تحریر: محمد حبیب القادرای صمدی ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اسلام صرف چند عبادتوں(نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ کی ادائیگی )کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔بلکہ یہ زندگی گزارنے کا مکمل سانچہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔
جس کے مطابق زندگی گزار کر ہی ہم کام یابی وکامرانی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے۔
قرآن مقدس میں جگہ جگہ پر حقوق العباد کی فضیلت و اہمیت کو بیا ن کیا گیا ہے۔ دوسروں کا ساتھ دینا ،ضرورت مندوں کی امداد کرنا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا اسلام کا بنیادی درس ہے۔
دین اسلام نے مذکورہ امور کی ادائیگی کو کار ثواب اور رب کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔
لیکن ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا۔ بالخصوص حقوق العباد کو تو عبادت ہی تصور نہیں کرتے۔
بس یہی وجہ ہے کہ ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے۔ اخوت و محبت، رواداری اور بھائی چارہ کا احساس ختم ہوگیا ہے۔ ہم اتنے خود غرض ہوگیے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ یقین جانیں! دنیا میں جو انسانیت سسک رہی ہے ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں۔
وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور خوش حال کیسے ہوسکتا ہے؟ جس معاشرے میں عدم مساوات، رشوت خوری، کام چوری، جھوٹ و چغلی، تکبر و حسد اور سیاسی خود غرضی جیسے رجحانات پائے جاتے ہوں۔
مذکورہ اسباب کی سب سے پہلی وجہ اللہ رب العزت کا خوف دل میں نہ ہونا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے معاشرے کے تنزلی کی شروعات ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ ۔(الحجرات،آیت ۱۰)۔
ترجمہ:مسلمان مسلمان بھائی ہیں (کہ آپس میں دینی رابطہ اور اسلامی محبت کے ساتھ مربوط (جوڑے ہوئے) ہیں یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے قوی تر ہے) تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو(جب کبھی ان میں نزاع(رنجش)واقع ہو )۔(کنز الایمان؍خزائن العرفان)۔
ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ،قُلْ مَآاَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمیٰ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ،وَمَاتَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ۔(البقرۃ،آیت۲۱۵
ترجمہ:(اے محبوب)تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟تم فرماؤجو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے۔اور جو بھلائی کرو بے شک اللہ اسے جانتا ہے۔(کنز الایمان)۔
اور بخاری شریف میں ہے،نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَایَظْلِمُہٗ وَ لَا یُسْلِمُہٗ وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللہُ فِیْ حَاجَتَہٖ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔نہ اس پر ظلم کرے نہ اس پر ظلم ہونے دے۔اور جو اپنے بھائی کی حاجت میں رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرمائےگا ۔
اور جو کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کرےگا ،اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرےگا اور جوکوئی مسلمان کی پردہ پوشی کرےگا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحیح بخاری،کتاب المظالم،باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ،ج:۱،ص:۳۳۰)۔
ارشاد باری تعالیٰ و ارشاد رسول ﷺ کا تیور بتارہا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ہے ۔ جو ہر مسلمان کو اخوت کے رشتہ میں باندھ رہاہے۔ اور وہی اخوت انسانی و ایمانی تمام مسلمانوں کو پابند کررہا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرے، خوشی وغم میں باہم شریک رہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : الْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُ الْمُؤْمِنِ وَ الْمُؤمِنُ اَخُوْ الْمُؤمِنِ یَکُفُّ عَلَیْہِ ضَیْعَتَہٗ وَ یَحُوْطُہٗ مِنْ وَّ رَائِہٖ
ترجمہ: مومن مومن کا آئینہ ہے۔مومن مومن کا بھائی ہے۔جہاں بھی ملے اسے نقصان سے بچاتا اور پیٹھ پیچھے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ (سنن ابودائود،کتاب الادب،باب فی النصیحۃ،ص:۶۷۳)۔
نبی کریم ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کیفیت کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمایا،تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی پوری زندگی کو چند جملوں میں بیان کردیا۔اور وہ جملے حقوق العباد ،دوسروں کے کام آنے اور اعانت و استعانت سے مربوط تھے۔ وہ مندرجہ ذیل جملے تھے
۔(۱) اِنَّکَ لَتَصِلَ الرَّحِمَ (آپ ﷺ صلح رحمی فرماتے ہیں)۔
۔(۲) وَ تَحْمِلُ الْکُلَّ (اور لوگوں کا بار اٹھاتے ہیں)۔
۔(۳) وَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ (اور لوگوں کو وہ چیز(مال ،اخلاق وغیرہ)عطا فرماتے ہیں جو ان کے پاس نہیں )۔
۔(۴) وَتَقْرِی الضَّیْفَ (اور مہمان نوازی کرتے ہیں)۔
۔(۵) وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ (اور راہ حق میں پیش آنے والے مصائب میں مدد فرماتے ہیں)۔
۔(صحیح بخاری،باب بدئ الوحی،ج:۱،ص:۳)۔
نوٹ : قرآن مقدس میں محسن انسانیت رسول کریم ﷺ کو تمام مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ (عمدہ نمونہ )فرمایا گیا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔(الاحزاب،آیت۲۱ ) ترجمہ : بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔(کنز الایمان)۔
یقینا دوسروں کا بار اپنے سرلینا ،حاجتمندوں کی حاجت پوری کرنا،غریبوں،یتیموں،بیوائوں کے کام آنا اور بے سہاروں کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں اور معاشرتی بہبود کا بنیادی مقصد ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
وَاللہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَاکَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہٖ ترجمہ: اللہ رب العزت اس وقت تک اپنے بندے کی مددفرماتا ہےجب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الذکر و الدعائ و التوبۃ و الاسغفار،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر،ج:۲،ص:۳۴۵)۔
اور حضرت ابودردا ء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت پاک میں حاضر ہوا اور اپنے دل کے سخت ہونے کی شکایت کرنے لگا ۔آپ ﷺ نے فرمایا
اَتُحِبُّ اَنْ یلِیْنَ قَلْبُکَ وَتدرکَ حاجتکَ؟ اِرْحَمِ الْیَتِیْمَ وَالمسَحْ رَأْسَہٗ وَاطعِمْہ مِنْ طَعَامِکَ یَلِنْ قَلْبُکَ وَتدرک حَاجتَک
ترجمہ: کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے اور تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ؟ یتیم پر رحم کیا کرو ،اس کے سرپر(محبت سے) ہاتھ رکھا کرو اور اپنے کھانے سے اسے کھلایا کرو،تمہارا دل نرم ہوجائے گا اور تم اپنی مراد حاصل کرلوگے۔ (الترغیب و الترھیب،کتاب فی کفالۃ الیتیم ورحمتہ الخ ،الجزئ الرابع،دار الکتب العلمیۃ،ص:۲۳۷)۔
بخاری شریف کی حدیث ہے نبی کریم ﷺ مسلمان بھائی کی اعانت و استعانت پر اجرو ثواب کا ذکر کرتےہوئے ارشاد فرماتے ہیں السَّاعِی عَلَی الْاَرْمِلَۃِ وَ الْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ترجمہ : بیوہ اور مسکین کی کفالت کرنے کے لیے کوشش کرنےوالا اللہ عز و جل کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب النفقات،باب فضل النفقۃ علی الاھل،ج:۲،ص:۸۰۵)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ الشَّمْسُ قَالَ:تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ وَتُعِیْنُ الرَّجُلَ فِی دَابَتِہٖ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْیَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْھَا مَتَاعُہٗ صَدَقَۃٌ قَالَ:وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَااِلَی الصَّلوٰۃِ صَدَقَۃٌ وَتُمِیْطُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ
ترجمہ : ہر روز طلوع آفتاب کے بعد انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے۔اگر تم دوبندوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو تو یہ صدقہ ہے۔اگر تم سواری پر سوار ہونے میں کسی کی مدد کرو تو یہ بھی صدقہ ہے۔اگر کسی کا سامان سواری پر رکھوادو تو بھی صدقہ ہے ۔اچھی بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ہر قدم جو نماز کی طرف اٹھے صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔
(صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ،باب بیان ان اسم الصدقۃ الخ،ج:۱،ص:۳۲۵)
سبھی لوگ بخوبی واقف ہیں کہ عالمی وبا کورونا وائرس نے دنیا کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیاہے۔ مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان گنت لوگ بے روزگار ہوگیے ہیں۔ بہت سے ایسے گھر ہیں، جہاں دووقت کے کھانے کا انتظام مشکل سا ہوگیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہم سب (اہل ثروت) کا مذہبی،ملی، سماجی ،معاشرتی اور انسانی فریضہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کا ہر ممکن خیال رکھیں۔
بلاتفریق مذہب وملت ان کی مدد کے لیے آگے آئیں،ان کا سہارابنیں اور حتی المقدور ضروریات زندگی کے سازوسامان ان تک پہنچائیں۔ صرف زبانی خیر خیریت نہ پوچھیں بلکہ اپنے بیت المال سے دال، چاول یا دیگر غذائی اشیا سے ان کی امداد کریں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کےشریک سفر تھے کہ ایک شخص کمزور سی سواری پر سوار ہوکر آیا اور اس نے اپنی سواری کو دائیں بائیں گھمانا شروع کردیا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ عِنْدَہٗ فَضْلُ ظَھرٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَاظَھْرَ لَہٗ وَمَنْ کَانَ عِنْدَہٗ فَضْلُ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَازَادَ لَہٗ
ترجمہ:جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں ۔اور جس کے پاس بچی ہوئی خوراک ہو وہ اسے کھلا دے جس کے پاس خوراک نہیں۔(سنن ابودائود،کتاب الزکوٰۃ،باب فی حقوق المال،ص:۲۳۴؍۲۳۵)۔
ہمارے کچھ نوجوان طبقہ نے بلاتفریق مذہب وملت کہیں راشن تقسیم کی، تو کہیں روپیوں پیسوں سے غریب مزدوروں کی امداد کی۔کہیں کھانا بناکر کھلائے تو کہیں پانی کے بوتل بانٹے۔ یقینا ان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے ۔ میں ان نوجوان طبقہ کو صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ہر مسلمان مردو عورت کو چاہیے کہ خدمت خلق کو اپنی اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔ کیوں کہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں ،اصل زندگی تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے جیا جائے۔
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
ہم سب اہل ثروت کو چاہیے کہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب بڑھ چڑھ کر غریب اور ضرورت مند پڑوسیوں کی بھر پور امداد کریں۔ کیوں کہ ایسے نازک گھڑی ہی میں لوگوں کی خدمت اصل جذبہ انسانیت کا پتہ دیتی ہے۔
اخوت نام ہے اس کا اگر کوئی سمجھ پائے
چبھے کانٹا کسی کو بھی یہ دل بے تاب ہوجائے
اللہ رب العزت ہم سب کو خدمت خلق کی خوب خوب توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین،بجاہ سید المرسلین ﷺ
تحریر: محمد حبیب القادری صمدی (مہوتری،نیپال)۔
ریسرچ اسکالر جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)۔
mdhabibulqadri@gmail.com
ان مضامین کا بھی مطالعہ کریں
خدمت خلق جاری رہے تاکہ لاک ڈاؤن کا قہر ختم ہو
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع