تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط نہدہم گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے میں دئیے گیے ہیں ضرور پڑھیں اور دوست و احباب کو شئیر بھی کریں
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط نہدہم
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی ؟
اٹھارہویں قسط میں باب عقائدمیں استدلال سے متعلق تین مذاہب بیان گئے تھے ۔تیسرا مذہب حضرت امام ابوالحسن اشعری کی طرف منسوب تھا ۔ان کی طرف منسوب مذہب اور فریق اول کے مذہب کی وضاحت اس قسط میں مرقوم ہے۔
قال علی القاری الحنفی(930ھ-1014ھ):(ومنہا:ان ایمان المقلد الذی لا دلیل معہ صحیح- قال ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ وسفیان الثوری ومالک والاوزاعی والشافعی واحمد وعامۃ الفقہاء واہل الحدیث رحمہم اللّٰہ تعالٰی:صح ایمانہ ولکنہ عاص بترک الاستدلال،بل نقل بعضہم الاجماع علی ذلک۔
وعند الاشعری لا بد ان یعرف ذلک بدلالۃ العقل
وعند المعتزلۃ ما لم یعرف کل مسألۃ بدلالۃ العقل علی وجہ یمکنہ دفع الشبہۃ،لا یکون مومنا)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص 403-دار السلامہ بیروت)
توضیح :مذکورہ بالا اقتباس میں بیان کیا گیا کہ امام اشعری کے یہاں عقلی دلائل کی روشنی میں اسلامی عقائد کا علم ویقین حاصل ہو۔
قال علی القاری الحنفی:(واما من لم تبلغہ الدعوۃ وراٰہ مسلم-ودعاہ الی الدین واخبرہ ان رسولا لنا بلغ الدین عن اللہ تعالی ودعانا الیہ-وقد ظہرت المعجزات علی یدیہ-وصدق ہذا الانسان فی جمیع ذلک-فاعتقد الدین من غیر تأمل وتفکر فیما ہنالک-فہذا ہو المقلد الذی فیہ خلاف بیننا وبین الاشعری)۔
۔(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص 404-دار السلامہ بیروت)۔
توضیح :جس غیر مسلم کو کسی مومن نے کہا کہ ہمارے درمیان ایک رسول تشریف لائے ،جن کے ہاتھوں پر معجزات ظاہر ہوئے اورانہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ کا دین عطافرمایا ۔یہ سب سن کراس غیر مسلم نے یقین کرلیا اور ایمان قبول کرلیا اور غوروفکر نہ کیا ،یعنی عقلی استدلال نہ کیا تو یہ مومن ہے ،لیکن امام اشعری کا اس پر اعتراض ہو گا۔
قال علی القاری:(وقال الاشعری:شرط صحۃ الایمان ان یعرف کل مسئلۃ من مسائل الاصول بدلیل عقلی-غیر ان الشرط ان یعرف ذلک بقلبہ-ولا یشترط ان یعبر عن ذلک بلسانہ-وہذا وان لم یکن مؤمنا عندہ علی الاطلاق-ولکنہ لیس بکافر لوجود ما یضاد الکفر-وہو التصدیق-فہو عاص بترک النظر والاستدلال-وہو فی مشیئۃ اللہ تعالی کسائر العصاۃ ان شاء اللہ عفا عنہ وادخلہ الجنۃ-وان عذبہ بقدر ذنبہ وصار عاقبۃ امرہ الی الجنۃ-انتہی۔
ولا یخفی ان ہذا مناف لما صدرہ من کلامہ حیث جعلہ شرط صحۃ الایمان-فان ارید بہ شرط صحۃ کمال الایمان-فہو موافق مع الجمہور فی ہذہ المسئلۃ)۔
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص4 40-دار السلامہ بیروت)
توضیح:امام اشعری کے منقولہ بالا قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کمال ایمان کے لیے استدلال عقلی کی شرط لگائی ہے۔اگر ایسا ہے ،تب ان کا قول جمہورعلما کے قول کے موافق ہے۔
امام اشعری پرافترا
مندرجہ ذیل عبارتوں میں صراحت ہے کہ ایمان مقلد کے غیر صحیح ہونے کا قول امام اشعری کی طرف جو منسوب ہے ،وہ غلط ہے اوران پر افترا ہے۔علامہ علی قاری کی منقولہ بالا عبارت سے بھی یہی ظاہر ہے۔
قال العلامۃ البدایونی:}واعلم ان الاستدلال لَیْسَ شَرْطًا لِصِحَّۃِ الْاِیْمَانِ عَلَی الْمُخْتَار-حَتّٰی صَحَّحُوْا اِیْمَانَ الْمُقَلِّدِ-وَقَالَ الْاُسْتَاذُ ابوالقاسم القشیری:اِنَّ نَقْلَ الْمَنْعِ عَنِ الْاَشْعَرِیِّ اِفْتِرَائٌ عَلَیْہِ{(المعتقعد المنتقد: ص200-المجمع الاسلامی مبارک پور)۔
توضیح :امام ابوالحسن اشعری کی جانب ایک قول منسوب ہے کہ آپ نے عقلی استدلال کولازم قرار دیا ہے تو یہ آ پ پر افترا ہے۔درج ذیل عبارت میں بھی اسی کی صراحت ہے۔
قال الکمال ابن ابی الشریف:((واعلم ان الاستدلال)الذی بہ یکتسب التصدیق القلبی(لیس شرطا لصحۃ الایمان علی المذہب المختار)الذی علیہ الفقہاء وکثیر من العلما(حتی صححوا ایمان المقلد ومنعہ کثیر)وہم المعتزلۃ،کذا فی العمدۃ والبدایۃ وغیرہما-ونقل المنع عن الشیخ ابی الحسن الاشعری فقال الاستاذ ابوالقاسم القشیری انہ افتراء علیہ))(المسامرۃ شرح المسایرۃ لابن الہمام جلددوم:ص191-190-مطبعۃ السعادۃ:مصر)۔
فریق اول کے دلائل
فریق اول کا مذہب یہ ہے کہ ایمان مقلد صحیح ہے جب کہ اس مقلد کو یقین واعتقاد حاصل ہو۔
قال علی القاری:(وتحقیقہ ان الرسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلم عد من آمن بہ وصدقہ فیما جاء بہ من عند اللّٰہ تعالٰی مومنًا-ولم یشتغل بتعلیمہ الدلائل العقلیۃ فی المسائل الاعتقادیۃ-وکذا الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم حیث قبلوا ایمان الزط والانباط مع قلۃ اذہانہم وبلادۃ افہامہم۔
ولولم یکن ذلک ایمانًا لفقد شرطہ وہو الاستدلال العقلی لاشتغلوا باحد الامرین :اما بالاعراض عن قبول اسلامہم او بنصب متکلم حاذق بصیر بالادلۃ عالم بکیفیۃ المحاجۃ لتعلیمہم صناعۃ الکلام والمناظرۃ،ثم بعد ذلک یحکمون بایمانہم۔
وعند امتناع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وامتناع کل من قام مقامہم الٰی یومنا ہذا من ذلک،ظہر ان ما ذہبوا الیہ باطل،لانہ خلاف صنع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلم واصحابہ العظام رضی اللّٰہ عنہم وغیرہم من الائمۃ الکرام)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص406-دار السلامہ بیروت)
توضیح :علامہ علی قاری حنفی کے قول (ان ما ذہبوا الیہ باطل)سے مراد یہ ہے کہ جس جانب معتزلہ گئے،وہ باطل ہے۔جب حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور آج تک علمائے اسلام استدلال عقلی کے بغیر ایمان کو قبول کرتے ہیں اور جو عقلی استدلال سے واقف نہ ہو ،اس کو بھی مومن قرار دیتے ہیں تو پھر ایمان کے لیے عقلی استدلال کی شرط کہاں سے آگئی ؟
امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:(اختلفوا فی ایمان من صدق بضروریات الدین علی جہۃ محض التقلید لغیرہ کأبائہ او اساتذتہ مثلا-فقیل لا یصح-نقلہ بعضہم عن الامام ابی الحسن الاشعری-والقاضی ابی بکر الباقلانی،والاستاذ ابی اسحاق الاسفرائینی وامام الحرمین وعزاہ الی الجمہور -بل بالغ بعضہم فحکی علیہ الاجماع وعزاہ ابن القصار للامام مالک۔
وقال الامام القرطبی المالکی فی شرح صحیح مسلم:الذی علیہ ائمۃ الفتوی-و بہم یقتدی کمالک والشافعی وابی حنیفۃ واحمد بن حنبل وغیرہم من ائمۃ السلف رضی اللہ تعالی عنہم-ان اول الواجبات علی کل مکلف الایمان التصدیقی الجزمی- الذی لا ریب معہ باللہ تعالی ورسلہ وکتبہ-وما جائت بہ الرسل علیہم الصلوۃ والسلام -علی ما تقرر فی حدیث جبریل علیہ الصلوۃ والسلام-کیفما حصل ذلک الایمان- وبای طریق الیہ توصل -واما النطق باللسان فمظہر لما استقر فی القلب-وسبب ظاہر تترتب علیہ احکام الاسلام:اھ
وقال ایضًا فیہ بعد سرد الایمانیات:مذہب السلف وائمۃ الفتوی من الخلف ان من صدق بہذہ الامور تصدیقا جزما لاریب فیہ ولا تردد ولا توقف کان مؤمنا حقیقۃ-وسواء کان ذلک عن براہین قاطعۃ او عن اعتقادات جازمۃ-علی ہذا انقرضت الاعصار الکریمۃ-وبہ صرحت فتاوی ائمۃ الہدی المستقیمۃ
حتی حدثت مذاہب المعتزلۃ المبتدعۃ-فقالوا:انہ لا یصح الایمان الشرعی الا بعد الاحاطۃ بالبراہین العقلیۃ و السمعیۃ-وحصول العلم بنتائجہا ومطالبہا ومن لم یحصل ایمانہ کذلک فلیس بمؤمن وتبعہم علی ذلک جماعۃ من متکلمی اصحابنا کالقاضی ابی بکر وابی اسحاق الاسفرائینی وابی المعالی فی اول قولیہ۔
والاول ہو الصحیح اذ المطلوب من المکلفین ما یقال علیہ ایمان-والایمان ہو التصدیق لغۃ وشرعا-فمن صدق بذلک کلہ ولم یجوز نقیض شیء من ذلک-فقد عمل بمقتضی ما امرہ اللّٰہ تعالی بہ علٰی نحو ما امرہ اللّٰہ تعالی۔
ولان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم-واصحابہ بعدہ حکموا بصحۃ ایمان کل من آمن وصدق بما ذکرناہ-ولم یفرقوا بین من آمن عن برہان-او عن غیرہ-ولانہم لم یامروا اجلاف العرب بتزید النظر-ولا سألوہم عن ادلۃ تصدیقہم ولا اّرْجَوا ایمانہم حتی ینظروا وتحاشوا عن اطلاق الکفر علی احد منہم-بل سموہم المؤمنین والمسلمین۔
ولان البراہین التی حررہا المتکلمون ورتبہا الجدلیون انما احدثہا المتأخرون- ولم یخض فی شیء من تلک الاسالیب السلف الماضون- فمن المحال والہذیان ان یشترط فی صحۃ الایمان ما لم یکن معروفا ولا معمولا بہ لاہل ذلک الزمان)
(المعتمد المستند :ص199-198-المجمع الاسلامی مبارکپور)
توضیح :منقولہ بالا عبارت میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ اسلاف کرام نے کبھی استدلال کا مطالبہ نہیں کیا ۔جس نے ایمانیات کی تصدیق یقینی کرلی ،اس کومومن تسلیم کیا گیا۔ معتزلہ نے ایمان کے لیے استدلال کی بحث کا آغاز کیا ۔اس کے بعدچند علما ئے اہل سنت بھی اسی کے قائل ہوگئے ،حالاں کہ عہدرسالت سے یہی طریق کار رائج ہے کہ تصدیق یقینی والے کو مومن سمجھا جاتا ہے۔
معتزلہ کا وجود عہد رسالت ،عہد صحابہ ،بلکہ عہد تابعین کے بعد ہوا۔یہ لوگ ہارون رشید کے زمانے میں قلیل التعداد تھے اور مامون رشید کے زمانے میں معتزلہ کا عروج ہوا۔اسی عہد سے متکلمین اسلام بھی اعتقادی امور پر عقلی دلائل رقم فرمانے لگے،اسی لیے متاخرین کے علم کلام میں علوم عقلیہ کی اصطلاحات اور طرز استدلال داخل ہوگئی۔
متقدمین کے علم عقائد میں عقلیات شامل نہیں ۔شرح عقائدنسفی کے ابتدائی حصہ میں اس کی تفصیل مرقوم ہے۔
فریق اول کے مذہب کی وضاحت
قال الامام احمد رضا القادری:(وانا اقول وبحول اللہ احول:ان الایمان انما ہو لمعان نُوْرٍ-وکشف سترہ و شرح صَدْرٍ یقذفہ اللّٰہ فی قلب من یشاء من عبادہ-سواء کان ذلک بنظر او مجرد سماع -ولا یسوغ لعاقل ان یقول:لا یحصل الایمان اِلَّا بِالنَّظْرِ وَالْاِسْتِدْلَالِ-کَلَّا وَاللّٰہ-بَلْ رُبَّمَا یَکُوْنُ اِیْمَان بعض من لا یعرف الاستدلالَ اَتَمُّ وَاَحْکَمُ مِنْ ایمان بعض من بلغ الغایۃ فی المراء والجدال-فَمَنْ یُشْرَحُ صَدْرُہٗ لِلْاِسلام وَیَجِدُ قَلْبَہٗ مُطْمَئِنًّا بِالْاِیْمَانِ فَہُوَ مُوْمِنٌ قَطْعًا -وَاِنْ لَمْ یَعْرِفْ-مِنْ اَیْنَ اَتَتْہُ ہٰذِہِ النِّعْمَۃُ الْکُبْرٰی-وہذا مَعْنٰی قَوْلِ الْاَئِمَّۃِ الْاَرْبَعَۃِ وَغَیْرِہِمْ مِنَ الْمُحَقِّقِیْنَ رضی اللّٰہُ تَعَالٰی عنہم اجمعین-اَنَّ اِیْمَانَ الْمُقَلِّدِ صَحِیْحٌ-ارادوا بہ من لا یعرف الاستدلال واسالیب الجدل وتصاریف الکلام)
(المعتمد المستند: ص200-199-المجمع الاسلامی مبارکپور)
قال الامام احمد رضا-ان عدم صحۃ ایمان المقلد ہومذہب ضعیف-ثم قال (المعتبر فی الایمان شَرْعًا،الْجَزْمُ الْقَاطِعُ-سَوَائٌ حَصَلَ عَنْ اِسْتِدْلَالٍ اَوْ تَقْلِیْدٍ)۔
(المعتمد المستند: ص197-المجمع الاسلامی مبارکپور)
توضیح :سترہویں قسط میں باب ایمانیات کے مقلد کی دوقسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ایک کا ایمان صحیح ہے ، یعنی جس کوعقائد اسلامیہ کا یقین واعتقاد حاصل ہے ،اس کا ایمان صحیح ہے۔اگر اس کو استدلال کی قوت تھی اور استدلال نہ کیا ، تب ترک استدلال کے سبب بعض علما کے یہاں گنہ گار ہے اور بعض علما کے یہاں استدلال کمال ایمان کے لیے ضروری ہے تو ان کے یہاں گنہ گار بھی نہیں ہوگا ۔
الحاصل ایمان مقلد اہل سنت وجماعت کے یہاں صحیح ہے ۔استدلال عقلی کی شرط جمہورعلماکے یہاں نہیں۔
استدلال کا حکم کمال ایمان کے لیے ہے۔ جو ایمان کے لیے استدلال کو لازم کہتے ہیں تووہ اہل نظر کے لیے لازم کہتے ہیں۔غیراہل کے لیے یہ حکم نہیں اورعدم استدلا ل کے سبب گنہ گار ہوگا ،نہ کہ ایمان سے خارج ۔
فریق دوم نے استدلال کولازم کہا تو اب یہاں متعدد سوالات ہوں گے۔
۔(۱)کن امور میں استدلال کا حکم ہے؟
۔(۲) استدلال سے مراد اس عقیدہ کی دلیل کا علم حاصل کرنا ہے ۔ ایسانہیں کہ مستدل کے نزدیک اس کی اپنی دلیل سے جو عقیدہ ثابت ہو،وہ اس عقیدہ کو مانے۔
اگر ایسا ہوجائے ،تب تو باب عقائد میں بھی متعدداور متضاد عقائد پائے جائیں گے۔کوئی ایک معبود کا قائل ہوگا اورکسی کے استدلال سے متعددمعبود ثابت ہوسکتے ہیں ،کیوں کہ ہراستدلال صحیح نہیں ہوتا ۔
۔(۳)کافر کلامی کو کافر ماننے کا عقیدہ استدلالی امور میں شامل ہے یا نہیں؟
مسئلہ تکفیر کلامی میں عام مسلمانوں اور غیر متکلم فقہا کوکلام کی اجازت نہیں۔دیگر متکلمین کوکلام کی اجازت توہے ،لیکن جس طرح اسلامی عقائدمیں استدلال سے دلیل کا علم حاصل کرنا مراد ہے ،اسی طرح جو کافر کلامی ہے ،اس کے کفر کے دلائل معلوم کرنے کا حکم ہوگا ،نہ کہ اختلاف کا حکم ہوگا ۔
اس توضیح سے خلیل بجنوری اور مذبذبین کا یہ نظریہ باطل ہوگیا کہ ہرایک کواپنی تحقیق پر عمل کا حکم ہوگا ,یعنی جس کی تحقیق میں کفر ثابت ہو,وہ کافر مانے اور جس کی تحقیق میں کفر ثابت نہ ہو,وہ کافر نہ مانے۔اہل باطل کا یہ نظریہ باطل ہو گیا:فالحمد للہ علی ذلک
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں
قسط اول 1
قسط دوم 2
قسط سوم 3
قسط پنجم 5
قسط ششم 6
قسط ہفتم 7
قسط ہشتم 8
قسط نہم 9
قسط دہم 10
قسط یازدہم 11
قسط دازدہم 12
قسط سیزدہم 13
قسط چہاردہم 14
قسط پانزدہم 15
قسط شانزدہم 16
قسط ہفدہم 17
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع