Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہفتم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہفتم

تحریر: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہفتم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہفتم

کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں

سوال اگر عہد حاضر میں کوئی اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کی ایسی صحیح تاویل پیش کرے

جس سے کفر کلامی کا حکم عائد نہ ہوتا ہو،اسی طرح کفر فقہی وضلالت وگمرہی کا حکم بھی عائد نہ ہوتا تو کیا اس تاویل کے سبب اشخاص اربعہ کو مومن تسلیم کیا جا سکتا ہے؟

جواب مفسر کلام میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔مفسرکلام میں نہ تاویل بالدلیل کی گنجائش ہوتی ہے،نہ تاویل بلا دلیل کی۔ایسی صورت میں اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں میں کوئی صحیح تاویل کیسے ممکن ہے؟

برسبیل تنزل اگر ایسی صحیح تاویل کوئی پیش بھی کرے تواس سے اشخاص اربعہ کا کفر ختم نہیں ہوگا۔تاویل سے کفر ختم ہونے کی شرط یہ ہے کہ ملزم اس تاویل کو قبول کرے۔ اشخاص اربعہ مرکرمٹی میں مل چکے تواب و ہ لوگ کسی مؤول کی تاویل کوکیسے قبول کرسکتے ہیں؟

امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے اشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی پر علماے حرمین طیبین کے اتفاق واجماع کا ذکر کرتے ہوئے علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز کوتحریر فرمایا

۔(الف)”کفر وہابیہ دیوبندیہ پر علمائے کرام حرمین شریفین (جن کی تحقیق آپ کے یہاں کی تحقیق سے عام مسلمین کے نزدیک ارجح واعلیٰ ہے)اجماع فرماچکے، اورمیرے یہاں کے کتب ورسائل مثل تمہید ایمان وحسام الحرمین ووقعات السنان وادخال السنان والموت الاحمر وکشف ضلال دیوبند شرح الاستمداد وغیرہا نے بحمدہ تعالیٰ کوئی دقیقہ اظہار حق کا اٹھا نہ رکھا۔مرتدین کو کچھ بناتے نہ بنی، خود اپنے کفروں کی تاویل میں جو حرکت مذبوحی کی،انہیں کے منہ پر پڑی،اورآج تک جواب نہ دے سکے۔

اس کے بعد بھی آفتاب کو چراغ دکھانے کی کچھ حاجت رہی؟

بفرض باطل اگر آپ ان کے کلام میں کوئی تاویل تراش سکیں تو ان مرتدین کوکیا نفع اور ان کا کفر کیوں کر دفع،کہ ان کی یہ مراد ہوتی تو برسوں پہلے اگل نہ دیتے۔ضرور ان کی مراد معنی کفرہی تھے، اوروہ کافر۔

درمختار میں ہے:”ثم لونیتہ ذلک فمسلم والا لم ینفعہ حمل المفتی علی خلافہ“۔

(الطاری الداری ص ۳۸-حسنی پریس بریلی)

توضیح:منقولہ عبارت سے ظاہر ہوگیا کہ اگرآج کوئی مفتی کوئی تاویل بھی پیش کرے تو اس سے اشخاص اربعہ کا کفر ختم نہیں ہوسکتا۔اگر قائل کی وہی مراد ہو،تب حکم کفر ختم ہوگا۔اگر قائل کی مرادکفری معنی ہی ہوتو حکم کفر عائد ہوگا۔

جب اشخاص اربعہ اپنی زندگی میں کوئی صحیح مفہوم بتا نہ سکے تو اب کسی کے صحیح مفہوم بیان کر دینے سے ان لوگوں سے کفر کیسے ختم ہوسکتا ہے۔

یہ قول برسبیل تنزل ہے،ورنہ مفسر کلام میں کسی دوسرے مفہوم کا احتمال ہی نہیں ہوتاہے۔

۔(ب)”تقویۃ الایمان وصراط مستقیم ویک روزی کا مصنف اسماعیل دہلوی ہے۔اس پر صدہا وجوہ سے لزوم کفر ہے۔دیکھوسبحان السبوح وکوکبہ شہابیہ ومتن وشرح الاستمداد۔اور تحذیر الناس،نانوتوی وبراہین قاطعہ، گنگوہی،وخفض الایمان، تھانوی میں قطعی یقینی اللہ ورسول کو گالیاں ہیں،اور ان کے مصنفین مرتدین،ان کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے۔”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“۔جوان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر ہے۔دیکھو کتاب مستطاب حسام الحرمین:واللہ اعلم“۔

(فتاویٰ رضویہ ج9ح2ص314-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح : مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اشخاص اربعہ کے کفر پر علمائے حرمین طیبین کا اجماع واتفاق ہے۔علمائے مصدقین علم وفضل میں مشہور ومعروف اور وسیع علمی تجربات سے آراستہ تھے۔

سائل سے پہلاسوال یہ ہے کہ وہ کون سی تاویل تھی کہ ایک صدی سے زائد گزرجانے کے بعد کسی کے ذہن میں آئی اوراس عہد کے اکابر علما کو بھی اس کا ادراک واحساس نہ ہوسکا؟
آج کسی کا ذہن اس جانب گیا۔

ضلالت وگمرہی پر امت کا اجماع محال شرعی

دوسرا سوال یہ ہے کہ جب ایک عہد کے تمام علمائے حق نے کسی مسئلہ پر اجماع کرلیا اور بعد کے زمانے میں کسی کو اس اجماعی مسئلہ کے خطا ہونے کی اطلاع ہوئی تواس کا مفہوم یہ ہوا کہ خطا پر اجماع امت ہوچکا تھا، حالاں کہ احادیث طیبہ میں صریح لفظوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ خطا پر امت کا اجماع نہیں ہوگا،پھر یہاں خطا پر اجماع کیسے ہوگیا؟

سوال: اشخاص اربعہ کی تکفیر پر تمام علمائے عرب وعجم کا کہاں اتفاق ہوا؟ حرمین طیبین کے علمائے کرام نے کفری فتویٰ پر تصدیق فرمائی،پھر برصغیر کے کچھ علمائے کرام نے،پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عرب وعجم کے تمام علما نے اس کو تسلیم کرلیا ہے؟

جواب :ارباب حل وعقد کا اتفاق تمام ماتحت افراد کی جانب منسوب ہوتا ہے۔ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت راشدہ پرساری دنیا کے مسلمان مدینہ مقدسہ آ کراظہار اتفاق اوربیعت نہیں کیے تھے۔محض ارباب حل وعقد کا اتفاق ہواتھا،جس کوساری دنیا کے مسلمانوں نے تسلیم کیا اور کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ارباب حل وعقد کے اجماع کوسارے مومنین کا اجماع تسلیم کیا گیا اور خلفائے راشدین کی خلافت کواجماعی کہا گیا۔

سلطنت عثمانیہ ترکیہ کی جانب سے حرمین طیبین میں چاروں مذاہب فقہیہ کے قاضی ومفتی مقرر کیے جاتے تھے،اور چاروں مذاہب کے فقہا ومفتیان کرام حرمین طیبین میں موجود رہا کرتے۔کسی مسئلہ پر ان چاروں مذاہب کے قضات وفقہا کا اتفاق عالم اسلام کا اتحاد واتفاق تسلیم کیا جاتا۔یہ دینی مسائل میں ارباب حل وعقد کی منزل میں تھے۔اب جبکہ ارباب حل وعقد یعنی علمائے حرمین طیبین نے اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں میں غوروفکر کے بعد فیصلہ فرمادیا کہ ان عبارتوں کا قائل کافر کلامی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہواکہ ان عبارتوں میں تاویل بعید کی بھی گنجائش نہیں ہے۔اگر تاویل بعید ہوتی تو کفر کلامی کا حکم نہیں ہوتا۔

اب ان حضرات کا اتفاق تمام مسلمانان عالم کا اتفاق تسلیم کیا جائے گا،کیوں کہ یہ اتفاق اصول شرع کے موافق ہے۔قائلین کی جانب سے کوئی قابل قبول تاویل پیش نہ کی جاسکی،نہ ہی تاویل کی کوئی گنجائش ہے۔

ایسے مشکل مسائل میں علمائے اسلام میں سے ہرایک تحقیق نہیں کرتے،بلکہ جن کے پاس وسائل تحقیق مہیا ہوتے ہیں،ان کی تحقیق اور فیصلے کے منتظر ہوتے ہیں،اور عہد انتظار میں بھی اجمالی طورپر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو عند اللہ حق ہے،ہم اسی عقیدہ پر قائم ہیں۔

سوال  ممکن ہے کہ کسی عالم کی وفات عہد انتظار میں ہو جائے،ایسی صورت میں ان کا کیا حکم ہوگا؟

جواب :ان کا مسلک وہی تسلیم کیا جائے گا،جوعند اللہ حق ہے،کیوں کہ وہ مذہب اسلام کے تمام احکام مانتے تھے۔ہاں،جب کفرکلامی کے فتویٰ کے بعدکسی کا انکار سامنے آ جائے تو اس انکار پر بحث ہوگی۔

اگر کوئی عالم وفقیہ اس کوتسلیم نہ کرے تو گویا دین خداوندی میں اپنی مرضی کودخل دینا ہوا، اب اس کا انکار حکم شرعی کو ساقط نہیں کرسکے گا، بلکہ خود اس منکر پر حکم شرعی نافذہوگا،خواہ وہ کوئی بھی ہو،کہیں کا بھی ہو:الاسلام یعلوولایعلی

سوال : ممکن ہے کہ کفرکلامی کافتویٰ جاری ہونے کے بعد قائل نے اپنے کفریات سے توبہ کرلیا ہو؟

جواب :محض توبہ کے امکان کے سبب اسے کافر کہنے سے کف لسان کی اجازت نہیں ہوگی۔ہاں، اس توبہ کا کچھ ثبوت ہوتو اس پر بحث ہوگی،لیکن یہاں اشخاص اربعہ سے توبہ کے صدور کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ اشخاص اربعہ کی موت کے بعد سے آج تک دیابنہ ان عبارتوں کوموافق اسلام اور صحیح ثابت کرنے کے لیے مناظرہ ومباحثہ کرتے رہے ہیں۔اگر توبہ کی کوئی روایت ہوتی تو دیابنہ اس کا تذکرہ ضرورکرتے۔

سوال : مفتی نے جہات ثلاثہ میں سے جس جہت کو قطعی بالمعنی الاخص سمجھا تھا،وہ جہت قطعی بالمعنی الاخص نہیں،بلکہ قطعی بالمعنی الاعم ہے توکیا کفرکلامی کے ایسے فتویٰ کا انکار جائز ہے؟

جواب : مفتی نے جسے قطعی بالمعنی الاخص سمجھا تھا،وہ قطعی بالمعنی الاخص نہ ہو، تووہ کفر کلامی کا فتویٰ ہی نہیں ہوگا۔ اب اس فتویٰ کفر میں اختلاف کا مفہوم یہی ہوگا کہ کفرفقہی میں اختلاف ہوا،نہ کہ کفر کلامی میں۔کفر کلامی ناقابل اختلاف ہے۔ اس میں اہل حق کا اتفاق ہی ہو گا،اختلاف کی گنجائش ہی نہیں۔

چوں کہ تکفیرکلامی آخری درجہ کی تکفیرہے،اس لیے صرف علم کلام کے ماہرین کوکفر کلامی کا فتویٰ جاری کرنے کی اجازت ہے،تاکہ تحقیق میں خطا سے حفاظت ہوسکے

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے : تمام قسطوں کے لنک نیچے ملاحظہ فرمائیں

قسط اول

قسط دوم

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن