تحریر: طارق انور مصباحی ( کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط نہم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط نہم
مبسملا و حامدا: ومصلیا و مسلما
کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں
عہد حاضر میں بعض گمرہوں نے یہ طریقہ نکالا ہے کہ کافر کلامی کو محض گمراہ کہتے ہیں، حالاں کہ کافر کلامی کو محض گمراہ کہنے سے کفر کلامی معدوم ہوجاتا ہے،اور کفرکلامی کا انکار ہوجاتا ہے۔
گمراہ کا لفظ کافر وگمراہ دونوں کوشامل ہوتا ہے۔ضلالت کا لفظ ضلالت کفریہ وضلالت غیر کفریہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔
اسی طرح بد عت کا لفظ بدعت کفر یہ وبدعت ضلالت دونوں کو شامل ہوتا ہے۔
عام طورپر گمراہ سے وہ مرادہوتا ہے جو اہل سنت سے خارج ہو،لیکن کافرنہ ہو۔
کافر کو عام طور پرکافر اورمرتد کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عام طورپر بدعتی سے گمراہ مراد ہوتا ہے،یعنی جواہل سنت سے خارج ہو، لیکن کافر نہ ہو۔
اس بحث میں گمراہ سے غیرکافر گمراہ مراد ہے۔چوں کہ ایمان وکفر کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے،اس لیے جو گمراہ کافر نہیں ہے،وہ مومن ہوگا،لیکن وہ کامل الایمان نہیں ہوگا۔
کافر کلامی کا غیرکافر(گمراہ یامومن)ہونا عقلاً باطل
کسی کی تکفیرکلامی کامفہوم یہ ہے کہ وہ آدمی مذہب اسلام سے بالکل ہی خارج ہے۔اس کا کچھ بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ اب اگر کافر کلامی کو محض بدمذہب اور گمراہ کہا جائے اور گمراہ کا متعارف معنی مراد ہو،یعنی جو اہل سنت وجماعت سے خارج ہے،لیکن کافر نہیں تو یہاں تضاد حقیقی ثابت ہوگا۔
کافر کلامی ہونے کا مفہوم یہ ہواکہ وہ آدمی قطعی طورپر اسلام سے بالکل خارج ہے اورگمراہ ہونے کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ آدمی اسلام میں داخل ہے،گرچہ دخول ناقص کے طورپرداخل ہو۔
اس طرح اسلام میں دخول وخروج دونوں ایک ہی وقت میں ثابت ہو گیا،اور دخول وخروج دومتضاد امر ہیں،اس لیے دونوں کا وقت واحد میں ایک ہی محل میں وجود وثبوت نہیں ہوسکتا۔
خروج کا مل کی ضد دخول کامل بھی ہے اور دخول ناقص بھی۔جن دوامر کا محل واحدمیں اجتماع محال ہو، وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد یا نقیض ہوتے ہیں۔
کفر کلامی اسلام سے خروج کامل کا نام ہے۔خروج کامل کی نقیض دخول کا مل اور دخول ناقص دونوں ہے۔
دخول کامل کے ساتھ بھی خروج کامل کا اجتماع محال ہے،اسی طرح دخول ناقص کے ساتھ بھی خروج کامل کا اجتماع محال ہے،پس خروج کامل کی ضد دخول ہے،خواہ دخول کامل ہو، یا دخول ناقص ہو۔
دخول ناقص کا اجتماع خروج ناقص کے ساتھ ہوگا،اس لیے وہ دونوں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں،مثلاً کسی آدمی کا ایک پاؤں گھر کے دروازہ کے اندر ہے،اورایک پاؤں دروازہ کے باہر ہے تو یہاں دخول ناقص وخروج ناقص دونوں ساتھ ساتھ پائے جارہے ہیں،پس واضح ہوگیا کہ دخول ناقص وخروج ناقص میں تضاد نہیں۔
لیکن کوئی ایسی صورت نہیں کہ خروج کامل بھی ہو، اور اسی کے ساتھ دخول ناقص بھی ہو،لہٰذا جس طرح خروج کامل کی نقیض دخول کامل ہے، اسی طرح دخول ناقص بھی نقیض ہے،بلکہ قانونی طور پر دخول ناقص ہی نقیض ہونا چاہئے,جیسےموجبہ کلیہ کی نقیض سالبہ جزئیہ ہے,گرچہ موجبہ کلیہ کا بطلان سالبہ جزئیہ اور سالبہ کلیہ دونوں سے ہو جاتا ہے۔
قال الجرجانی:(الضدان صفتان وجودیتان یتعاقبان فی موضع واحد یستحیل اجتماعہما کالسواد والبیاض-والفرق بین الضدین والنقیضین،ان النقیضین لا یجتمعان ولا یرتفعان کالعدم والوجود-والضدین لا یجتمعان،ولکن یرتفعان کالسواد والبیاض)۔ (التعریفات ص179-مکتبہ شاملہ)۔
توضیح : اصطلاحی طورپر ضد اورنقیض میں فرق ہے۔ضدین وہ دوامر ہیں جو ایک ساتھ جمع نہ ہوسکیں،لیکن ایک ساتھ مرتفع ہوجائیں،جیسے سواد وبیاض کہ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے،لیکن مرتفع ہوسکتے ہیں،مثلاً وہاں سرخی،زردی وغیرہ ہو۔
نقیضین ایسے دوامرہیں جو نہ ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہوں،نہ ایک ساتھ مرتفع ہوسکتے ہیں،جیسے عدم ووجود۔ کسی امرکا وجود ہوگا،یا عدم۔وجودوعدم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے،نہ دونوں ایک ساتھ مرتفع ہوسکتے ہیں۔
اجتماع ضدین بھی محال ہے اور اجتماع نقیضین بھی محال ہے۔اصطلاحی طورپرایمان وکفر دونوں ایک دوسرے کی نقیض ہیں،کیوں کہ کسی مکلف سے بیک وقت نہ ایمان وکفر دونوں مسلوب ہوسکتے ہیں،نہ دونوں کسی مکلف کے لیے بیک وقت ثابت ہوسکتے ہیں۔مکلف یا تو مومن ہوگا،یا کافر ہوگا۔
ایمان وکفر کے درمیان کوئی منزل نہیں،پس بیک وقت دونوں کے معدوم ومرتفع ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
قطعی اعتقادیات میں حقیقی متضادین کا وجود نہیں ہوتا۔متضادین میں سے ایک ثابت ہوگا اور ایک باطل ہوگا۔اگر دونوں ثابت ہوں تو اجتماع متضادین لازم آئے گا اوراجتماع متضادین عقلاً باطل ہے اور جو اعتقادی امر عقلاً باطل ہو، وہ شرعاً بھی باطل ہوتا ہے،کیوں کہ شریعت عقل پر موقوف ہے۔ جو عقل کے نزدیک باطل ہے،وہ شریعت میں بھی باطل ہوگا۔یہاں تک کہ اگر نص قطعی میں بھی عقلی اعتقادکے خلاف کوئی امر وارد ہوتو عقل سے ثابت شدہ اعتقاد کے مطابق اس کی تاویل کرنی ہوگی۔
ظنی امورمیں متضادین کا وجود ہے،جیسے کوئی امر احناف کے یہاں جائز ہو،اورشوافع کے یہاں ناجائز ہو۔
چوں کہ ظنیات واجتہادیات میں کوئی امر قطعی نہیں ہوتا،بلکہ وہ ظنی ہوتا ہے اورظنی میں جانب مخالف کا احتمال بالدلیل موجود ہوتا ہے تو یہاں حقیقی طورپر اجتماع متضادین کا ثبوت نہیں ہوگا۔
ایک امام مجتہد نے کسی امر کو اپنے اجتہاد کی روشنی میں جائز کہا تو اس کا یہ مفہوم ہے کہ اس امام مجتہد کے اصول اور اختیار کردہ دلیل کی روشنی میں وہ امرظن غالب کے طورپر جائز ہے۔اجتہادی امور میں قطعی طورپر جواز وعدم جواز کی صورت نہیں ہوتی۔
اگر کسی دوسرے مجتہد نے اپنے اصول اور دلیل کی روشنی میں اسی امرکو ناجائز کہا ہے تو مجتہد اول اس کی تغلیط نہیں کرتا،بلکہ اس عدم جوازکو اس مجتہد دوم کے اصول ودلیل کے اعتبار سے حق مانتا ہے، اسی لیے فقہ کے مذاہب اربعہ کوحق تسلیم کیا گیا ہے۔مذاہب اربعہ کی حقانیت کی تفصیل اور دلیل فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں مرقوم ہوتی ہے۔
مذاہب اربعہ میں سے ہرایک فقہی مذہب کے حق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہرایک فقہی مذہب اپنے اصول اجتہاد کے اعتبار سے حق ہے،اور انہی اصول کے اعتبارسے مسائل کی تخریج ہوتی ہے تووہ مسائل بھی اصول اجتہادکی روشنی میں حق ہیں۔
چوں کہ ان مسائل میں ظن غالب کا حصول کا فی ہوتا ہے،لہٰذا جانب مخالف کے احتمال کے سبب اعتراض نہیں ہوگا۔اسی طرح کوئی دوسرا مجتہد اپنے اصول ودلیل کے اعتبارسے جانب مخالف کو اختیار کرے تو ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
واضح رہے کہ اجتہادی امور میں بھی عند اللہ ایک ہی امر حق ہوگا۔
کافر کلامی کومحض گمراہ ماننے سے کفر کلامی معدوم
جب کافر کلامی کومحض گمراہ (غیرکافر)کہا جائے توکفر کلامی معدوم ہوجائے گا۔گمراہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ابھی ایمان سے کچھ تعلق باقی ہے۔ کفر کلامی کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان سے بالکل تعلق ختم ہوگیا۔
جب گمرہی ثابت ہوئی تو ایمان سے خفیف تعلق ثابت ہوگیا اور عدم تعلق کا ثبوت نہ ہوسکا،لہٰذا کفر کلامی معدوم ہو گیا۔ ضلالت غیرکفریہ اور کفرکلامی ساتھ ساتھ نہیں پائے جا سکتے۔
دراصل کسی امر کی نفی متعدد طریقے سے ہوجاتی ہے۔عقل ونقل ہراعتبارسے رب تعالیٰ کا وجود ثابت ہے۔جس عقیدہ سے رب تعالیٰ کے وجود کا قطعی انکارہوجائے،وہ کفرکلامی ہوگا، اور جس عقیدہ سے وجود باری تعالیٰ کاقطعی انکار نہ ہو،لیکن انکار لازم آئے،وہ کفر فقہی ہوگا۔
انکار کی تین صورتیں مندرجہ ذیل عبارت میں مرقوم ہیں۔ان سے واضح ہوجائے گا کہ کسی امر کا انکار متعدد صورتوں میں ہوتا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں رب تعالیٰ کا قطعی انکار ہوجاتا ہے،اس لیے انکارکی ان تینوں صورتوں میں کفر کلامی کا حکم ہوگا۔
امام احمدرضاقادری نے رقم فرمایا
۔”ایجاب وسلب متناقض ہیں،جمع نہیں ہوسکتے۔وجود شئ اس کے لوازم کے وجود کا مقتضی اور ان کے نقائض ومنافیات کانافی ہے کہ لازم کا منافی موجود ہوتو لازم نہ ہو،اور لازم نہ ہوتو شئ نہ ہوتوظاہر ہواکہ سلب شئ کے تین طریقے ہیں۔
اول : خود اس کی نفی مثلاً کوئی کہے:انسان ہے ہی نہیں۔
دوم :اس کے لوازم سے کسی شئ کی نفی مثلاً کہے:انسان توہے،لیکن وہ ایک ایسی شئ کا نام ہے جو حیوان یا ناطق نہیں۔
سوم : ان کے منافیات سے کسی شئ کا اثبات مثلاً کہے:انسان حیوان ناہق یا صاہل سے عبارت ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں پچھلوں نے اگرچہ زبان سے انسان کوموجود کہا،مگر حقیقۃً انسان کو نہ جانا،وہ اپنے زعم باطل میں کسی ایسی چیز کوانسان سمجھے ہوئے ہیں، جو ہرگز انسان نہیں توانسان کی نفی اوراس سے جہل میں یہ دونوں اوروہ پہلا جس نے سرے سے انسان کا انکار کیا،سب برابر ہیں،فقط لفظ کا فرق ہے۔
مولیٰ عزوجل کو جمیع صفات کمال لازم ذات،اور جمیع عیوب ونقائص اس پر محال بالذات کہ اس کے کمال ذاتی کے منافی ہیں۔ کفار میں ہرگز کوئی نہ ملے گا جواس کی کسی صفت کمالیہ کامنکر یامعاذاللہ اس کے عیوب ونقص کامثبت نہ ہو تودہریے اگرقسم اول کے منکر ہیں کہ نفس وجود سے انکار رکھتے ہیں،باقی سب کفار دوقسم اخیر کے منکر ہیں کہ کسی کمال لازم ذات کے نافی یاکسی عیب منافی کے مثبت ہیں۔
بہر حال اللہ عزوجل کونہ جاننے میں وہ اور دہریے برابر ہوئے،وہی لفظ وطرز ادا کا فرق ہے۔دہریوں نے سرے سے انکار کیا اوران قہریوں نے اپنے اوہام تراشیدہ کا نام خدا رکھ کر لفظ کا اقرار کیا“۔
(فتاویٰ رضویہ ج15ص350-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح :منقولہ بالا اقتباس میں کسی شئ کی نفی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔جو لوگ کافر کلامی کوگمراہ کہتے ہیں،وہ طریق اول کے مطابق کفر کلامی کی صریح نفی کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم اشخاص اربعہ کوکافرنہیں،بلکہ گمراہ مانتے ہیں۔
کیا صریح نفی کے بعد بھی کفر کلامی معدوم نہیں ہوگا؟ چوں کہ یہ مذبذبین انتہائی عقل مند واقع ہوئے ہیں،اس لیے بدیہی امور میں بھی ان کو شک واقع ہوتا ہے
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکاررضا
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟ گزشتہ تمام قسطوں کے لیے حاضر خدمت ہے
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع