تحریر:طارق انور مصباحی کیرلا توبہ کرنا ایک نیک عمل ہے
توبہ کرنا ایک نیک عمل ہے
مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
شرعی طور پر جو کام غلط ہو,اس سے توبہ کی جاتی ہے۔گناہ صغیرہ وکبیرہ,ناجائز وحرام اور ضلالت و کفر کے ارتکاب پر توبہ کرنے کا حکم ہے,تاکہ بندوں کی دنیا و آخرت درست ہو۔
کبھی اہل علم سے شعوری یا لاشعوری طور پر کچھ ایسی باتیں صادر ہو جاتی ہیں جن میں تاویل کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور بعض اعتبار سے حکم کفر بھی عائد ہوتا ہے۔یعنی وہ قول کفری معنی میں متعین نہیں ہوتا۔
بعض علما کسی تاویل کے سبب حکم کفر عائد نہیں کرتے اور بعض علما حکم کفر عائد فرماتے ہیں۔
دراصل بعض تاویل بعید ہوتی ہے جو فقہا کے یہاں قبول نہیں کی جاتی ہے اور متکلمین کے یہاں قبول کی جاتی ہے,پس تاویل بعید کی صورت میں کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا,لیکن کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔
مفتی کو اس بات کی صراحت کر دینی چاہئے کہ یہ تاویل قریب ہے یا تاویل بعید اور کفر کلامی کا حکم مرتفع ہو رہا ہے یا کفر فقہی کا۔اگر دونوں کا حکم مرتفع ہو رہا ہے اور وہ کلام کفری معنی میں محتمل ہے تو محتمل کلام پر حرمت کا حکم اور توبہ کا حکم عائد ہوتا ہے۔
البرکات رسالہ پنجم:باب اول میں تفصیل مرقوم ہے۔
عہد حاضر میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی تاویل مل گئی تو قائل کو توبہ ورجوع سے چھٹی مل جاتی ہے۔مفتی میں اتنی قابلیت ہونی چاہئے کہ وہ کتابوں میں مرقوم تاویلات میں فرق کر سکے کہ وہ تاویل قریب ہے یا تاویل بعید۔ کون سا کفر مرتفع ہو رہا ہے اور کون سا کفر ثابت ہو رہا ہے۔اگر کسی قسم کا کفر ثابت نہیں ہو رہا ہے تو حرمت کا حکم ہے یا نہیں؟
ایسے موقع پر صاحب معاملہ خود بھی مفتی سے تفتیش کر لے کہ کون سا کفر مرتفع ہو رہا ہے۔اگر کفر کلامی کا حکم مرتفع ہو رہا ہو اور کفر فقہی یا حرمت کا حکم ہو تو توبہ کرنے کا حکم ہو گا۔
یہ بات تو بالکل سچ ہے کہ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ لوگ توبہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے ہیں,حالاں کہ توبہ کرنا ایک نیک کام ہے,جس کا حکم قرآن و حدیث میں دیا گیا۔
ہمارے معاشرہ کا غلط ماحول اور شیطان کا وسوسہ یہ دونوں توبہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔شیطان تو انسانوں کا کھلا دشمن ہے,لیکن کیا ہم اپنے ماحول کو بھی درست نہیں کر سکتے؟
ارباب علم و فضل غور کریں اور ایسی ماحول سازی کریں کہ توبہ کرنے والوں کو توبہ کے سبب ننگ و عار محسوس نہ ہو۔
کسی سے کچھ غلطی کا صدور ہو اور اس میں تاویل کی گنجائش ہو تو قائل سے اس کی مراد دریافت کریں اور پھر وہ مراد شرعی طور پر غلط ہو تو فتوی دینے سے قبل قائل کو توبہ کی ترغیب دیں۔اگر اس نے توبہ کر لی تو بات ختم ہو گئی۔اگر توبہ نہ کرے تو فتوی جاری کرنے سے قبل متعدد علمائے کرام کے ذریعہ توبہ کی ترغیب دلائی جائے۔
فتوی جاری ہونے کے بعد غیرت و حمیت کے سبب لوگ توبہ نہیں کرتے اور پھر اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مشورہ اس صورت سے متعلق ہے کہ جب کسی خاص شخص پر حکم عائد کیا جائے اور کسی جرم کا عام حکم بیان ہونا چاہئے,تاکہ لوگ اس جرم میں مبتلا نہ ہوں۔
اسی طرح متعین فی الکفر کلام میں بھی فتوی جاری کرنے سے قبل توبہ ورجوع کی ترغیب دی جائے۔دراصل صاحب معاملہ کو بھی غوروفکر کرنا چاہئے۔اصل معاملہ اسی کی آخرت سے متعلق ہے۔
عہد حاضر میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مفتیان کرام علم کلام سے مشغولیت کم رکھتے ہیں اور کلامی مسائل کو بھی فقہی طرز پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں,حالاں کہ ایسے مسائل میں علم کلام کے مشتغلین سے رائے طلب کرنی چاہئے۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکا ر رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع