آسمانوں کا تذکرہ اور تخلیق کائنات کی کیفیت ترتیب : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
آسمانوں کا تذکرہ اور تخلیق کائنات کی کیفیت
خالقِ کائنات نے سب سے پہلے اپنی قدرت سے جوہر کو پیدا کیا پھر جب جوہر پر اللہ تعالیٰ نگاہِ ہیبت ڈالی تو وہ پگھل گیا اور خدا کے خوف سے پانی بن گیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر نگاہِ رحمت ڈالی تو آدھا پانی جم گیا جس سے عرش بنایا گیا۔
عرش کانپنے لگا تو اس پر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھ دیا جس سے وہ ساکن ہوگیا مگر پانی کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا جو قیامت تک موجزن رہے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے: وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ. اللہ کا عرش پانی پر تھا(هود/٧)۔
تخلیق کائنات
پھر جب پانی میں تلاطم خیز موجیں پیدا ہوئیں جن سے تہ بہ تہ دھوئیں کے بادل اٹھے اور جھاگ پیدا ہوئی تو اس سے زمین و آسمان بناےگئے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے پھر ان دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ہوا کو پیدا کیا جس کے دباؤ سے زمین وآسمان کے طبق ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے: ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ .(السجدۃ١١)۔
اہل حکمت کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو دھوئیں سے اس لئے پیدا فرمایا کہ دھواں باہم پیوست ہوتا ہےاور بلندیوں پر جا کر ٹھہرتا ہے ، بخارات سے اس لیے پیدا نہیں فرمایا کہ وہ واپس لوٹ جاتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا ادنیٰ کرشمہ ہے، پھر ارشادِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پانی کی طرف نظر رحمت کی تو وہ جم گیا۔
آسمانوں کے نام اور ان کے رنگ
زمین سے آسمانِ دنیا کی اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی مسافت پانچ سو سال کے سفر کی دوری کے برابر ہے اور اسی طرح ہر آسمان کا اپنا اپنا حجم ہے کہتے ہیں کہ پہلا آسمان دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے۔
مگر کوہ قاف کی سبزی کی وجہ سے یہ ہرا نظر آتا ہے، اس آسمان کا نام رقیعہ ہے۔دوسرے آسمان کا نام فیدوم یا ماعون ہےاور وہ ایسے لوہے کا ہے جس سے روشنی کی شعائیں پھوٹی پڑتی ہیں. تیسرے آسمان کا نام ملکوت یا ہاریون ہے اور وہ تانبے کا ہے۔ چوتھے آسمان کا نام زاہرہ ہے اور وہ آنکھوں میں خیرگی پیدا کرنے والی سفید چاندی سے بنا ہے۔
پانچویں آسمان کانام مزینہ یا مسہرہ ہے اور وہ سرخ سونے کا ہے۔ چھٹے آسمان کا نام خالصہ ہے اور وہ چمک دار موتیوں سے بنایا گیا ہے۔ ساتویں آسمان کا نام لابیہ یا دامعہ ہے، وہ سرخ یاقوت کا ہے اور اسی میں بیت المعمور ہے۔
اور بیت المعمور کے چار ستون ہیں، ایک سرخ یاقوت کا، دوسرا سبز زبرجد کا، تیسرا سفید چاندی کا اور چوتھا سرخ سونے کا ہے، بیت المعمور کی عمارت سرخ عقیق کی ہے ہر روز وہاں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور ایک مرتبہ داخل ہوجاتے ہیں پھر قیامت تک انہیں دوبارہ داخلے کا موقع نہیں ملے گا۔
قولِ معتبر یہ ہے کہ زمین آسمان سے افضل ہے کیونکہ یہ انبیاء کا مولد و مدفن ہے اور زمین کے سب طبقات میں بہتر اوپر والا طبق ہے جس پر خلقِ خدا آباد ہے۔
سات ستارے اور ہر ستارہ کا آسمان
حضرتِ عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آسمانوں میں سب سے زیادہ افضل کرسی ہے جس کی چھت عرشِ الٰہی سے ملی ہوئی ہے، سات ستاروں کے علاوہ تمام فائدہ بخش ستارے اسی آسمان میں ہیں سات ستاروں کی تفصیل یہ ہے “زحل” جو شنبہ کے دن کا ستارہ ہے، ساتویں آسمان میں ہے۔
۔” مشتری ” جو پنجشنبہ کا ستارہ ہے، چھٹے آسمان میں ہے۔ سہ شنبہ کا سیارہ “مریخ ” پانچویں آسمان میں ہے۔ یک شنبہ کا سیارہ “شمس ” چوتھے آسمان میں ہے۔ جمعہ کا سیارہ ” زہرہ ” تیسرے آسمان میں ہے ۔ چہار شنبہ کا سیارہ عطارد دوسرے آسمان میں ہے۔ اور دوشنبہ کا سیارہ “قمر ” پہلے آسمان میں ہے۔
ایک لطیف نکتہ
اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے آسمان و زمین کی صنعت میں بے انتہا عجائبات ودیعت کیا ہے حالانکہ سارے آسمان دھوئیں سے بنائے گئے ہیں مگر کسی میں ایک دوسرے کی مشابہت نہیں پائی جاتی، آسمان سے پانی برسایا ، اس سے مختلف سبزیاں اور پھل اگاے جن کے ذائقے اور رنگ جدا جدا ہیں ، حکمتِ الٰہی کے بموجب وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر لذیذ ہیں
آدم علیہ السلام کی اولاد میں مختلف اقسام بنائیں ، کوئی سفید ہے کوئی سیاہ ، کوئی خوش اور کائی اداس ، کوئی مومن کوئی کافر، کوئی عالم اور کوئی جاہل ہے حالاں کہ سب آدم علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ.اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔(البقرۃ ۲۵۵)۔
کرسی سے کیا مراد ہے؟
کرسی سے مراد علمِ الٰہی ہے یا ملک خداوندی یا پھر مشہور آسمان کا نام ہے۔
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کرسی ایک موتی ہے جس کی لمبائی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے وسیع صحراء میں ایک حلقہ پڑا ہو، مزید فرمایا کہ آسمان کرسی میں ہیں اور کرسی عرشِ الٰہی کے سامنے ہے۔
حضرتِ عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،سورج کرسی کے نور کا ستّرواں حصہ ہے اور عرشِ الٰہی حجاباتِ الٰہی کے نور کا ستّرواں حصہ ہے۔
مروی ہے کہ عرش اور کرسی کے اٹھانے والے فرشتوں کے مابین ستر ہزار نور کے اور ستر ہزار ظلمت کے پردے حائل ہیں، ہر پردہ پانسو سال کا سفر ہے، اگر یہ پردے نہ ہوتے تو حاملینِ کرسی حاملینِ عرش کے نور سے جل جاتے۔ عرش ایک نورانی شَے ہے جو کرسی سے اوپر ہے اور ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے مگر اس قول سے جناب حسن بصری رضی اللہ عنہ کو اختلاف ہے۔
عرشِ الٰہی کی ساخت
عرشِ الٰہی کی بناوٹ کے متعلق مختلف روایتیں ہیں، بعض کہتے ہیں سرخ یاقوت کا ہے یا سبز موتی کا ہے بعض کی راۓ ہے کہ سفید موتی سے بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس کی حقیقت کو بہتر جانتا ہے۔
فلکیات کے ماہرین اسے نواں آسمان ، فلکِ اعلیٰ، فلک الافلاک، اور فلک اطلس کہتے ہیں، اس میں کوئی ستارہ وغیرہ نہیں ہے قدیم ہیئت دانوں کے بقول تمام ستارے آٹھویں آسمان میں ہیں جس کو وہ فلک البروج اور اہلِ شرع کرسی کہتے ہیں۔
عرشِ الٰہی مخلوقات کی چھت ہے، کوئی چیز اس کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی ، وہ بندوں کے علم و ادراک اور مطلوب کی انتہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم قرار دیا ہے۔
چناں چہ فرمانِ الٰہی ہے:فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ پس اگر وہ پھر جائیں تو کہیں کہ مجھے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔(التوبۃ ١٢٩)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی توریت میں متوکل تھا اور کیوں نہ ہوتا آپ سے بڑھ کر معرفتِ خداوندی کا شناسا اور کون ہے ؟۔
آپ موحدین کے سردار اور عارفینِ کاملین کے رہ نما ہیں ، توکل کی حقیقت آپ پر روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ [مکاشفۃ القلوب٢٠٩تا٢١٣رضوی کتاب گھردہلی]۔
ترتیب : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی
9839171719
ان مضامین کو بھی پڑھیں
خود اپنی تعریف کرنے کی شرعی حیثیت
صلہ رحمی نہ کرنے کا بھیانک انجام
اور ہندی مضامین شائع کروانے کے لی