تحریر: ابوحمزہ محمد عمران مدنی قرآن و سنت میں ذکرِ موت کی حکمتیں
قرآن و سنت میں ذکرِ موت کی حکمتیں
پیارے دوستوں !یہ ایک حقیقت ہے کہ موت کا ذِکر دارِ فانی یعنی دنیا سے بے رغبتی ،اور دارُالبقاء یعنی آخرت کی طرف ،ہر لحظہ متوجّہ رہنے کا شعور پیدا کرتا ہے۔ اور انسان کی ہمیشہ سے دو حالتیں رہی ہیں
خوش حالی اور تنگی اورراحت و مشقّت ۔پھر اگرانسان نے تنگ دستی اور مشقّت کی حالت دیکھی ہو تو اُس پر موت کو یاد رکھنا آسان اور سہل ہوجاتا ہے؛کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو آخرِ کار زوال ہے ۔موت اللہ کا سچّا وعدہ ہے یہ دیناوی مصائب وآلام جو موسلا دھار بارش کی طرح پیہم برس رہے ہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہے
بالآخر موت اِن مصیبتوں سے نجات دلائے گی ،اور اللہ تعالی کی رضا اور خوش نودی کا پیغام لے کر آئے گی ۔اگر اس دارُ الامتحان میں وقتی مشقتّوں کو برداشت کرلیا اور اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبداری پر ڈٹا رہا
تو انجامِ کار یہ ہوگا کہ موت امن وسکون ،راحت ومسرّت کا سامان لے کر آئے گی ۔یوں پہاڑ جیسے آلام بھی مسلمان کے پائے استقامت میں لغزش آنے نہیں دیتے ، وہ دنیاوی ساز و سامان سے محرومی پر شکوہ شکایت نہیں کرتا بلکہ وہ محبِّ صادق کی طرح اپنے محبوب (موت) سے ملنے کی تیّاری میں مشغول رہتا ہے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص خُدا سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ تعالی بھی اس ملاقا ت کو محبوب رکھتا ہے۔ ) صحیح البخاری ، کتاب الرّقاق ،باب من أحبّ لقاء اللہ۔ إلخ، برقم :۶۵۰۷،ص ۱۱۸۶ (
اور جب انسان خوش حالی اور آرام میں ہوتا ہے تو عمومی طور پر وہ موت سے غافل ہوجاتا ہے پس راحت و خوش حالی کی حالت میں بندہ جب موت کا ذکر سنتا ہے تو دنیاوی نعمتیں اُس کے سامنے مکدّر ہوجاتی ہیں ۔ وسیع وعریض کمرے میں بھی اُسے گھٹن کا احساس ہوتا ہے ۔
آرام دہ اور نرم بستر پر بھی وہ کروٹیں بدلتا رہ جاتاہے۔یادِ موت کی تیز تلوار اُس کے اوپر تنی غفلت کی چادر کو تار تار کردیتی ہے ۔بندہ دنیا کے سحر سے آزاد ہوجاتا ہے ۔دنیا کی حقیقت اُس کے سامنے آجاتی ہے ۔تو یوں یادِ موت مطیعین کے لیے سامانِ راحت، اور غافلین کے لیے تازیانۂ عبرت ہے ۔
بقولِ شاعر: اُذْکُرِالْمَوْتَ ھَادِمَ اللَّذَّاتِ… وَتَجَھَّزْلِمَصْرَعٍ سَوْفَ یَأْتِي
لذّتوں کو توڑنے والی چیز’’موت‘‘کو یاد رکھو! اورموت کی تیاری کرلو ، جو عنقریب آنے والی ہے۔
وَاذْکُرِ الْمَوْتَ تَجِدْ رَاحَۃً …..فِیْ إِذْکَارِ الْمَوْتِ تَقْصَیْرُ الْأَمَلِ
موت کویاد کرتجھے راحت ملے گی اور موت کو یاد کرنے سے خواہشات میں کمی ہوگی۔)التّذکرۃ، ص۱۰،۹ )
کسی شاعر نے کہاہے:أَذْکُرُالْمَوْتَ وَلَا أَرْھَبُہٗ…..أَنَّ قَلْبِیْ لَغَلِیْظٌ کَالْحَجَرِ
میں موت کا ذکر کرتا ہوں، مگر میں اس سے نہیں ڈرتا ۔یقینََا میرا دل ،پتھر کی طرح سخت ہوگیا ہے۔
أَطْلُبُ الدُّنْیَاکَأَنِّیْ خَالِدٌ ….. وَوَرَائِیَ الْمَوْتُ یَقْفُوْ بِالْأَثْرِ
میں دنیا کی طلب میں اس طرح لگا ہوں ،کہ گویا مجھے ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے حالانکہ موت سائے کی طرح میرے پیچھے لگی ہوئی ہے۔
وَکَفٰی بِالْمَوْتِ فَاعْلَمْ وَاعِظًا…..لِمَنِ الْمَوتُ عَلَیْہَ قَدْ قُدِرْ
جان لیجیے کہ جس کے لیے موت کا آنا مقرر ہو، اس کے لیے تو ڈر سنانے اور نصیحت کرنے کو موت ہی کافی ہے۔
وَالْمَنَایَاحَوْلَہٗ تُوْصِدُہٗ …..لَیْسَ یُنْجِی الْمَرْئُ مِنْھُمْ الْمَفَرُّ
موتیں انسان کے چاروں طرف گھات لگائے بیٹھی ہیں ،کہ کسی ذی روح کا اُن کی پکڑ سے بچ کر بھاگ نکلنا ممکن نہیں۔(التّذکرۃ ،ص۲۲)۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی مقدّس کتاب قرآنِ مجید میں موت وحشر کا بیان مختلف طُرُق سے فرمایا ہے ، کسی مقام پر خوش خبری سُنا کر موت آنے ،حساب کے لیے جمع کیے جانے کا ذِکر کیا ۔ تو کسی مقام پر زجر و تو بیخ کرتے ہوئے ،ڈراتے ہوئے ، موت لاحق ہونے ،بعدِ مرگ زندہ کئے جانے کا ذِکر کیا ۔
اس کی حکمت سے تو اللہ تعالی ہی واقف ہے ، لیکن ایک مسلمان جب دعوتِ خُداوندی پر لبیّک کہتے ہوئے اِن آیاتِ قرآنیہ کے پیشِ نظر:ترجمہ: اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم ان میں غور وفکر کرو۔ )البقرۃ: ۲/۲۱۹( ترجمہ: یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اُتاری ،برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں ،اور عقلمند نصیحت مانیں۔ ) ص:۳۸/۲۹ )۔
جب بندہ عقل کی سواری کو شریعت کی لگام دے کر،غور وفکر کے میدان میں اُترتا ہے۔ تو اُسے اپنے ظرف کے مطابق حکیم ِ مطلق کی حکمتیں سیاہ بادلوں کی چادر کے اطراف میں موجود چمکدار وروشن ستاروں سے بھی زیادہ ظاہر وبیِّن نظر آتی ہیں۔
کسی مقام پر اللہ عزّوجلّ نے مکلَّف کو اِس بات کی خبر دی کہ اچھا ، بُرا جوبھی عمل تم کررہے ہو ، ہم اُس سے بخوبی واقف ہیں ۔ تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ تمہیں موت سے ہمکنار ہونے کے بعددارِ آخرت میں دیا جائے گا ،کسی پر ظلم کرنا اللہ تعالی کی شان نہیں ۔
کہیں پر یہ باور کرایا کہ موت سے فرار نہیں، ہر ایک کو موت کا جام پینا ہے ۔جو دنیا میں ہمارے احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہیں
ہمارے فرامین کا مذاق بناتے ہیں ہمارے طاعت گزار بندوں کو تکالیف پہنچاتے ہیں۔جو دنیا کی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار سے مبہوت ہیں ،جوحقّ کے ساتھ باطل کو ملاتے ہیں انہیں بھی وادیٔ موت میں داخل ہوناہے۔
موت دھوکا میں مبتلا افراد کو ہلا کر رکھ دے گی ،موت آنے کے بعد وہ اپنے کئے پر لاکھ سر پٹخیں واپس دنیا میں آکر اپنا حال سدھارنے کی قسمیں کھائیں موت سے ہمکنار ہونے کے بعد اب واپس دنیا میں آنا نہیں ہوگا ۔
کسی مقام پر اِس حقیقت کوبیان فرمایاکہ جوایمان لاتے اور ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہیں وہ بھی لحوقِ موت کے عموم سے مستثنیٰ نہیں۔جو دنیامیں ہمارے احکامات کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں،ہماری رضا کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل پر مقدم رکھتے ہیں،ہماری خوش نودی کی خاطربرضا ورغبت میدانِ کارزار میں اتر جاتے ہیں، کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کے لیے اپنی جا نوںکا نذرانہ پیش کرتے ہیں
دنیا لاکھ بناؤ سنگھار کرکے ،نت نئے حیلوں کے ساتھ اُن کے پاس آئے وہ اس کی طرف دیکھنا گوارہ نہیں کرتے، جو میرے دین کی سر بلندی کے لیے اپنے آراستہ گھروں کو ، آرام دہ بستروں کو
پھلوں سے لدے باغات کو ، خوب صورت اور جوان بیویوں کو ، اپنے نومولود بچوں کو فراموش کردیتے ہیں ۔ جو حقّ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے ، جنہیں دنیا اور اُس کی آرائشیں اپنی طرف مائل نہیں کرسکتیں انہیں بھی بالآخر موت آجائے گی ۔
اب ہم بطورِ عبرت ونصیحت چند آیاتِ قرآنیہ نقل کرتے ہیں جن میں اللہ تعالی نے مختلف پیرایوں میںموت کا بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی اِن فرامینِ صادقہ کی برکت سے ہماری غفلتوں کو دُور فرمائے !ترجمہ: توکیسی ہوگی ؟۔
جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے ، اُس دن کے لئے جس میں شک نہیں ۔اور ہر جان کو اس کی کمائی ، پوری بھردی جائے گی ۔ اور اُن پر ظلم نہ ہوگا ۔)آل عمران:۳/۲۵(ترجمہ: اور کوئی جان ، بے حکم خدا مرنہیں سکتی ۔ سب کا وقت لکھا رکھا ہے۔ اورجو دنیا کا انعام چاہے ،ہم اس میں سے اُسے دیں ۔
اور جو آخرت کا انعام چاہے ، ہم اس میں سے اُسے دیں ۔اور قریب ہے کہ ہم شکر والوں کو صلہ عطا کریں ۔ )آل عمران:۳/۱۴۵(ترجمہ: اور بے شک ! اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ،یا مرجاؤ ،تو اللہ کی بخشش اور رحمت اُن کے سارے دَھن دولت سے بہتر ہے ۔اور اگر تم مرو ، یا مارے جاؤ ،تو اللہ کی طرف اٹھنا ہے۔)آل عمران:۳/۱۵۸۔۱۵۷(ترجمہ: اور جو چھپا رکھے ، وہ قیامت کے دن اپنی چھپائی چیز لے کر آئے گا ۔
پھر ہر جان کو اُن کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور اُن پر ظلم نہ ہوگا )آل عمران :۳/۱۶۱(ترجمہ: ہر جان کو موت چکھنی ہے ۔ اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے ۔ جو آگ سے بچا کر جنّت میں داخل کیا گیا ، وہ مراد کو پہنچا ۔ اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔)آل عمران: ۳/۱۸۵ )۔
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر نکلے گا ، وہ زمین میں بہت جگہ ، اور گنجائش پائے گا ۔ اور جواپنے گھر سے نکلا ،اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتا ، پھر اُسے موت نے آلیا ،تو اس کا ثواب اللہ کے ذمّہ پر ہوگیا ۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ النّساء:۴/۱۰۰) ۔
ترجمہ: اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر ۔ اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے ،یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے ، ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں ۔ اور وہ قصور نہیں کرتے ۔ پھر پھیرے جاتے ہیں ، اپنے سچے مولیٰ اللہ کی طرف ۔ سنتا ہے ! اسی کا حکم ہے ۔ اور وہ سب سے جلد حساب کرنے والا ۔ الأنعام:۶/۶۲۔
۶۱ ترجمہ: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں ، برائی اور بھلائی سے جانچنے کو ۔ اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ الأنبیاء
۲۱/۳۵ ترجمہ: اے میرے بندو ! جو ایمان لائے ، بیشک میری زمین وسیع ہے ، تو میری ہی بندگی کرو ! ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔پھر ہماری ہی طرف پھروگے۔
اور بے شک جو ایمان لائے ، اور اچھے کام کئے ، ضرور ہم انہیں جنّت کے بالا خانوں پر جگہ دیں گے ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا اجر کام والوں کا۔)العنکبوت : ۲۹/۵۷۔۵۶ ۔
ترجمہ: تم جہاں کہیں ہو ، موت تمہیں آئے گی ،اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو ۔ اور انہیں کوئی بھلائی پہنچے ،تو کہیں : یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور انہیں کوئی برائی پہنچے ،تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی ۔ تم فرماد و : سب اللہ کی طرف سے ہے ۔تو ان لوگوں کو کیا ہوا ؟ کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے ۔ النّساء :۴/۷۸
ترجمہ: اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے ، یا کہے : مجھے وحی ہوئی ۔ اور اسے کچھ وحی نہ ہوئی ۔
اور جو کہے : ابھی میں اتارتا ہوں ایسا جیسا خدا نے اتارا ۔اور کبھی تم دیکھو ، جس وقت ظالم موت کی سختیوںمیں ہیں ، اور فرشتے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں ! آج تمہیں خواری کا عذاب دیا جائے گا ۔ بدلہ اس کا کہ اللہ پر جھوٹ لگاتے تھے ۔اور اس کی آیتوں سے تکبّر کرتے تھے۔)الانعام : ۶/۹۳
ترجمہ: اور بے شک اس سے پہلے وہ اللہ سے عہد کرچکے تھے ، کہ پیٹھ نہ پھیریں گے ۔ اور اللہ کا عہد پوچھا جائے گا۔تم فرماؤ : ہرگز تمہیں بھاگنا نفع نہ دے گا ، اگر موت یا قتل سے بھاگو ۔اور جب بھی دنیا سے فائدہ اٹھانے نہ دیئے جاؤ گے ، مگر تھوڑا الأحزاب: ۳۳/۱۶ ۔ ۱۵
ترجمہ: تم فرماؤ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو ، وہ تو ضرور تمہیں ملنی ہے ۔ پھر اُس کی طرف پھیرے جاؤ گے ، جو چُھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے ۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا جوکچھ تم نے کیا تھا ۔ )الجمعۃ:۶۲/ ۸
ترجمہ: اور ہمارے دیئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو ،قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے ، پھر کہنے لگے : اے میرے رب ! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی ، کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا ۔اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا ، جب اس کا وعدہ آجائے ۔
اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ المنفقون۶۳/۱۱
اللہ پاک ہمیں اپنی موت کو ہما وقت یاد درکھنے اور اس کے لیے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے !آمین
تحریر: ابو حمزہ محمد عمران مدنی
کراچی، پاکستان
whatsapp: 03170263320
ان مضامین کو بھی پڑھیں
رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر والو٘ سے تعلق
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
خود اپنی تعریف کرنے کی شرعی حیثیت
صلہ رحمی نہ کرنے کا بھیانک انجام
اور ہندی مضامین شائع کروانے کے لیے رابطہ بھی کریں
9939134587