رشحات قلم: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دہم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دہم
مبسملا وحامدا: ومصلیا ومسلما
کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں
سوال :ایک مفتی نے کسی کو کافر کلامی کہا اور دوسرے مفتی نے کافر فقہی کہا تو یہاں چوں کہ قائل الگ الگ ہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے؟
جس نے کافر کلامی کہا،ان کی تحقیق میں کسی محتمل جہت میں کوئی احتمال بلادلیل نہیں تھا اور جس کی تحقیق میں کوئی احتمال بلادلیل تھا،اس نے کفر کلامی کا فتویٰ نہیں دیاتو کیا حرج ہے؟
اسی قسم کا جواب تکفیر فقہی میں دیا جاتا ہے کہ کافر فقہی کومتکلمین کافر نہیں کہتے،لیکن فقہا اسے کافر کہتے ہیں
کفرکلامی کی صورت میں بھی قائل ایک نہ ہو،بلکہ قائل الگ الگ ہیں تویہاں بھی ایک آدمی کسی کے یہاں کافر کلامی ہو،اورکسی کے یہاں کافر فقہی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے؟
جواب :ذیل میں دومثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ان دونوں مثالوں کے تناظرمیں کفرکلامی کوسمجھا جائے۔
۔(۱) ایک امر کو ایک آدمی محال بالذات کہے،اوردوسرا آدمی اسی کوممکن بالذات کہے تویہ دونوں قول ہرگزصحیح نہیں ہوسکتے، ورنہ ایک ہی چیزکا ممکن بالذات اورمحال بالذات ہونا لازم آئے گا۔
۔(۲) اگر ایک امرکوایک آدمی ممتنع بالغیر کہے،اور دوسرا آدمی ممکن بالذات کہے تودونوں قول صحیح ہیں، کیوں کہ محال بالغیر ممکن بالذات ہوتا ہے،لیکن محال بالذات،ممکن بالذات نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالا دونوں مثالوں سے واضح ہوگیاکہ جو محال بالذات ہے،وہ ممکن بالذات نہیں ہوسکتا،اسی طرح کافر کلامی ہر گز مومن نہیں ہوسکتا۔
جومحال بالغیر ہے،وہ ممکن بالذات ہو گا۔اسی طرح جومحض کافرفقہی ہے، وہ مومن ہو گا،گرچہ وہ گمراہ ہو۔
امرتکفیرمیں فقہا ومتکلمین کے اختلاف پر جو جواب دیا جاتا ہے،وہاں اس امر کی صحت کا مدارقائل کے الگ ہونے پرنہیں ہے،بلکہ صحت کا مدارحیثیت کے الگ ہونے پر ہے،یعنی فقہا الگ حیثیت سے کافر کہتے ہیں،اور متکلمین کسی دوسری حیثیت سے کافرنہیں کہتے۔
قائل کے مختلف ہونے سے درحقیقت یہاں حیثیت واعتبار کا مختلف ہونا مراد ہے،اور مشہور قانون ہے:۔
(لولا الاعتبارات لبطلت الحکمۃ)
اگر حیثیات واعتبار ات کا لحاظ نہ ہو تو علم وحکمت باطل ہو جائیں۔
اس کی تفہیم کی آسان صورت یہ ہے کہ زید نے کہا کہ جس کے پاس کم ازکم ایک لاکھ ہو،وہ ہماری نظر میں مالدار ہے۔
بکر نے کہا کہ جس کے پاس کم ازکم دولاکھ ہوتو وہ ہماری نظر میں مالدار ہے۔اب یہاں صرف یہی دواصطلاح ہیں۔اس کے علاوہ کوئی تیسری اصطلاح موجود ہی نہیں ہے۔
آدھے لوگ زید کے متبع ہیں اورآدھے لوگ بکر کے پیروکار ہیں۔
اب خالد کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپے ہیں تو زید نے کہا کہ خالدمالدار ہے،اور بکر نے کہا کہ خالد مالدار نہیں ہے تودونوں کی بات اپنی اصطلاح کے اعتبارسے صحیح ہے۔ہاں،جب خالدکے پاس دولاکھ ہوجائے تو دونوں طبقہ کوتسلیم کرنا ہوگا کہ خالد مالدارہے۔
یہاں دو لاکھ والی صورت کومدنظررکھ کر کفر کلامی سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ جب کفر کلامی ثابت ہوجائے گا تو سب کوکافرماننا ہوگا۔ اگر کفر کلامی ثابت ہوجانے پر بھی کوئی انکار کرے تووہ ثابت شدہ حقیقت کا انکار کرتا ہے۔
جو یہ کہا جاتا ہے کہ تکفیر کلامی کے با ب میں ہرایک کواپنی تحقیق پرعمل کرنا ہے،یہ غلط ہے۔یہ جزئیہ کہاں ہے کہ کفر کلامی میں ہرایک کوذاتی تحقیق کی بنیاد پر کسی کوکافر کلامی کہنے کا حکم ہے
جب کہ یہاں یہ صریح جزئیہ موجود ہے کہ جوکافر کلامی کوکافرنہ کہے تووہ کافر ہے۔اسی کی تعبیرکے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مثلا(من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر)۔اس جزئیہ کے برخلاف کوئی جزئیہ موجودنہیں ہے۔
کافر فقہی کو گمراہ کہنا کیسے صحیح ؟
کافرفقہی کو متکلمین گمراہ کہتے ہیں۔یہ محض لفظی واصطلاحی فرق ہے۔ حکم شرعی میں کچھ فرق نہیں۔ کافر فقہی کے لیے فقہا جو احکام ثابت کرتے ہیں،متکلمین ان احکام کوثابت رکھتے ہیں۔ اسی طرح فقہا کی طرف نسبت کرتے ہوئے متکلمین صریح لفظوں میں کہتے ہیں کہ یہ فقہا کے یہاں کافر ہے،یا یہ کافرفقہی ہے۔
اگر جہات محتملہ میں سے کسی جہت میں احتمال بلادلیل ہوتو فقہا حکم کفر جاری کردیتے ہیں،کیوں کہ فقہا احتمال بلادلیل کوقبول نہیں کرتے ہیں،اور متکلمین احتمال بلادلیل کو قبول کرتے ہیں،اس لیے وہ ملزم کو گمراہ کہتے ہیں،کافر نہیں کہتے۔
متکلمین اس کے کافر فقہی ہونے کا انکارنہیں کرتے،بلکہ اپنی اصطلاح کے اعتبارسے اسے گمراہ کہتے ہیں۔
یہاں محض اصطلاح اورتعبیرکا فرق ہے،ورنہ جوحکم کافرفقہی کاہے ،ان تمام احکام کو متکلمین ثابت رکھتے ہیں،اور فقہا بھی کافر فقہی کے لیے وہ احکام ثابت نہیں کرتے جو کافر کلامی کے احکام ہیں۔
فقہا کے یہاں یہ امر مسلم ہے کہ کافر فقہی گرچہ فقہی قوانین کی روشنی میں کافر ہے،لیکن چوں کہ یہاں احتمال بلادلیل ہے، اس لیے وہ متکلمین کے یہاں کافر نہیں
اسی لیے فقہاکافر متفق علیہ یعنی کافر کلامی کے احکام کافر فقہی کے لیے ثابت نہیں کرتے۔کافر فقہی اور کافر کلامی کے بعض احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
۔(۱) فقہا ومتکلمین کافرکلامی کے تمام اعمال کو باطل قرار دیتے ہیں،جب کہ کافر فقہی کے اعمال کو نہ متکلمین باطل قرار دیتے ہیں،نہ فقہا،کیوں کہ فقہا کو بھی معلوم ہے کہ اس کا خفیف تعلق اسلام سے باقی ہے۔
۔(۲) فقہا ومتکلمین کافرکلامی کے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔اس کی بیوی بائنہ قرار پاتی ہے،جب کہ کافر فقہی کے نکاح کو نہ متکلمین باطل قرار دیتے ہیں،نہ فقہا،کیوں کہ فقہا کو بھی معلوم ہے کہ اس کا خفیف تعلق اسلام سے باقی ہے۔
کافر فقہی کے لیے فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں صرف تجدید نکاح کا حکم ہے،کیوں کہ کفر فقہی کے سبب نکاح میں نقص آجاتا ہے،لیکن نکاح بالکل باطل نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ ابھی اسلام سے ایک خفیف تعلق باقی ہے۔
کافر فقہی وکافر کلامی کے احکام کے فرق سے یہ واضح ہوگیا کہ فقہا کافر فقہی کو کافر کلامی کے برابر ومساوی قرار نہیں دیتے،بلکہ کافر کلامی سے ایک درجہ کم سمجھتے ہیں۔اسی درجہ والے کومتکلمین گمراہ کہتے ہیں۔ کافر کلامی اس کے بعد والے درجہ میں ہوتا ہے۔
کفر کلامی،خروج عن الاسلام کا آخری درجہ ہے، جس میں اسلام سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ کافر فقہی سے متعلق متکلمین وفقہا کا اختلاف محض لفظی واصلاحی ہے،یعنی تعبیری اختلاف ہے،ورنہ کافر فقہی کے احکام فقہا ومتکلمین دونوں کو تسلیم ہیں۔
ایمان وکفر کے مسائل وجزئیات کا ماخذ شرع اسلامی
ایمان وکفر کے مسائل کا ماخذ شریعت اسلامیہ ہے۔ عہد حاضر میں بعض لوگ اپنی عقل سے کوئی صورت متعین کرلیتے ہیں،پھر عبارتوں کی غلط تشریح کرکے اپنے مدعا کوثابت کرتے ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسلاف کرام کے بیان کردہ اصول وضوابط کی معرفت حاصل کی جائے،پھر اس کے موافق تائیدی عبارات تلاش کی جائے۔
منقولہ ذیل دونوں اقتباس میں صراحت ہے کہ ایمان وکفر کے احکام کا مدارومبنی شریعت ہے،نہ کہ عقل۔
امام قاضی عیاض مالکی (۶۷۴ھ-۴۵۵ھ)نے تحریر فرمایا
۔(فصل فی بیان ما ہو من المقالات کفر وما یتوقف او یختلف فیہ وما لیس بکفر- اعلم ان تحقیق ہذا الفصل وکشف اللبس فیہ موردہ الشرع-ولا مجال للعقل فیہ)۔ (کتاب الشفاجلددوم:ص1065)۔
امام غزالی شافعی (۰۵۴ھ-۵۰۵ھ)نے تحریر فرمایا
(الکفرہوتکذیب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی شَیءٍ مما جاء بہ-والایمان تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ-فالیہودی والنصرانی کَافِرَانِ لِتَکذِیبِہِمَا لِلرَّسُولِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وَالبَرہَمِیُّ کَافِرٌ بالطریق الاولٰی، لانہ انکر مع رسولنا سائر المرسلین-والدہری کافر بالطریق الاولٰی، لانہ انکر مع رسولنا المُرسَلَ سَاءِرَ الرُّسُلِ۔
وَہٰذَا لِاَنَّ الکُفرَحُکمٌ شَرعِیٌّ کالرق والحریۃ مثلًا-او معناہ اباحۃ الدم والحکم بالخلود فی النار-ومدرکہ شرعی-فیدرک اما بنص-واما بقیاس علٰی منصوص-وَقَد وَرَدَتِ النُّصُوصُ فی الیہود والنصارٰی-والتحق بہم بالطریق الاولٰی، البراہمۃ والثنویۃ والزناد قۃ والدہریۃ
و کلہم مشترکون فی انہم مکذِّبُونَ لِلرَّسُولِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم– فَکُلُّ مُکَذِّبٍ لِلرَّسُولِ فَہُوَ کَافِرٌ-وَکُلُّ کَافِرٍفَہُوَ مُکَذِّبٌ لِلرَّسُولِ ﷺ فہذہ ہی العلاقۃ المُطَّرِدَۃُ المُنعَکِسَۃُ)۔
(التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ ص26)
تکفیر کلامی کے لیے جہات محتملہ پانچ ہیں۔ان کی تفصیل ”البرکات النبویہ“رسالہ یازدہم میں ہے۔
امر اول :منکر کوامر ضروری دینی کا قطعی علم ہو،یا منکر کسی امر کو قطعی طورپر دینی امر سمجھ کر انکار کرے۔
امر دوم :مفتی کو یہ قطعی طورپرمعلوم ہوکہ منکر امرضروری دینی کو قطعی طورپرجانتا ہے،یاقطعی طورپر دینی امر مان کر انکار کرتا ہے۔
امر سوم :منکر کا انکار قطعی طورپر ثابت ہو۔
امر چہارم :قول کی نسبت قائل کی جانب قطعی ہو۔
امر پنجم :قائل نے اپنے قصدورضا کے ساتھ بلا جبرواکراہ اپنے ہوش وحواس میں وہ قول کہا ہو۔
توضیح :تکفیر کلامی کے باب میں قطعی سے قطعی بالمعنی الاخص مراد ہوتا ہے،جس میں احتمال بلادلیل بھی نہ ہو
رشحات قلم : طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
مسئلہ تکفیر کس کےلیے تحقیقی ہے ؟۔ تمام قسطوں کو پڑھیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع