از: مفتی وجہ القمر رضوانی (اڈیشا) سلطان الہند کا تبلیغی مشن
سلطان الہند کا تبلیغی مشن
یہ تحریر خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند نمونہ اسلاف الحاج مفتی محمد وجہ القمر رضوانی صاحب قبلہ قاضی اڈیشا نے 1988ء میں رقم فرمایا تھا جو اس وقت کے ماہنامہ (نور مصطفی پٹنہ) میں شائع بھی ہوا۔ مضمون کی افادیت و معنویت کے پیش نظر حضرت کی اجازت سے شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
آج سے صدیوں پہلے کا بھارت کیا تھا کیسا تھا اسے دریافت کرنے کے لیے تاریخ کے اوراق گردانی کی ضرورت ہے ۔ نظر تیز کیجیے اور صفحات الٹیے یہ وسیع و عریض بھارت، یہ طول طویل ملک ہند، اونچے اونچے پہاڑوں کی قطاروں سے بھرا پڑا کشور، یہ عظیم و مہیب بل کھاتے لہراتے موج تلاطم بپا کرتے ہوے دریاؤں کا دیش، آغوش بحر میں آباد بھارت ۔
جہاں سحر افشانی، جادوگری، صنم پرستی، توہم گیری تھی۔ سارے کوہسار و دمن ، دشت و چمن ، ابالیان وطن ، حقیقت الہ ، رمز وحدانیت ، مقصد خلقت اور منشاے بعثت سے نابلد و ناآشنا تھے ۔ جہالت اور کج روی میں اہل ہند کا رویہ باشندگان عرب سے کچھ کم نہیں تھا یہاں بھی لوگ پہاڑوں کو خدا بنائے ہوے تھے ۔ شمس و قمر اور نجوم کو سلامی پیش کرتے تھے۔ یہاں بھی انسان نہر و بحر کو معبود گردانتے تھے۔ یہاں کے باشی دیوی اور دیوتاؤں کے باشی تھے۔
عوام ناقوس ، گھنٹا ، ڈھول ، تبیلا اور ڈمرو جیسی واہیات آلات سے شور و ہنگامہ کرکے دن رات بھگوان کی بھجن میں لگے رہتے تھے۔
یتیموں کا حق ڈکار لیا جاتا تھا۔ بیواؤں کی ستی کی جاتی تھی۔ غرض کہ بھگتوں کی بڑی آہ و بھگت تھی برہمنوں اور پنڈتوں نے اوتار کی روپ کا بہانہ بناکر سلاطین وقت کے دلوں میں عہدہ دیر پر پورا قبضہ جمالیاتھا۔
اہل ہند کی زبوں حالی پر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اس کی بیدار بختی کا سامان ارض بطحا کے شہنشاہ، عرب و عجم کے رہنما ،سید الانبیاء کی بارگاہ ناز و عرش ذی جاہ میں فروکش معین الدین کی صورت میں ہویدا ہوا حضرت خواجہ کے لیے وہ لمحات نہایت بیش قیمت جان بخش اور کیف آگہی تھے جو جوار رحمت کے قریب میں گزر رہے تھے ۔
عاشق رسول کے لیے روضہ رسول کی حاضری سے بڑھ کر اور مسرت خیز لمحہ ہو بھی کیا سکتا ہے وہ تو جان نے مراد کی دہلیز دولت زندگی نچھاور کرنے کا جذبہ لے کر گئے تھے مسیحائے دو عالم کی جوار رحمت میں حیات کی آخری گھڑی قربان کرنے کا شوق لیے جی رہے تھے گوشۂ چشم دیدار قدس کی رعنائیاں بسائے وقت گزار رہے تھے اور بساط قلب پر ہر آن جمال محبوب جلوہ آرائیاں سجائی زندگی بسر فرما رہے تھے۔
ان کی آرزو تھی ہم ہوں اور محبوب کی گلیاں ہو ہماری نگاہیں ہواور رشک فردوس گنبد خضری کا نظارہ ہو ہماری پیشانی ہو اور جان کی مبارک چوکھٹ ہو لیکن مشیت انہیں کسی اور ہی خطہ کے لیے منتخب فرما چکی تھی ۔ قدرت انہیں سلطان الہند مقرر کرچکی تھی۔
اس لیے دیار حبیب میں رہ بھی کیسے سکتے تھے ۔ بھارت باشیوں کی صلاح و فلاح کا پروانہ مالک کون و مکان کے ایوان عالی شان منزل خود نشاں سے جاری ہوا میرے معین اب تمہیں میرا قرب و جوار چھوڑ کر اہل ہند کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے کوچ کرنا ہے ۔
نغمۂ توحید کی اشاعت اور عظمت رسالت کی پرچم کشائی کے لیے مدینہ سے ہجرت کرنا ہے یہ فراق و جدائی کی بشارت خرمن عشق و الفت اور دل شیدا پر بجلی بن کر گری اور ہجر و جدائی کے سارے جان گس مناظر نے ذہن و فکر کو ژولیدہ کردیا مگر رہنمائے صادق کی تسلی کے لیے یہ مژدہ مسرت خیز تھا کہ اشاعت دین اور تبلیغ اسلام کا منصب جلیل کار جمیل عہدۂ نبیل بانی اسلام کی زبان فیض ترجمان سے ملاتھا ۔
تصورات کی دنیا اس نشان منزل کی جستجو کررہی تھی اس دیس اس ملک اس سلطنت و حکومت کی راہیں کس جانب سے گزرتی ہیں اور کن مراحل سے طے ہوتی ہیں ۔
رحمت عالم نے عالم رویا میں جلوہ گری فرماکر آرزوئے شوق کی تکمیل فرمائی اور سارے معاملات آن واحد میں اجاگر فرمادیے۔
رہ نماے عالم پیشوائے دوعالم جن کی رہبری فرمائی اسے کلفت سفر کا خیال ہی کب آئے گا مگر خواجۂ ہند کی اولوالعزمی عالی ہمتی کی داد دیجیے کہ اتنے بڑے ملک کی رشدو ہدایت کے لیے روانگی ہو رہی ہے۔
مگر جمیعت وجماعت کا شکوہ تنہائی و یگانگی کا گلہ اور لشکر وسپاہ کی حمیت و معیت کا سوال نہیں فرمائے ۔
میں اکیلاہی چلاتھاجانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتاگیا
اشک بار آنکھوں اور چھلکتے پلکوں سے دیار رحمۃاللعالمین کو الوداع کہا، نظر عقیدت سے دروالا کا بوسے دیے اور اس جانب روانہ ہوگئے جدھر سرور کون و مکاں نے اشارہ فرمایا۔ شبانہ روز کی منزلیں طے کرنے کے بعد آخر ایک دن دربار گنجبخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ فیضان میں وارد ہوئے روضہ کی جاذبیت کہہ لیجیے یا صاحب مرقد کی قوت روحانیت کہیے مزار پرانوار پر کچھ ایسی دل کشی و جمال و عرفان کی بارش ہو رہی تھی۔
کہ فیض کا دریا موجزن محسوس ہوتا تھا اسی جلوہ آرائی نے آپ کو چند روز رکنے پر مجبور کر دیا گنج بخش کی عنایتوں نے جب آپ کے دریائے دل کو لبالب کر دیا تو پھرعازم سفر ہوگئے۔
خطۂ ہند میں قدم رنجہ فرمانے سے قبل چند پاک طینت نیک خصلت صالح سیرت نفوس قدسیہ شریک کارواں ہوگئے تھے درویشوں اور مسافروں کا یہ مبارک قافلہ جب بھارت کے حاشیہ سے گزرنا شروع کیا تو وادیوں نے خیرمقدم کیے سنگریزے استقبال کے لیے بڑھے غریب الوطن کی خاطر کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں تھا
اور قدم رکھنے کی جا بھی نہیں لیکن اللہ والے عارضی قبضہ و تصرف کرنے والے کو کب خاطر میں لاتے ہیں وہ تو پوری روئے زمین کو خدا کی ملکیت سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے جہاں قدم رکھا خدا کی زمین کو یاد الٰہی سے معمورو آباد کر دیا ۔
مست جوجام اٹھا لے وہی پیمانہ بنے
جس جگہ بیٹھ کے پی لے وہی میخانہ بنے
اشارہ باطنی کے تحت پتھورا کی راجدھانی اجمیر میں انا ساگر کے قریب خواجہ وطن اپنے احباب کے ساتھ فروکش ہوئے اور یہیں سے رشدو ہدایت کا آغاز فرمایا مرد فقیر و بوریہ نشیں کو شاہی طاقت لشکر و سپاہ کا ترنگ دکھا کر رخصت ہونے کا پیغام سناتی ہے۔
پھر درویشی و شاہی میں مسلمانی و جادوگری میں قوت کا تقابل ہوتا ہے یہاں تک کہ ظلمت و ضلالت کی شکست ہوتی ہے اور جیپال جیسا کاہن جادوگر پائے خواجہ پر نچھاور ہو کر کلمہ توحید کی نورانیت سے آشیانہ دیجور کو جگمگاتا ہے۔ والی ہند کی دنیائے کفر وجہاں پر یہ پہلی باطنی روحانی کا میابی تھی !۔
اس میں تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں کہ حضرت معین الہند ایک بہت ہی عالی مرتبت خدا رسیدہ ولی کامل، درویشی میں باکمال اور ملک و قوم کے بہترین مبلغ و مصلح تھے۔ انہی کی جدوجہد اور کاوش کا نتیجہ ہے کہ ارض ہند پر مسجد کے مینارے نظر آتے ہیں جہاں سے روزانہ نماز پنجگانہ کے لیے صدائے اذان بلند کی جاتی ہے۔
آپ نے ترک وطن فرما کر ہجرت کی لذت چکھی اور فیضان کا ایسا دریا بہایا کہ اکناف و اطراف ملک کے اکثر بیمار دل آپ کے مسکن پر قدم بوسی کے لیےکشاں کشاں آنے لگے۔
آنے والوں کی زیادہ تر نگاہیں جونہی جگ جوت کی موہنی صورت پر پڑتی تھی من بیاکل ہو جاتا ہےاور جان و جگر قابو میں نہیں رہتے دل وجاں سب آپ پر واری کر کے حلقہ اسلام میں داخل ہو جاتے آخر کا ایک وہ دور بھی آیا جب حضرت خواجہ کی روحانی کشش نے سارا ہندوستان سمیٹ لیا ملک ہند کا گوشہ گوشہ فطرت زناری اور عادت زندیقی سے منہ موڑ کر نغمہ توحید کا وارفتہ ہوگیا۔
سلطان الہند کی نظر کیمیا اثر نے وہ کمال کیا کہ کفر کی بلاخیز تاریکی چشم زدن میں کافور ہوگئی اور نور اسلام سے صنم پرستوں کا دل سفید واجلا ہوگیا بہترے کو عطائے رسول نے مذہب حق کا ایسا شیدائی بنایا جو فضائے روحانیت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے خانقاہوں کی حلقہ آرائی دانش گاہوں کی علمی رعنائی اور مدرسوں کی دینی پڑھائی نیز خطیبوں کی شعلہ نوائی سب دین ہے بھارت کے راجا حضرت کا ورنہ۔
ایسا کہا ں بہار میں رنگیوں کاجوش
شامل کسی کا خون تمنا ضرور ہے
ایک مرد کامل نے کفر و نفاق کی رو سیاہی پر اسلام کا تابندہ غازہ مل دیا۔ شرک و بت پرستی کے جاہلانہ طوفانی زد پہ شمع اسلام فروزاں کیااوھام کے پجاریوں کے دلوں کونور ایمان سے منور و مجلی کردیا۔
شوریدہ دل اورکورمزاج بندیوں کو علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ عطا فرمایا حاجت مندوں اور مفلوک الحالوں کی وہ حاجت روائی فرمائی کہ غریب نواز کہلائے شریعت وریقت کا ایسا درس دیا کہ سلطان المشائخ کہے جانے لگےجب نبی ﷺ کا ایسا مست وشیریں جام پلایا کہ جو تیری بزم سے اٹھا سرشار اٹھا ۔
کیا بتاؤں وہ کن کن خوبیوں کے حامل تھے جو زمین سے آئے تھے ، وہ خوبیوں والے آقاکے جوارامین سے آئے تھے بہت ساری خوبیاں لے کر آئے تھے۔
تحریر: خلیفہ مفتی اعظم ہند الحاج مفتی محمد وجہ القمر رضوانی (قاضی اڈیشا)
خانقاہ عالیہ قادریہ رضوانیہ، نان پور شمالی، سیتامڑھی(بہار)
ان مضامین کو بھی پڑھیں
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیمات کی ایک جھلک
اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں