از قلم: طارق انور مصباحی مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ششم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے
کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں
قسط پنجم کا باقی ماندہ حصہ اوردیگر تشریحات وتوضیحات قسط ششم میں مذکورہیں۔
لاعلمی کے سبب فتویٰ کا حق نہیں ہوگا:
سوال : کفر کلامی کے صحیح فتویٰ کے بعدکسی مفتی کو جہات ثلاثہ کی تحقیق میں احتمال ہوگیا تو کیا اسے اس کفر کلامی کے انکار کا حق ہے؟
یا اسے بھی وہ فتویٰ تسلیم کرنا لازم ہے؟
جواب : اصل یہ ہے کہ جس ثابت شدہ حقیقت سے متعلق کسی کو علم نہ ہو تولاعلمی کے سبب اسے فتویٰ دینے کا حق نہیں ہوگا۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لاعلمی کے سبب انکار کا حق ہوگا،مثلاًکسی غیر حافظ مفتی سے کسی عربی کلام کے بارے میں سوال ہواکہ وہ قرآن مجید کی آیت ہے یا نہیں؟ اسے وہ آیت یاد نہیں اور جہاں وہ تھا،وہاں پر اس کی جانکاری کا کوئی ذریعہ نہیں،جیسے وہ فلائٹ پرتھا،وہاں نہ قرآن مقدس موجود تھا،نہ ہی انٹرنیٹ سے استفادہ کی صورت تھی،نہ ہی مفتی کووہ آیت یادتھی تومفتی کو یہی کہنا ہوگا کہ اگر وہ قرآن مجید کی آیت طیبہ ہے تو میں اسے آیت قرآنی مانتا ہوں۔اگر وہ آیت قرآنی نہیں ہے تو میں اسے قرآنی آیت نہیں مانتا ہوں۔
جب اس نے قرآن مجید میں اس آیت مبارکہ کودیکھ لیا تو پھر اسے یقینی طورپر اس کو آیت قرآنی مان لینا ہے۔ اسے اس تحقیق کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ یہ آیت طیبہ کیسے متواتر ہوئی؟ کتنے صحابہ کرام نے اسے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہے؟ اوروہ کون حضرات ہیں؟اس کی تلاوت منسوخ ہے یاغیر منسوخ؟
دراصل عہد تحقیق میں ضروری تحقیق کے بعد ہی اسے قرآن مجید میں شامل کیا گیا ہے۔
عدم علم کے سبب مفتی کو انکار کا حق نہیں ملتا ہے،بلکہ فتویٰ سے رک جانے کا حکم ہوتاہے۔
فتویٰ کے شرائط میں یہ ہے کہ جب اسے کسی چیز کا علم نہ ہو تو فتویٰ نہ دے،اوراپنے سے زیادہ علم والے سے دریافت کرے,گرچہ وہ دوسرے شہر میں ہو۔
یہ حکم نہیں ہے کہ اسے علم نہیں ہے تو انکار کربیٹھے۔ثابت شدہ کفر کلامی میں کسی مفتی کوکسی جہت محتملہ کا یقینی علم نہ ہوسکاتو عدم علم کے سبب اسے انکارکا حق نہیں ہوگا،بلکہ ثابت شدہ حقیقت کواسے ماننا ہوگا،جیسے عدم فہم کے سبب فقہا کو انکار کا حق نہیں ملا،بلکہ ان پر کفر کلامی کے فتویٰ کو ماننا لازم قرار پایا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ فتویٰ صحیح ہے تو وہ تمام شرائط کا جامع ہے۔ کسی دوسرے مفتی کو کسی شرط کا علم نہ ہوسکا تو اس کے لیے (فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)کا حکم ہوگا۔
عالم ومفتی کسی حقیقت سے ناآشنا ہو،اور اس کا ادراک اپنی محنت ومشقت سے نہ کرسکے تو وہ بھی سائل کے حکم میں ہوگا۔اس مسئلہ میں اس کو مفتی کا درجہ نہیں ملے گا۔
عدم علم فتویٰ سے مانع ہے،نہ کہ عدم علم انکار کی اجازت فراہم کرتا ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ اسے تحقیق سے یہ معلوم ہوگیا کہ کفر کلامی کے فتویٰ میں مفتی اول کے لیے تمام محتمل جہات یقینی نہیں ہوسکی تھیں،یا کوئی شرط مفقود تھی،اس کے باوجود اس نے فتویٰ دے دیا تھا تو اس کا مفہوم یہ ہوا کہ پہلافتویٰ ہی غلط ہے تو اس صورت میں کفر کلامی کے فتویٰ میں اختلاف نہیں پایا گیا،بلکہ ایک غلط فتویٰ کی غلطی کا اظہار ہوا۔ہماری گفتگو کفر کلامی کے صحیح فتویٰ سے متعلق ہے جو تمام شرائط کا جامع اورصحیح ہو۔ غلط فتویٰ کو یقینا غلط ہی کہنا ہوگا۔
قطعی بالمعنی الاخص وقطعی بالمعنی الاعم میں اختلاف کی گنجائش نہیں
جب کفر کلامی ثابت ہوچکا تواس کا مطلب یہ ہوا کہ مجرم ایسا قطعی کافر ہے کہ اس کے مومن ہونے کا احتمال بلادلیل بھی باقی نہیں۔ اب کوئی اسے مومن کہتا ہے توگویا کسی قطعی کافر کومومن کہتا ہے۔
اسی حقیقت کی تفہیم کے لیے کہا جاتا ہے۔”من شک فی کفرہ فقد کفر“-کفر کلامی کا حکم اسی وقت جاری ہوتا ہے،جب تمام جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوجائیں اور قطعی بالمعنی الاخص میں عوام وخواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا،اور قطعی بالمعنی الاعم میں علما کا اختلاف نہیں ہوتا۔عوام کو سمجھ میں نہ آئے تو ایسے امور میں عوام کی عدم فہم کا کوئی اعتبار نہیں۔
سوال : کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک محقق کے یہاں جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوں،اور دوسرے محقق کے یہاں وہ قطعی بالمعنی الاخص نہ ہوں،مثلاً قطعی بالمعنی الاعم یا ظنی ہو؟ایسی صورت میں جس کی تحقیق میں جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوگئیں،وہ مجرم کو کافر کلامی مانے گا اور جس کی تحقیق میں قطعی بالمعنی الاعم یا ظنی ہیں, وہ کافر کلامی نہیں مانے گا؟
جواب : قطعی بالمعنی الاخص میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں۔اس میں نہ عوام کا اختلاف ہوتا ہے اور نہ خواص کا۔جب ایک مفتی کی تحقیق میں تمام جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوگئیں تو جس محقق کی نظر میں کوئی محتمل جہت قطعی بالمعنی الاخص نہ ہوسکی ہے،وہ محقق کی ناقص تحقیق کے سبب ہے۔
اگر وہ جہت حقیقت میں قطعی بالمعنی الاخص نہ ہوتی تو دوسرے محقق کی نظر میں بھی قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتی۔پس جس کی تحقیق ناقص ہے، وہ فتویٰ نہیں دے گا، کیوں کہ تحقیق ہی مکمل نہیں تو کس بنیاد پر وہ فتویٰ دے گا۔ناقص تحقیق پر فتویٰ جائز نہیں۔
جس محقق کی نظر میں تحقیق مکمل ہوچکی ہے،وہ فتویٰ دے گا۔جب اس نے تحقیق کامل اورتحقیق صحیح کے بعد کفر کلامی کا فتویٰ دے دیا تو اب مجرم کو کافر کلامی ماننا ضرویات دین میں سے ہوگیا۔
اب تکفیر کا یہ خا ص مسئلہ تحقیقی نہ رہا،بلکہ تحقیق وتدقیق کے بعد ضروریات دین میں داخل ہوگیا۔جس محقق کی نظر میں کوئی جہت ناقص تھی،وہ اپنی محتمل جہت کی قطعیت کی معلومات اس مفتی سے حاصل کرلے،جس نے کفرکلامی کا فتویٰ جاری کیا ہے۔
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا
(وانا اقول،وباللّٰہ التوفیق:بل القطع علٰی ثلثۃ اوجہ-قطع عام یشترک فیہ الخواص والعوام-وہو الحاصل فی ضروریات الدین-و خاص یختص بمن مارس العلم-وہو الحاصل فی سائر الفرائض الاعتقادیۃ المجمع علیہا-و الثالث:قطع اخص یختلف فی حصولہ العلماء کما اختلف فی حصول الثانی العوام والعلماء۔
(فتاویٰ رضویہ جلد اول ص 249،250-جامعہ نظامیہ لاہور)
ترجمہ:اورمیں بتوفیق الٰہی کہتا ہوں،بلکہ یقین کی تین صورتیں ہیں۔
۔(۱) عام یقین:جس میں عوام وخواص سب شریک ہوں۔ یہ ضروریات دین میں ہوتا ہے۔
۔(۲) خاص یقین:جو علم سے مشغولیت رکھنے والوں کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ یہ وہ ہے جو تمام اجماعی فرائض اعتقادیہ میں پایا جاتا ہے۔
۔(۳) اخص یقین:جس کے حصول میں علما کے درمیان فرق ہوتا ہے،جیسے قسم دوم کے حصول میں عوام اورعلما کے درمیان فرق ہوتا ہے۔
توضیح :مذکورہ بالا عبارت میں یقین کی تین قسمیں بیان کی گئیں۔
قسم اول قطعی بالمعنی الاخص ہے۔اس میں جو یقین پایا جاتا ہے،اس کی تعبیر یقین عام سے کی گئی ہے،کیوں کہ اس یقین میں عوام وخواص مشترک ہوتے ہیں۔
منقولہ بالا عبارت میں قسم دوم قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس میں یقین خاص پایا جاتا ہے،یعنی ایسا یقین جواہل علم کے ساتھ خاص ہوتا ہے،گرچہ وہاں عوام کو یقین حاصل نہ ہوسکے۔
مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہو گیا کہ قطعی بالمعنی الاخص میں عوام و خواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا,پھر کسی محقق کو کیسے اختلاف ہو سکتا ہے۔ہاں,جو شبہہ اسے ہے,وہ اہل علم سے بیان کرے,تاکہ اس کا ازالہ ہو جائے۔
فوق کل ذی علم علیم
قطعی بالمعنی الاخص وقطعی بالمعنی الاعم کی تفہیم
ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ قطعی بالمعنی الاخص میں جانب موافق قطع ویقین کے ساتھ ثابت ہوتی ہے،اور اس کی جانب مخالف قطع ویقین کے ساتھ باطل ہوتی ہے۔دونوں جانب میں خلاف کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا،یعنی جانب موافق کے ثبوت میں عدم ثبوت کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا، اور جانب مخالف کے بطلان میں عدم بطلان کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا،یہی قطعی بالمعنی الاخص ہے۔
بلفظ دیگر قطعی بالمعنی الاخص میں جانب موافق واجب الثبوت ہوتی ہے اور جانب مخالف محال ہوتی ہے،یاتومحال بالذات ہوگی،یا محال بالغیر۔
جب ایسا یقین پالیا جائے تو کسی اہل حق کواختلاف کی گنجائش نہیں، اوراہل باطل کے اختلاف کا اعتبار نہیں،جیسا کہ مسلم الثبوت وشرح عقائد نسفی میں ہے کہ سوفسطائیہ،لا ادریہ اور سمنیہ وغیرہ کے اختلاف کا اعتبار نہیں۔
قطعی بالمعنی الاعم وہ ہے جس میں جانبین سے احتمال قریب معدوم ہو،یعنی جانب موافق کے ثبوت میں عدم ثبوت کا احتمال قریب نہ ہو،اور جانب مخالف کے بطلان میں عدم بطلان کا احتمال قریب نہ ہو،یہی قطعی بالمعنی الاعم ہے۔اہل علم کا اس میں بھی اختلاف نہیں ہوتا ہے توپھر قطعی بالمعنی الاخص میں کسی محقق کا کیسے اختلاف ہوسکتا ہے؟
تکفیرکلامی اس وقت ہوتی ہے،جب جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوجائیں۔
تکفیر کلامی سے متعلق غلط نظریات کے رد کے لیے چند توضیحات مرقومہ ذیل ہیں:۔
۔(۱) اگر کفر کلامی کا فتویٰ ہی غلط تھا،مثلاً جہات محتملہ میں کوئی احتمال بالدلیل یااحتمال بلادلیل موجود تھا اور مفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ جاری دیا تو یہ فتویٰ ہی غلط ہوا:
۔(الف) اگراحتمال بلا دلیل تھاتو کفر فقہی ثابت ہوگا اور کفر فقہی کا حکم ثابت ہوگا یعنی توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح وغیرہ کا حکم۔
اگر کفر کلامی ثابت ہوجاتا توکفر کلامی کا حکم ثابت ہوتا، یعنی اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جاتی۔اس کے سارے اعمال برباد ہو جاتے۔اگرحج فرض ادا کرچکا ہے تو دوبارہ ادا کرنا ہوتا۔
۔(ب) اگر احتمال بالدلیل تھا توجمہورفقہاکے یہاں بھی کفر نہیں۔اب عدم کفر کی صورت میں غور کرنا ہوگا کہ حرمت،کراہت تحریمی وغیرہ ثابت ہے یانہیں؟عدم کفر کا مفہوم یہ نہیں کہ وہ کلام بالکل موافق شرع ہے۔
۔(۲) اگر مفتی نے اصول تکفیرکے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا تووہ فتویٰ بھی قابل رد ہوگا مثلاً شیخ اکبر پر ابن تیمیہ حرانی کا فتویٰ کفر کہ شیخ اکبر کی جانب کفریہ کلمات کی نسبت صحیح نہیں۔شیخ اکبر قدس سرہ العزیز کی تحریروں میں تحریف ہوئی اورالحاق ہوا ہے۔اسی طرح صوفیائے کرام کے کلام کی تحقیق اہل تصوف کی اصطلاحات کے مطابق ہوگی۔انہیں کی مصطلحات کے اعتبارسے صوفیا کے کلام کے احکام بتائے جائیں گے۔
۔(۳) عقلی اعتبارسے بھی کفر کلامی میں اختلاف کا ممنوع ہونا ظاہر ہے،مثلاً کسی مجرم پرمعتمد مفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ جاری فرمایا اور دیگر معاصر مفتیوں نے بھی تصدیق کردی۔ بادشاہ اسلام نے ارتدادکے سبب اس مجرم کو قتل کردیا۔
اب پچاس سال بعد کوئی مفتی یہ کہے کہ اس مجرم کے کفریہ قول کی خبرمجھے تواترکے ساتھ نہ مل سکی،اس لیے وہ مجرم میری نظرمیں کافرکلامی نہیں تویہ بات ناقابل تسلیم ہوگی،جیسے ایک مریض مرگیا،ڈاکٹر نے چیک کرکے بتا دیا کہ یہ آدمی مر چکا ہے اور دیگرحاضر ڈاکٹروں نے بھی تصدیق کی،لوگوں نے اسے دفن کردیا۔ اب پچاس سال بعد کوئی کہے کہ مجھے اس کی موت کی یقینی خبر نہ مل سکی،اس لیے میری نظر میں وہ زندہ ہے تو کیا اس بات کوکوئی تسلیم کرسکتا ہے؟
۔(۴) کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری ہونے کے بعد کسی کوتوقف،انکاریاشک کا حق حاصل نہیں۔”من شک فی کفرہ فقد کفر“ کا یہی مفہوم ہے۔
ہاں، ارباب تحقیق کواس کلام میں ثبوت کفر کے دلائل کی تحقیق وتفتیش کا حق حاصل ہو گا,لیکن انکار کا حق نہیں۔
کیا جہات محتملہ کی تحقیق میں خطا نہیں ہوسکتی؟
سوال :کفر کلامی کا حکم اس وقت عائد ہوتا ہے،جب کلام،کفری معنی میں مفسر ومتعین ہو،یاقائل کے بیان قطعی سے مفسر ومتعین ہو جائے۔
نانوتوی کے کلام کو ختم نبوت کے انکارکے سلسلے میں مفسر تسلیم کیا گیا،اسی طرح گنگوہی،انبیٹھوی وتھانوی کے کلام کوبے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا گیا۔ مفسر تسلیم کرنے والے علما نے اپنی تحقیق کی روشنی میں ان عبارتوں کوانکارختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا۔ ہر تحقیق کی طرح اس تحقیق میں بھی خطا کا امکان ہے،ممکن ہے کہ وہ عبارتیں انکار ختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر نہ ہوں؟
جواب :ضروریات دین کا ثبوت عقل صحیح، قطعی الدلالت آیت قرآنیہ، قطعی الدلالت حدیث متواتر اور اجماع متصل سے ہوتا ہے۔ ضروریات دین کے باب میں قطعی الدلالت سے مراد مفسر ہے۔ آیات قرآنیہ واحادیث متواترہ کے مفسر ومحکم اور نص وظاہر ہونے کی صراحت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں موجود نہیں۔مفسر ومحکم اورنص وظاہر ہونے کا تعین مجتہد ومحقق کی تحقیق سے ہوتا ہے۔
یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ کسی آیت کو مفسر بتانے میں خطا ہوگئی ہو، پھر جب وہ آیت مفسر نہیں رہی تواس سے ثابت ہونے والا امر ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا۔جواب یہ ہے کہ جن آیات واحادیث متواترہ کو مفسر تسلیم کیا گیا ہے۔ان سے ثابت ہونے والے امور کو ضروریات دین ہی میں تسلیم کیا جاتا ہے۔آج تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسر وغیر مفسر کے تعین میں خطا ممکن ہے، لیکن یہ تعین محال نہیں ہے۔اس کے تعین کا خاص طریقہ موجود ہے،یعنی جس میں احتمال بلادلیل بھی نہ ہو،وہ مفسر ہے۔
مثال کے طورپر گلاس میں پانی ہے یانہیں۔آنکھوں سے دیکھ کر کے ثبوت یانفی کا تعین کیا جاسکتا ہے اوریہ تعین یقینی ہوگا۔ اسی طرح مفسر وہ ہے کہ جس میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہ ہو۔ جب وہاں احتمال بلا دلیل بھی موجود نہیں تووہ مفسر ہوگا۔
اگر کوئی شخص فرقہ سوفسطائیہ اور لاادریہ کی طرح انکار کرے تو اس کا کوئی جواب نہیں۔
سوال: 1– دنیا میں قطعی بالمعنی الاخص کا وجود ہے یا نہیں ؟
۔ 2– اگر ہے تو پھر محض اس شبہہ کے سبب ہر قطعی کی قطعیت سے انکار دینا کہ ممکن ہے کہ محقق سے خطا ہو گئی ہو,یہ سوفسطائیت ہے یا نہیں؟
ان شاء اللہ تعالی ان دونوں سوالوں کے جواب پر غور کریں گے تو معاملہ سمجھ میں آ جائے گا
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
مسئلہ تکففیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟ تمام قسطوں کے لنک حاضر ہے
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع