تحریر: محمد مجیب احمد فیضی جان کائنات ولایت اور ماہ ربیع الثانی
جان کائنات ولایت اور ماہ ربیع الثانی
ماہ ربیع الآخر یہ اسلامی تقویم کے اعتبار سے چوتھا مہینہ ہے۔اس ماہ کا چاند نظر آتے ہی غلامان غوث الاعظم کے لبوں پر ایک طرح سے مسکراہٹ کھیل جاتی ہے۔
وہ فرحت وانبساط کے بحر بیکراں میں مستغرق ہوجاتے ہیں۔اس مہینے کی گیارہویں تاریخ کو عاشقان غوث الاعظم حضور غوث پاک کی بارگاہ میں عقیدتوں محبتوں کا خراج پیش کرتے ہیں۔
جگہ جگہ محافل غوث الاعظم کا قیام ہوتا ہے۔آپ کی نام محافل سجائی جاتی ہیں ۔آپ کے نام کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔
آپ رضی المولی عنہ کے نام کی لنگر تقسیم کی جاتی ہیں۔ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا ہے۔اس طرح سے عاشقان غوث الاعظم آپ کی یاد کو تازہ کرکے صحیح معنوں میں اپنی غلامی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ویسے جب سے دنیا قائم ہوئی اللہ جل مجدہ الکریم نے بنی آدم کی رشد ہدایت کے لئے بہت سے انبیاےکرام ورسلان عظام کو اس خاکدان گیتی پر مبعوث فرمایا۔
حضور پر نور شافع یوم النشور احمد مجتبی محمد مصطفی علیۃ التحیۃ والثناء کے بعد اب نبوت ورسالت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اب کوئی نبی نہیں آسکتا ۔
ہاں لیکن بھٹکے اور بگڑے ہوئے انسانوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دینے کے لیے ,راہ حق سے بہکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقپم پر گامزن کرنے کے لیے ولایت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اور قیامت تک کھلا رہے گا۔
پہلے طریق مستوی کی صحیح ہدایت کے لئے انبیاء آتے تھے۔ اور اب اولیا آتے رہیں گے-یہ وہ مقدس ہستیاں ہوتی ہیں جن کی زندگیاں مثالی ہوا کرتی ہے۔
وہ اپنی اتقاء صالحیت, پاسدارئ سنت, اور دل کی پاکیزگی کے سبب صفات الہیہ کے مظھر نظر آتے ہیں ۔اپنی ظاہری وباطنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کا واحد ہدف خلق خدا کے قلوب کو مزکی ومصفی کرنا ہوتا ہے۔
ان پاک نفوس قدسیاں کی پیاری زندگیاں اللہ اس کے رسول کے لئے وقف ہوا کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ جس طرف کا بھی رخ کرتے ہیں نصرت ایزدی وحمایت خداوندی قدم قدم پر ان تائید کرتی ہوئ نظر أتی ہے۔
انہیں اپنوں سے کہیں زیادہ دوسروں کی فکر ہوتی ہے۔ انہیں پاک نفوس قدسیاں میں ایک سب سے عظیم اور زندہ وتابندہ ہستی غوث الاغواث فردالافراد سید الاسیاد بڑے پیر روشن ضمیر سیدنا وسندنا غوث الاعظم دستیگر کا ہے ۔
جن کی ذات بابرکت عالم اسلام کے لیے محتاج تعارف نہیں جن کا قدم بقول آپ ہی کے تمام اولیاء اللہ کے گردنوں پر ہے۔غیرصحابی اولیاء میں ان سے بڑا کوئ ولی ہی نہیں۔آپ کی ولادت با سعادت یکم رمضان المبارک 470 ھجری بغداد معلی کے قریب قصبۂ جیلان میں ہوئی۔
آپ کی ولادت کی شب آپ کے والد ماجد سید ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ انہوں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ و اولیا کے ساتھ أپ کے دولت کدہ پر جلوہ افروز ہوئے اور انہیں اس بات کی بشارت دی کہ :۔
اے ابو صالح !!!! اللہ جل مجدہ الکریم نے آپ کو ایک ایسا فرزند ارجمند عطا فرمایا ہے کہ جو ولی کامل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ ورسول کا محبوب ہے۔
اور اس کی عظمت اولیا کے درمیان ایسی ہے جیسے میری عظمت وشان انبیاءومرسلین کے درمیان ہے۔آپ کے ولادت کے وقت بہت سارے عجیب وغریب واقعات رونما ہوئے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ آپ کی ولادت باسعادت کے وقت أپ کی والدہ کی عمر ساٹھ برس کی تھی جبکہ عموما اس عمر میں عورتیں مایوس ہو جاتیں ہیں۔اور جس شب آپ کی ولادت ہوئی اس شب قصبہ جیلان میں جن عورتوں کے یہاں بھی ولادت ہوئی تھی ان عورتوں کو رب تعالی نے بیٹا ہی عنایت فرمایا جو آگے چل کر ولایت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔
آغاز تعلیم کے متعلق کتب اوراق سے صحیح طور پر پتہ نہیں چلتا ہے ہاں البتہ اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ جب آپ اپنے شہر کے مکتب میں پڑھنے جاتے اس وقت آپ کی عمر غالبا دس برس کی تھی۔کیوں کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کو اپنے ولی ہونے کے بارے میں علم کب ہوا تو آپ نے فرمایا:۔
۔”جب میں دس برس کا تھا تو اپنے شہر کے مکتب میں بغرض تحصیل علم پڑھنے جایا کرتا تھا اس وقت راستے میں ملائکہ میرے پیچھے پیچھے چلتے دکھائ پڑتے تھے اور جب میں مکتب پہونچ جاتا تو ان کو یہ کہتے ہوئے باربار سنتا رب کے ولی کے لئے بیٹھنے کی جگہ کشادہ کردو”۔
حضور غوث پاک نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کرنے کے بعد اٹھارہ برس کی عمر میں دین مصطفوی کی خاطر بغداد معلی کا رخ کیا کیوں کہ اس وقت علمی وسیاسی ہر ایک اعتبار سے بغداد معلی ہی مسلمانوں کا مرکز تھا۔
آپ رضی المولی عنہ کو تحصیل علم دین کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے اس کے خاطر نہ صرف گھر بار چھوڑا بلکہ اپنے مادر شفیق کی جدائ بھی جھیل لی۔
کیوں کہ آپ خوب خوب جانتے تھے تعلیم نبوی ہی ایک ایسا واحد صاف شفاف راستہ ہے جو یقین کے راستوں میں سب سے اعلی وانسب ہونے کے ساتھ ساتھ نفوس مریضہ کے لئے نسخۂ کیمیا ہے۔
اس تناظر میں آپ کی والدہ کی قربانیاں بھی لائق تحسین ہونے کےساتھ صد مرحبا ہے۔ انہوں نے اپنے نور نظر لخت جگر کو نہ صرف تعلیم نبوی خاطر سفر پر رخصت کیا بلکہ اپنے بیٹے کو تحصیل علم نبوی کے لئے ایسا وقف کیا کہ بھیجتے وقت فرمایا: “یا ولدی فقد خرجت عنک للہ فھذا وجہ لااراہ الی یوم القیامۃ” ترجمہ یعنی اے میرے نور نظر!!! “جاؤ میں تم سے اللہ اور اس کے رسول کی رضا وخوشنودی کی خاطر جدائ اختیار کرتی ہوں قیامت تک تمہیں نہیں دیکھوں گی”
شہنشاہ بغداد کی والدہ نے نہ صرف آپ کو اجازت مرحمت فرمائ بلکہ زاد راہ بھی مہیا کیا۔تاریخ کے اس عظیم موڑ پر غلامان غوث الاعظم کے لئے ایک پیغام توجہ فرمائیں!!! وہ یہ کہ دنیوی تعلیم اور کاوبار کے لئے اپنی اولاد کو تو ہر کوئی مال ودولت سے نوازتا ہے۔
لیکن دینی تعلیم پر کماحقہ خرچ نہیں کرتے۔ شاید اس طرح کی ذہنیت رکھنے والوں نے قرآن کے علم ہلکا سمجھ لیا ہے۔میرا ایقان کہتا ہے کہ پوری دنیا میں قرآن علم کا وہ بحر ناپیدا کنار جس کی مثال کبھی دنیا پیش ہی نہیں کرسکتی۔اللہ ایسی فکر رکھنے والوں کو صحیح معنوں میں ہدایت نصیب فرمائے۔
بات چل رہی تھی اولیاےکرام کی تو سنیں!!! ولی روئے زمیں پر رب کی دلیل بن کر آتا ہے۔ برھان اللہ بن کر آتا ہے۔ یعنی نبوت یہ الوہیت کا پرتو ہوتی ہے اور ولایت یہ نبوت کا پر تو ہوتی ہے۔ یعنی جو رب کی قدرت کا جو منکر ہو وہ معجزات رسول اعظم دیکھ لے اور جسے انبیا کی نبوت سمجھ میں نہ آئے وہ غوث الاعظم کی کرامت دیکھ لے۔
اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جس امت کا نبی جتنا شان دار ہوتا ہے, اس امت کا ولی بھی اتنا شان دار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ کے علاوہ اگر کسی امتی کو رسول اعظم نہ ملے تو اس کے علاوہ کسی امتی کو غوث الاعظم بھی نہ ملے اس امت وسط کا نبی بھی لاجواب ہے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والا ولی بھی لا جواب ہے۔
غوث الاعظم قصیدۂ غوثیہ میں فرماتے ہیں: کل ولی لہ قدم وانی علی قدم النبی بدرالکمال ترجمہ:ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے اور میں اپنے جد امجد محمدرسول اللہ کے نقش قدم پر ہوں۔
تحریر: محمد مجیب احمد فیضی
دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور
رابطہ نمبر:8115775932
اس مضمون کو بھی پڑھیں: حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت مفسر و محدث
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع