Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتاختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط ہفتم

اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط ہفتم

از قلم: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط ہفتم

اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط ہفتم

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

سوال اول : کیا لفظ خطا کا استعمال حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے لیے ہوسکتا ہے؟
جواب : بہت سے امور میں مومن کا حکم الگ ہے،اورمومن بہ کا حکم الگ ہے۔محتمل لفظ کا بعض معنی ایسا ہوکہ اس سے مومن بہ کی تنقیص شان نہ ہو، اوربعض معنی ایسا ہوکہ اس سے مومن بہ کی تنقیص شان ہوجائے تو ایسا محتمل لفظ مومن بہ کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے،گرچہ استعمال کرنے والا صحیح معنی مراد لے۔کبھی بعض صحیح لفظ بھی مومن بہ کی تنقیص کی نیت سے بولنا کفر کاسبب ہوتا ہے،گرچہ دوسرے اعتبارسے اس کا استعمال کفر نہیں۔
۔(الف)اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کو لفظ ”راعنا“کے اطلاق سے منع فرمایا،حالاں کہ مومنین اس سے وہ معنی مراد لیتے تھے،جس میں تنقیص نبوی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔یہودیوں کی زبان میں اس کا مفہوم ایسا تھا جوتنقیص پر دلالت کرتا تھا،پس اللہ تعالیٰ نے اس لفظ سے منع فرمادیا،تاکہ سدباب ہوجائے۔
ارشاد الٰہی ہے:((یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ))(سورہ بقرہ:آیت104)۔
ترجمہ:اے ایمان والو!راعنا نہ کہو،اور یوں عرض کروکہ حضو ر ہم پر نظر رکھیں،اورپہلے ہی سے بغو رسنو،اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(کنز الایمان)توضیح:صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی نے آیت قرآنیہ کی تفسیرمیں رقم فرمایا:”جب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کچھ تعلیم وتلقین فرماتے تووہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے:”راعنا یا رسول اللہ“۔اس کے یہ معنی تھے کہ:یا رسول اللہ! ہمارے حال کی رعایت فرمائیے،یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجیے۔یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوئے ادب کے معنی رکھتا تھا۔انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کیا۔حضرت سعد بن معاذ یہود کی اصطلا ح سے واقف تھے۔آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا:اے دشمنان خدا! تم پر اللہ کی لعنت۔اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا،اس کی گردن ماردوں گا۔یہود نے کہا:ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں، مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں۔اس پر آپ رنجیدہ ہوکر خدمت اقدس میں حاضرہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی،جس میں ”راعنا“کہنے کی ممانعت فرما دی گئی، اور اس معنی کا دوسرا لفظ ”انظرنا“(حضور ہم پر نظر رکھیں)کہنے کا حکم ہوا۔مسئلہ:اس سے معلوم ہواکہ انبیاکی تعظیم وتوقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے،اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو، وہ زبان پر لانا ممنوع۔(خزائن العرفان:تفسیر آیت مذکورہ)مسئلہ:دربار انبیا میں آدمی کو ادب کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے۔(خزائن العرفان:تفسیر آیت مذکورہ)۔

امام قرطبی مالکی نے آیت منقوشہ بالا کی تفسیر میں رقم فرمایا:(فیہ خمس مسائل:الاولٰی: قولہ تعالٰی:((یأیہا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا))ذکر شیءًا آخر من جہالات الیہود-والمقصود نہی المسلمین عن مثل ذلک-وحقیقۃ”راعنا” فی اللغۃ،أرعنا ولنرعک،لان المفاعلۃ من اثنین،فتکون من رعاک اللّٰہ،أی احفظنا ولنحفظک،وارقبنا ولنرقبک.ویجوز أن یکون من أرعنا سمعک،أی فرغ سمعک لکلامنا-وفی المخاطبۃ بہذا جفاء،فأمر المؤمنین أن یتخیروا من الالفاظ أحسنہا ومن المعانی أرقہا.قال ابن عباس: کان المسلمون یقولون للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: راعنا-علٰی جہۃ الطلب والرغبۃ-من المراعاۃ-أی التفت إلینا،وکان ہذا بلسان الیہود سبا،أی اسمع لا سمعت،فاغتنموہا وقالوا: کنا نسبہ سرا فالاٰن نسبہ جہرًا، فکانوا یخاطبون بہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویضحکون فیما بینہم،فسمعہا سعد بن معاذ وکان یعرف لغتہم،فقال للیہود:علیکم لعنۃ اللّٰہ! لئن سمعتہا من رجل منکم یقولہا للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاضربن عنقہ-فقالوا:أ و لستم تقولونہا؟فنزلت الاٰیۃ،ونہوا عنہا لئلا تقتدی بہا الیہود فی اللفظ وتقصد المعنی الفاسد فیہ.الثانیۃ-فی ہذہ الایۃ دلیلان:أحدہما-علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیہا التعریض للتنقیص والغض-ویخرج من ہذا فہم القذف بالتعریض-وذلک یوجب الحد عندنا خلافا لابی حنیفۃ والشافعی وأصحابہما حین قالوا: التعریض محتمل للقذف وغیرہ-والحد مما یسقط بالشبہۃ-وسیأتی فی” النور”بیان ہذا،إن شاء اللّٰہ تعالی.الدلیل الثانی-التمسک بسد الذرائع وحمایتہا وہو مذہب مالک وأصحابہ وأحمد ابن حنبل فی روایۃ عنہ-وقد دل علٰی ہذا الاصل الکتاب والسنۃ.والذریعۃ عبارۃ عن أمر غیر ممنوع لنفسہ یخاف من ارتکابہ الوقوع فی ممنوع)(تفسیر قرطبی:جلددوم ص57-مکتبہ شاملہ)توضیح:امام قرطبی مالکی نے فرمایا کہ آیت منقوشہ بالا میں اس بات کی دلیل ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایسے محتمل الفاظ سے پرہیز کیا جائے گا جس میں تنقیص کا شائبہ ہو۔اسی طرح مذکورہ بالا آیت مبارکہ اس بات پر بھی دلیل ہے کہ سد ذرائع کو اختیار کیا
جائے گا،تاکہ ہلاکت میں مبتلا نہ ہو۔امام قرطبی نے فرمایا کہ ذریعہ ایسا امر ہے جوخود جائز ہو،لیکن اس کے ارتکاب سے کسی ناجائز امر میں مبتلا ہونے کا خوف ہو۔چوں کہ مومن بہ کی تنقیص کفر کا سبب ہے،اس لیے مومن بہ کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے گا، جس میں بے ادبی کا شائبہ بھی نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات،حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام،قرآن مجید،ارکان اسلام وجملہ ضروریات دین مومن بہ ہیں۔لفظ میاں کے متعدد معانی ہیں۔بعض معانی اللہ تعالیٰ پر منطبق ہوتے اور بعض معانی منطبق نہیں ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ میاں کے استعمال سے منع کیا گیا۔عام مومنین کے لیے محتمل و مشترک لفظ کا استعمال ہوتا ہے،جیسے لفظ میاں کا استعمال اصحاب فضل کے لیے کیا جاتا ہے۔عہد حاضر میں مشائخ وسجادگان کے لیے لفظ میان کا استعمال عام اورشائع وذائع ہے۔

۔(ب)کبھی بعض صحیح لفظ بھی مومن بہ کی تنقیص کی نیت سے بولنا کفر کاسبب ہوتا ہے،گرچہ دوسرے اعتبار سے اس کا استعمال کفر نہیں۔حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رشتہ کے اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر ہوئے۔اگر کبھی رشتہ بیان کر نے کی ضرورت ہوتو اس کا بیان ہوسکتا ہے۔عام حالات میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بے شماراوصاف فاضلہ کو ترک کرکے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر سے تعبیر کرنا یقینا تنقیص شان کو ظاہر کرتا ہے۔اسی تعبیر کے سبب قتل کا حکم دیا گیا۔ قال القاضی عیاض المالکی:(وَاَفتٰی فُقَہَاءُ الاندلس بقتل اِبنِ حَاتِمِ المُتَفَقِّہِ الطُّلَیطُلِیِّ وصَلبِہ بِمَا شُہِدَ عَلَیہ بہ من استخفافہ بحق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وَتَسمِیَتِہ اِیَّاہُ اثنَاءَ مُنَاظَرَتِہٖ یَتِیمٌ وَخَتَنُ حَیدَرَۃَ)(الشفاء:ص940-دارالکتاب العربی بیروت)قال الخفاجی:((وختن حیدرۃ)ای قال الطلیطلی انہ ختن حیدرۃ ای ابو زوجتہ یعنی فاطمۃ الزہراء-فعبر بہ عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استخفافا بہ فحکموا بقتلہ)(نسیم الریاض:جلد چہارم ص 344-دارالکتاب العربی بیروت)توضیح:علامہ شہاب الدین خفاجی نے رقم فرمایا کہ ابن حاتم طلیطلی نے تنقیص کی نیت سے ایسا کہا،لہٰذا فقہائے اندلس نے ابن حاتم طلیطلی کے قتل کا حکم نافذفرمایا۔اسی طرح مالک بن نویرہ نے تنقیص کی نیت سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ”صاحبکم“کہا تو سیف اللہ حضرت خالدبن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے قتل کا حکم دیا، حالاں کہ قرآن مجید میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے”صاحبکم“کا اطلاق
واردہواہے۔(ما ضل صاحبکم وماغوی)(سورہ نجم:آیت 2)ترجمہ:تمہارے صاحب نہ بہکے،نہ بے راہ چلے۔(کنزالایمان)۔

قال الخفاجی:((واحتج ابراہیم بن حسین بن خالد الفقیہ فی مثل ہذا)وفی نسخۃ:علی مثل ہذا(بقتل خالد بن الولید)رضی اللّٰہ تعالی عنہ(مالک بن نویرۃ)علم من تصغیر نار(لقولہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:صاحبکم)یعنی بہ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم-وفیہ تنقیص لہ بتعبیرہ عنہ بصاحبکم،دون رسول اللّٰہ ونحوہ-واضافتہ لہم دونہ،المشعر ذلک بالتبری من صحبتہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم واتباعہ واستنکافہ-وہو فی غایۃ الظہور) (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض:جلدچہارم ص 339-دارالکتاب العربی بیروت)۔

قال القاری الحنفی:(وسبب ذلک انہ منع الزکاۃ زمن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ- فارسل الیہ خالد بن ولید فی منع الزکاۃ-فقال مالک:انا آتی بالصلوۃ دون الزکاۃ-فقال خالد:أ ما علمت ان الصلوۃ والزکاۃ لا تقبل واحدۃ دون الاخری-فقال مالک:قد کان صاحبکم یقول ذلک-فقال خالد:وما تراہ لک صاحبا-واللّٰہ لقد ہممت ان اضرب عنقک -ثم تجادلا فی الکلام-فقال خالد:انی قاتلک-قال:أ و بذلک امرک صاحبک؟قال:وہذہ بعد تلک-وکان عبد اللہ بن عمر وابوقتادۃ الانصاری حاضرین-فکلما خالدا فی امرہ فکرہ کلامہما -فقال مالک:یا خالد! ابعثنا الی ابی بکر فیکون ہو الذی یحکم فینا-فقال خالد:لا اقالنی اللہ ان اقتلک-فامر ضرار بن الازور بضرب عنقہ)(شرح الشفا للقاری:جلد چہارم ص 339-دارالکتاب العربی بیروت)۔

توضیح : ایسے استعمال میں اگر توہین کا قصدہو تو معاملہ بالکل واضح ہے کہ توہین نبوی کفر ہے۔اگر تنقیص کی نیت نہ ہو تو بے شمار اوصاف فاضلہ کو ترک کرکے کسی عام اور مبتذل لفظ کا استعمال بھی بے ادبی کو ظاہر کرتاہے۔

تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکاررضا

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں

قسط اول کے لیے کلک کریں 

قسط دوم کے لیے کلک کریں

قسط سوم کے لیے کلک کریں

قسط چہارم کے لیے کلک کریں

قسط پنجم کے لیے کلک کریں

قسط ششم کے لیے کلک کریں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن