از قلم : واثق علی فردین رشیدی امیر المجاہدین اور ناموس رسالت
امیر المجاہدین اور ناموس رسالت
کروں ترےنام پہ جاں فدا،نہ بس اک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سےبھی نہیں جی بھرا،کروں کیاکروڑوں جہاں نہیں
امیر المجاہدین شیخ الحدیث استاذ العلما حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری خادم حسین رضوی نوراللہ مرقدہ 22 جون 1966 کو پاکستان کےپنڈی ضلع اٹک گاؤں نکا توت میں کتم عدم سےمنصئہ شہود پر جلوہ افروز ہوئے
آپ نے دنیاوی تعلیم چار کلاس تک مکمل فرمائی،پھر جون 1974 میں آپ نے اٹک سےجہلم کا دینی تعلیم کی حصول کےلیےرخت سفرباندھا،آپ نے وہاں دومدرسوں سےقرآن پاک کےمکمل حافظ بنے
ایک مدرسےسے آپ نے12 سپارے مکمل کیے اور پھر دوسرےمدرسے سے18 سپارےمکمل ہونےکےبعدتقریباً بارہ سال کی عمر میں آپ کےسرپہ دستار حفظ رکھی گئی
اس کےبعد آپ نےدینہ کاسفر کیایہ پاکستان ضلع گجرات کاایک قصبہ ہے،پھر وہاں آپ نےدوسال علم قرآت سیکھا،بعدہ آپ لاہور تشریف لےآئے،پھرآپ اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملّت امام احمد رضا خان بریلوی ، اور علامہ اقبال ،اور اقبال کےمرشد مولانا روم علیہ الرحمہ کےبڑے شیدائی تھے،ان کوپڑھنا شروع کیا،مگرآپ نےزیادہ اقبال کوپڑھا
یہی وجہ ہےکہ آپ اپنےبیانوں میں کثیرتعدادمیں اشعار اقبال پڑھاکرتے،آپ اردو،فارسی،اورپنجابی میں بڑےمہارت رکھتے،آپ اسی طرح معمولات زندگی میں مشغول ہوگئے،مگراک دن قدرت نےایسا کرشمہ دکھایا کہ ایک حادثے میں جان توبچی مگردونوں پیروں سےمعذورہوگئے
لیکن یہ بھی حکمت خداوندی تھی کہ جب معذور حالت میں اس قدر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تعالیٰ عَلَی٘ہ وَسَلَّم وصحابئہ کرام رضوان اللہِ علیھم اجمعین کی عظمت پہ پہرہ دیا،کہ ہالینڈ کاگستاخ قبلہ کی گرفتاری پہ مسرت کا اظہارکرے ، ایوان کفر میں قبلہ کی رحلت پہ مسرت وشادماںی کےگیت گائے جائے
اگراللہ دونوں پیروں کوسلامت رکھتاتو باطلوں،لبرلوں،اور سیکیولروں، کے قلعےاکھاڑپھینکتے،شایداسی لیے یہ حادثہ پیش آیاکہ جذبات کوقابورکھ سکے،آپ اپنےوالدین کےبڑے چہیتےتھے،آپ کو آپ کے والدین سے بےپناہ محبت نصیب ہوئی
مگر 2008 میں ایک موت کی آندھی نے آپ کےسرسےآپ کےوالدماجد کا سائیباں اڑالےگئی،آپ نے اپنےوالد سے وفا رکھی،اور اپنےوالد کواپنےلیے زندہ رکھا آپ اپنےوالد کی تقلید کرتےہوئے اسی تیل کوسرکےلیےاستعمال کرتے جو آپ کے والدماجداستعمال کیاکرتےتھے
پھرآپ کے والدم حترم کاغم ابھی تازہ ہی تھا کہ موت نے والدہ کو بھی اپنی آغوش میں لیے روانہ ہو گئی،اور آپ اسی حالت معذوری میں اپنی والدہ ماجدہ کونمی آنکھوں سےالوداع کہا،اور آپ یتیم الطرفین ہوگئے،مگرآپ نے اپنے والدین کو اپنے یادوں میں اس طرح زندہ رکھاکہ
آپ کی والدہ کا جو تقیہ کلام تھا جو پنجابی میں ہے(پیڑاں ہورتےپھکیاں ہور)اس کا مطلب درد اورہے دوائیاں اور،یہ کلام قبلہ صاحب اکثر اپنےبیانوں میں استمعال فرماتےرہے،آپ کےوالدماجدآپ سےاس قدرمحبت کرتےکہ آپ سے کوئی بلندآوازسےگفتگوکرتا توآپ کے والد کوناگوارگزرتا ۔
اور آپ کی گردن مبارک پرآپ کےوالدماجدمحترم جناب لعل خان صاحب بارہاچومتےرہتے،اورچومےبھی کیوں نہ آپ کےوالدماجدکویہ ضرورکشف ہواہوگاکہ اللہ نےجس ذات کومیرےصُلب سےتخلیق فرمائی وہ اِسی گردن کواک دن ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم پہ قربان کرنےکےلیےحاضرکردے گا
اور یہی ہواکہ زمانےنےدیکھاقبلہ امیر المجاہدین نےناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی دہلیزکےایسےچوکیداربنے،کہ وقت کےحکومت کی قلعےاکھڑگئے،اور یہودی نواز حکومت کوگھٹنےٹیکنےپہ مجبورکردیا، قبلہ ہرچیزبرداشت کرسکتےتھے مگرناموس رسالت میں بڑےحساس تھے،وہ معاملہ ختم نبوت پراگرمگرکی بات سننا پسند نہیں کرتے،قبلہ اسی شعر کودہراتےجو ایک صدی پہلےمرے امام کہہ گئے ،
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھاغیرسے کام
اب کئی دنوں سےیہ نعرےٹھنڈےپڑگئےہیں،ان نعروں میں وہ روانی وہ جوانی نظر نہیں آرہی ہے جوقوت جو دبدبہ جوانقلاب باباجی کی آواز سےآتی تھی،نعرہ وہی،انداز وہی، مگر آواز بدلنےسےان نعروں کی کیفیت تبدیل ہوگئی،
اور ایسےہی کئی انقلابی نعروں سےسوئےہوئےامت کوبیدارکر خودآرام کی نیندسوگئے
مگرامت باباجی کےاحسان فراموش نہیں کرےگی،کیوں کہ باباجی گئےہیں ضرورمگرکائنات کواپنا جانشین عطافرماگئےہیں،جب ایک خادم تھا اب توبچہ بچہ خادم نظر آرہاہے،قبلہ باباجی اس طرح ناموس رسالت پہ حساس تھے کہ،
مَن٘ سَبَّ نَبِیًّا فَااق٘تُلُوہ جو نبی کےبارےمیں بکواس کرے اس کوکاٹ کے رکھ دو
باباجی لبرل اور سیکولروں کی مخالفت کرتےتھےناموس رسالت کہ مسئلےمیں لبرلوں کی،سیکیولروں کی،یہ دلیلیں ہوتی ہیں،کہ بڑھیاکچڑاپھیکتی تھی مگر سرکارنےانکومعاف فرمادیا مگرعشاق کی ایک ہی دلیل ہوتی ہیں ،
مَن٘ سَبَّ نَبِیًّا فَااق٘تُلُوہ جو نبی کےبارےمیں بکواس کرےاس کوکاٹ کےرکھ دو
ایک مرتبہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اپنےہاتھ میں ایک انسانی سرلیےسرکارکی بارگاہ حاضرہوئےسرکار نےفرمایایہ کس کا سرہے صحابی نےعرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرےباپ کا سر ہے سرکارﷺ نے فرمایا کیوں قتل کیا
صحابی نےعرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تعالیٰ عَلَی٘ہ وَسَلَّم کی شان بےنیاز میں خباثت بک رہا تھا،یارسول اللہ میں نے سمجھایا مگرنہ سمجھا،یارسول اللہ میری غیرتِ ایمانی نے مجھے جھنجھوڑ کےرکھ دیا،مجھےگوارانہ ہواکہ میرےسامنےمیرےمحبوب کی کوئی گستاخی کرےمیں خاموش رہوں،یارسول اللہ میں نےقتل کردیا
نبی ﷺ اپنی جگہ سےاٹھےاور صحابی کےپیشانی کوبوسہ دیا، لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
باباجی اس کےقائل تھے ، امید ہےقوم اسی پرثابت قدم رہے گی، ان شاءاللہ عزوجل
تجھےترے بعد تحقیق کررہی ہے دنیا
تجھےڈھونڈرہے ہیں اب یہ زمانےوالے
ازقلم واثق علی فردین رشیدی
تاراباڑی بائسی پورنیہ انڈیا
ان مضامین کو بھی پڑھیں
آہ امیر المجاہدین محافظ ناموس رسالت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع