تحریر:محمد اورنگ زیب عالم مصباحی حافظ ملت زہدو تقوی کے عظیم پیکر تھے
حافظ ملت زہدو تقوی کے عظیم پیکر تھے
بلاشبہ ہمارے اکابرین کی زندگیوں کے مختلف گوشے ہوتے تھے اور ہر گوشہ روشن و تابناک ہوتا تھا مثلاً تعلیمی مساعی، اصلاح ملت میں گراں قدر خدمات، اتحاد امت مسلمہ میں اہم کردار، تقوی شعاری اور پرہیزگاری وغیرہ یہ وہ روشن وتابناک گوشے ہیں جو ناقابل فراموش ہیں مگران میں تقوی و پرہیزگاری کو امتیازی مقام حاصل ہے کیونکہ ان تمام خدمات و مساعی کا اصل یا مجموعہ ہے۔
تعلیمات قرآنی کا اصل الاصول اور مقصود بھی تقویٰ ہی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے” انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم “(الحجرات ،13) ترجمہ:تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ تقوے والا ہے،تقوی کا شرعی واصطلاحی معنی اللہ سے ڈرنے
اس کے حدود کی پاس داری کے ہیں،پس متقی وہ ہے جو الحاد اور کفر و شرک اور کبائر سے قطع نظر صغائر اور فضول و لایعنی افعال و اقوال حتی کہ شبہات سے بھی پرہیز کرے۔اور یہ ساری صفات ابو الفیض حضور حافظ ملت عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ میں بدرجہ اتم موجود تھی،آپ ایسے پائے کے متقی تھے جو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ،
وقت کی پابندی
آپ وقت کے انتہائی پابند اور قدر داں تھے آپ کا ہر کام وقت معیّنہ پر ہوتا تھا (یعنی کاموں کے لیے شیڈول بناتے تھے)مثلا نماز باجماعت کی پابندی ،وقت درس کا خاص خیال، درس و تدریس میں انہماک، بعد نماز عشاء کتابوں کا مطالعہ پھر ان کا معمول یہ بھی تھا کہ تقریبا گیارہ بجے سو جایا کرتے اور آخر شب اٹھ کر تہجد پڑھتے اور ہاں! رات بھر جگنے کے باوجود بھی فجر میں باجماعت نماز ادا فرماتے (ماخوذ:فیضان حافظ ملت ص۱۲)۔
سادگی
جہاں پابندی وقت علامت تقوی سے ہے وہیں ایک علامت سادگی بھی ہے، آپ کی زندگی انتہائی سادہ اور پرسکون تھی اندرون خانہ آپ کی سادگی کا حال یہ واقعہ بھی وضاحت کرتا ہے کہ آپ کی بڑی صاحبزادی نے رات کے کھانے کے لیے آپ کو روٹی اور دال پیش کیا
کم روشنی کی وجہ سے آپ دال کو دیکھ نہیں پائے اور صرف سوکھی روٹی کھا کر پانی پی لیا اور پھر کھانے کے بعد دعا پڑھنے لگے، صاحبزادی نے عرض کیا، ابا جان!آپ نے دال نہیں کھائی؟ آپ نے متعجب لہجے میں فرمایا اچھا! دال بھی ہے میں نے سمجھا آج صرف روٹی ہی ہے (سابق ص۱۶)۔
حدیث پاک کی عملی تصویر
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وسلم کا فرمان عالیشان ہے”وانّ احب الاعمال الی اللہ ادوَمُھا واِن قلّ”(بخاری شریف،حدیث نمبر:٦٤٦٤) ترجمہ:اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جو پابندی سے ہو اگرچہ کم ہو ،حافظ ملت اس حدیث پاک کی عملی تصویر تھے،چناں چہ آپ بچپن ہی سے فرائض و سنن کے پابند تھے اور بعد بلوغ تہجد بھی شروع کردی جس پر تاحیات عمل پیرا رہے(سابق ص۱۷)۔
آپ اپنے معیار تقوی پر کھرے اترے
آپ کا تعارف اس وقت تک نامکمل رہتا ہے جب تک آپ کو ایک مومن کامل نہ کہہ لیا جائے کیوں کہ تجلیات ایمانی کی پرتو افشانی سے آپ میں وہ نکھار پیدا ہو گیا تھا جس نکھار کا معیار خود آپ کے ہی یہ الفاظ بتاتے ہیں “نور ایمان سے جب مومن کا دل جگمگا اٹھتا ہے تو اس کا پاکیزہ اثر روحانیت پر اس درجہ ہوتا ہے کہ روح مرتبۂ کمال پر پہنچتی ہے، حیوانیت و درندگی دور اور لوازم ہیبت کافور ہو جاتے ہیں
اس وقت انسان اخلاق حمیدہ سے آراستہ و پیراستہ ہو کر انسان کامل ہو جاتا ہے اور اپنے خالق و مالک کو خوب پہچانتا ہے، اسی کی طاعت و عبادت میں لذت پاتا ہے، پیکر اخلاق بن جاتا ہے، جو کام کرتا ہے رضائے الٰہی اور خوش نودئ خداوندی ہی مقصود ہوتی ہے
زبان اور ہاتھ ہی کیا جسم کے تمام اعضاء حکم الہی کے ماتحت ہی کار فرما رہتے ہیں ،ہر حرکت و سکون خشنودئ معبود ہی کے لیے ہوتا ہے(معارف حدیث صـــ٢٥،بحوالہ حافظ ملت نمبر قدیم) اگر آپ ان جملوں کی تہ تک جاتے ہیں تو احساس ہوگا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کے پیکر جسدی میں یقینا ایک ایسی سعید روح جلوہ گر تھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی رضائے الہی کیلئے وقف تھی اور وارث علوم انبیا و حامل اخلاق نبی کے بلحاظ سچے نائب رسول تھے ۔
آپ کی سب سے بڑی تمنا
آپ فرماتے ہیں” میری سب سے بڑی تمنا رضائے الہٰی و رضائے رسول ہے ، نماز میں درود شریف کے بعد پڑھنے کی مجھے بڑی بڑی دعائیں یاد ہیں مگر میں یہ مختصر دعا پڑھتا ہوں”ربنا اٰتینا تا آخر” پھر اس کے تحت فرماتے ہیں کہ حسنہ کے بہت معانی ہیں مگر میں اس سے رضائے الٰہی و رضائے رسول مراد لیتا ہوں، میرے نزدیک اللہ و رسول کی رضا کے سامنے جنت ہیچ ہے (ملفوظات حافظ ملت صــ١١٢/١١٣)۔
نماز تہجد کے پابند
حضرت مولانا نصیر الدین صاحب قاری عبدالحکیم کے بنسبت بیان فرماتے ہیں”کہ رات کا وقت تھا ہر متنفس اپنے آرام کی فکر کر رہا تھا مگر ایک وارفتہ جگر درویش کو اپنے آقا سے محو رازونیاز ہونے کا موقع اب میسر آیا تھا۔
اسی وقت قاری عبدالحکیم صاحب قبلہ دبے قدم حجرہ شریف میں داخل ہوئے سلام و نیاز سن کر امام العرفاء ابو الفیض عالم مشغولیت سے عالم توجہ میں آگئے اور محبت و شفقت کے ساتھ قاری صاحب کو اپنے پاس بیٹھایا ،معمول کے مطابق خیریت دریافت کی اور فرمایا “قاری صاحب! دل کا وہ آبگینہ بڑا قیمتی ہوتا ہے جو داغ عشق رسول سے منور ہو جاتا ہے
بلا شبہ نماز تہجد معراج عشق و محبت کا زینہ ہے، رکعتوں کے تعین میں شہنشاہ قلوب صلی اللہ علیہ وسلم سے روایتیں متعدد ہیں ،مگر بزرگوں کے معمول سے آٹھ کو ترجیح حاصل ہے اور یہی میرا بھی معمول ہے ۔
قاری صاحب بغیر درخواست کیے جواب سن کر حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے (سابق ١١٤)۔
سنـــہ ١٣٩٦ھ ٢٩رجب کو رویت ہلال میں اختلاف رہا حضرت پندرہ شعبان کو جمشید پور خطاب کے لیے مدعو کیے گئے آپ نے شب برات کی فضیلت پر زبردست خطاب فرمایا
اسی ضمن میں آپ نے فرمایا “ان عظیم فوائد کے پیش نظر شب برات میں ١٠٠ رکعت نماز پڑھ لینی چاہیے اسے پڑھنے میں زیادہ وقت درکار نہیں بس ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے ،میں اس نماز کا پابند ہوں امسال شب برات میں اختلاف رہا تو میں نے کل بھی ١٠٠رکعتیں پڑھیں اور آج بھی پڑھیں (سابق ١١٥)۔
اس طرح کے بے شمار واقعات اور خود آپ کے ہی بیانات ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ شخصیت ساز استاد کے ساتھ ساتھ تقوی ، طہارت اور زہد میں اعلی مقام پر فائز تھے
تحریر: محمد اورنگ زیب عالم مصباحی
گڑھوا جھارکھنڈ ( رکن: مجلس علماے جھارکھنڈ)۔
ان مضامین کو بھی پڑھیں