ایک نہایت ہی خوف ناک صورت حال کی دستک بسا اوقات ہم وہی کر رہے ہوتے ہیں،جو غیر ہم سے کروانا چاہتے ہیں تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی
ایک نہایت ہی خوف ناک صورت حال کی دستک
تاریخی اعتبار سے مرعوبیت کے اثرات سے انکا ر نہیں ۔ ایسا اکثر ہوا ہے کہ علمی ، صنعتی اور فوجی طاقت کے زیر اثر رہنے والے خود اپنی تہذیب وثقافت اور دین ومذہب نہ صرف فراموش کربیٹھے ، بلکہ اُن کی نقل اتارتے اتارتے اس قدر بدل گئے کہ ہمیشہ کے لیے انہیں کے ہوکر رہ گئے ۔
مثال کے طور پر کہا جاتاہے کہ جن دنوں اسپین اور عراق ساری دنیا میں علم و آگہی کا مرکز ہوا کرتا تھا، اُس زمانے میں اہل مغرب عربی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے تھے اور جبہ وقبا بھی شوق سے زیب تن کر لیاکرتے تھے ۔
کیا اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی ہے کہ غیروں کی انتہائی خواہش دوہے پہلی یہ کہ اسلام کا چہرہ اس قدر مسخ کردیا جائے کہ مسلمان اپنے دین ومذہب سے برگشتہ ہوجائیں ۔اس ہدف کی تکمیل کے لیے کبھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر کیچڑ اچھالنے کی جرأت کی جاتی ہے
کبھی اسلام کو دہشت پسند مذہب کے خانے میں ڈالنے کی ناکام کوششیں ہوتی ہیں، کبھی تو اسلام پر جارحانہ تنقید کرنے والے نام نہاد مفکرین کی پذیرائی کی جاتی ہے اور کبھی مسلمانوں کی پس ماندگی اورزبوں حالی کا سارا بخار مذہب وملت پراتاراجاتاہے ۔
اور غیروں کی دوسری خواہش یہ ہے کہ اگر مسلمان پورے طورپر اپنا مذہب تبدیل نہیں کرتے ، توپورے طورپر انھیں اسلام سے قریب بھی نہ رہنے دیا جائے ۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیےکبھی قرآن کریم کو ناقابل عمل اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوغیر مستند قرار دے کر شریعت اسلامیہ کی پابندی سے آزادکرانے کی کوشش کی جاتی ہے ، کبھی بنام وسعت نظری دوسرے مذاہب کے بعض معمولات اپنانے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ۔
خیال رہے کہ متذکرہ بالا دونوں اہداف میں ، پہلے کی بہ نسبت دوسری خواہش زیادہ مہلک ، خطرناک اور قابل تشویش ہے ، اس لیے کہ پہلے ہدف کے تانے بانے اور ظاہری خدوخال سے مسلمان ہوشیار ہوجاتاہے ۔
اس طرح وہ پورے طورپر دین اسلام ترک کرنے کا خیال دل سے نکال دیتاہے ۔ تاہم دوسرا ہدف بظاہر اس قدر پرکشش اور خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتاہے کہ مسلمان غیر دانستہ طورپر سب کچھ لٹاچکا ہوتاہے ، لیکن اسے خبر تک نہیں ہوتی ۔
دست بستہ عرض یہ ہے کہ آج کی نشست میں ہم اسی دوسرے پہلو پر کچھ دیر بات کرتے ہیں ۔ حال ہی میں جنوبی ہند سے یہ اطلاع آئی ہے کہ
Cheruvally Muslim Jamaat Mosque
میں ایک غیر مسلم کی شادی کے لیے اہتمام کیا گیا، جس کی ویڈیوگرافی میں صاف نظر آرہاہے کہ مسجد کے داخلی حصے میں انگیٹھی رکھی ہوئی ہے ، کنارے مورتی بھی موجود ہے ،پنڈت جی براجمان ہیں اور دلہا دلہن اپنے عقیدے کے مطابق آگ کے پھیرے لے رہے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کے لیے بھی اہم تھی اور ترقی پسند مسلمانوں کے لیے بھی ، لہذا اس کی خوب خوب تشہیر کی گئی ۔ سماجی برقی روابط کے ذرائع میں ستائشی کلمات کا تبادلہ ہوا اور اسے اس طرح پیش کیا گیا کہ اب مسلمان وسیع النظر ہورہے ہیں اور بین المذاہب ہم آہنگی پیدا ہورہی ہے ۔
ٹھیک اسی طرح اطلاعات کے مطابق ہندوستان کے بعض مزارات میں دیوالی کے موقع پر دیپ جلانے اور ہولی کے موقع پر رنگ سے کھیلنے کی روایت بھی شروع ہوچکی ہے ۔بہت ممکن ہے کہ یہ تقریبات ہم وطن منعقد کرتے ہوں ، لیکن اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ ایسے مواقع پر درگاہوں کے بعض ذمہ دار اور عام زائرین میں سے بھی کچھ لوگ شریک ہوجاتے ہیں ۔ اور تماشہ یہ ہے کہ اس کی توجیہ کرتے ہوئے یہ کہا جاتاہے کہ صوفی ازم میں مذاہب کے درمیان بھید بھاؤ نہیں ۔
انھیں شاید خبر نہیں کہ بھید بھاؤنہ ہونے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کہ دوسروں کے مذہبی تہوار وں کے مواقع پر ہونے والی تقریبات میں شرکت کی اجازت ہے ، بلکہ بھید بھاؤ نہ ہونے سے مراد صرف اس قدر ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت ہرپریشان حال کی نصرت واعانت کی جاے اور اس پس منظر میں پریشان حال انسانوں کے مذاہب نہ معلوم کیے جائیں ۔
بلاشبہ یہ شریعت اسلامیہ کے قطعی خلاف نہیں ہے ، اس لیے کہ جو مذہب ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے والی خاتون کوجنت کی بشارت دیتاہے ، اُس کےنزدیک کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے بھوکے ، پیاسے اور ضرورت مند انسان کی داد رسی محمود وپسندیدہ اور باعث اجروثواب کیوں نہ ہوگی ۔
اسی طرح ہند وپاک میں بعض سیاسی پارٹیوں کے مسلم قائدین ہولی اور دیوالی کے مواقع پر ہندومذہبی پروگرامات میں دھڑلے سے شرکت کرتے ہیں۔یوں ہی میں نے امریکہ کے بعض شہروں میں پاکستان سے تعلق رکھنے مسلمانوں میں بسنت کا تہوار نہایت ہی اہتمام سے منانے کی روایت بھی سنی ہے ، جو اب تیزی سے اپنا حلقہ وسیع کررہی ہے
نیز رکچھا بندھن کے مو قع پر بعض ہندو لڑکیوں کا مسلم نوجوانوں کی کلائی پر مذہبی علامت باندھنے کی رسم بھی خوب عام ہورہی ہے ۔
جان کی امان ملے توعرض کروں کہ ’’گنگاجمنی ‘‘ تہذیب کی اصطلاح کا بھی بہت بے جا استعمال شروع ہوگیا ہے ۔ عام طور پرلوگ شاید یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہندوستانی سرزمین پرپائے جانے والے مذاہب سے قربت غیر مناسب نہیں ہے، بلکہ کچھ تواسے ترقی یافتہ ، وسیع النظر اور لبرل ہونے کی علامت قرار دیتے ہیں ۔
وہ یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اسلامی شریعت کی روشنی میں اس عمل کی اجازت ہے بھی یا نہیں ۔
اس طرح کے لوگوں کو معاشرے میں ’سول سوسائٹی ‘ کے بھاری بھرکم الفاظ سے یاد کیا جاتاہے اور اسے معیوب قطعی نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ معیوب توجانے دیجیے ، اسے نہایت ہی محبوب ، پسندیدہ اور قابل تعریف عمل سمجھا جاتاہے اور ایسے افراد کو باضابطہ علاقائی تقریبات میں اعزازات وانعامات سے بھی نواز اجاتاہے ۔
صاحبو! میں انسانی بنیادوں پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے تعلقات رکھنے کے خلاف نہیں ہوں ، بلکہ مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ لبرل اور وسیع النظر کہلانے کے شوق میں دوسروں کے مذہبی تہوار اور مذہبی رسومات میں شرکت ، قطعی مناسب نہیں ۔
یہ نہ بھولیے کہ اسلامی شریعت کی روشنی میں ساری عمر سجدے میں گزارنے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی کسی بت کے آگے سرنگوں ہوئے ، تو ایمان بھی ہاتھ سے گیااور سارے سجدے بھی رائیگاں گئے
اس لیے کہ اسلام کے سائے میں خدا اور اصنام دونوں کو خوش رکھنےکی کوئی ترکیب نہیں ہے ، بلکہ خداکی محبت ہی کا تقاضایہ ہےکہ دوسرے سارے خداؤں سے الگ تھلگ رہا جائے اور دوسروں کے مذہبی رسومات میں شرکت سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے ۔
تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی
ڈاکٹر صاحب قبلہ کی کتاب نقش خیال کا تبصرہ پڑھیں
اور اس کو بھی پڑھیں: پیغمبر انسانیت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع