(1990 تا 2005)رہی۔اس پندرہ سالہ مدت میں بہار میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے۔
اسی عہد میں 1992میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ درپیش ہوا۔ملک بھر میں جا بجا فسادات ہوئے,لیکن بہار میں امن وامان قائم رہا۔
ملائم سنگھ یادو کے عہد حکومت میں بابری مسجد کے گنبد پر چڑھ کر اسے منہدم کرنے والوں کو اپنی زندگی بچانی مشکل ہو گئی۔
لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔غیر برہمنی پارٹیاں بھی مسلمانوں کے حق میں مخلص نہیں۔گرچہ فرقہ پرست پارٹیاں مزید ظلم وستم ڈھاتی ہے۔
بہار میں مہا گٹھ بندھن کی شکست پر مسلمانوں کو سوگ منانے کی ضرورت نہیں۔مہا گٹھ بندھن کی موجودہ حکومت بن بھی جائے تو کیجریوال حکومت کی طرح ہو گی۔
آج کے راجد,بسپا,سپا اور لوجپا وغیرہ کل کے راجد,بسپا,سپا اور لوجپا وغیرہ کی طرح نہیں۔
مجلس نے سیمانچل میں پانچ سیٹ جیتی ہے۔اس کا خیر مقدم ہے۔دیگر ریاستوں میں بھی مجلس کو اپنے چند امیدوار نامزد کرنا چاہئے۔مسلم قیادت ضروری ہے,تاکہ مسلمانوں کی حصہ داری اور بھارت میں برابر درجہ کے شہری ہونے کا احساس مسلم وغیر مسلم سب کو ہوتا رہے۔
موجودہ حالات میں مسلم قیادت کی بھی سخت ضرورت ہے۔چوں کہ ایسے مواقع پر بلا تفریق مسالک تمام کلمہ گو متحد ہو جاتے ہیں تو سیاسی محاذ پر اتحاد کے شرعی احکام بھی مرتب ہونے چاہئے۔
اگر دنیاوی امن و امان کو پانے کے لئے آخرت کا امن وسکون قربان کرنا پڑے تو یہ بدترین خسارہ ہے۔ان شاء اللہ تعالی اس تعلق سے ضروری ہدایات لکھ دوں گا
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شرہعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع