Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتعلم کلام امام احمدرضا اور اصحاب رضا

علم کلام امام احمدرضا اور اصحاب رضا

تحریر: طارق انور مصباحی علم کلام امام احمدرضا اور اصحاب رضا

علم کلام امام احمدرضا اور اصحاب رضا

مبسملاوحامدا    ومصلیا ومسلما

عاشق خیرالوریٰ،غلام حبیب کبریا،امام احمدرضا رضی عنہ المولیٰ علم کلام میں امام اشعری وامام ماتریدی کے جانشیں معلوم ہوتے ہیں۔

جب وہ دنیا میں جلوہ گر ہوئے تھے تو اعتقادی مسائل میں برپا کیے جانے والے فتنوں سے امت مسلمہ دوچار تھی۔عجیب وغریب افکار ونظریات پیش کر کے امت مسلمہ کوغلط راہوں پر ڈالا جارہا تھا۔اگر اس وقت اللہ تعالیٰ ہندی مسلمانوں پر فضل وکرم نہ فرماتا تو آج نہ جانے مسلمانان ہند اسلام سے کس قدر دور ہوجاتے۔

درحقیقت وہابیت کی شکل میں ایک فتنہ بھارت میں داخل ہوا،پھر اسی کے بطن سے دیوبندی،قادیانی،نیچری،اہل حدیث،مودوی،اہل قرآن ودیگر باطل فر قے جنم لیے۔
آج ہمارے درمیان مذکورہ بالا فتنوں کے علاوہ نیم رافضیت کا شور بھی بڑھتا جارہا ہے۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبیاں،حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے متعلق بے اعتدالیاں،مسئلہ ایمان ابوطالب،تکفیر دیابنہ کا انکار ودیگر اعتقادی مسائل زیر بحث ہیں۔افراط وتفریط کا ماحول پیداکردیا گیا ہے۔

۔ 1240 ہجری میں اسماعیل دہلوی کے ذریعہ بھارت میں وہابیت کو دخل اندازی کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیز اور ان کے اصحاب واعوان کو حفاظت دین کا رتبہ عظمیٰ اورفضل عظیم عطا فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کسی کو بھی یہ فضل محمود عطا فرما سکتا تھا،لیکن جن نفوس عالیہ کو فضل عظیم عطا فرمادیا گیا،اس فضل حق، فضل رسول واعوان وانصارکا ہم شکر یہ ادا کرتے ہیں: ھل جزاء الاحسان الاالاحسان (سورہ رحمن)

خیرآباد وبدایوں اور دہلی وبریلی کی دھرتی نے ہمیں ایسے سپوت دیئے، جنہوں نے توفیق الٰہی سے ہمارے ایمان کی حفاظت کے لیے خوب زورآزمائی کی،محنت ومشقت کی۔ہم ان تمام کو سلا م عقیدت پیش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ا ن تمام کو اجر عظیم سے نوازے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے: (آمین)

پچاس سال  بعد 1290 مطابق 1872 میں دیوبند کے قاسم نانوتوی نے ختم نبوت کا انکار کر دیا۔ اس کے بعد اہل دیوبند نے مسئلہ امکان کذب، مسئلہ علم غیب وغیرہ کو زیر بحث لایا اورایسے بدیہی البطلان عقائد گڑھنے لگے کہ امت مسلمہ اضطراب میں مبتلا ہوگئی۔

اس وقت اللہ تعالیٰ نے بریلی کے حضرت مفتی نقی خاں علیہ الرحمۃوالرضوان کے فرزند ارجمند مولانا احمد رضا کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمایا۔وہ مولوی احمدرضا سے امام احمد رضا بن گئے۔کبھی حضرت تھے تو فضل خداوندی سے اعلیٰ حضرت بن گئے۔

 تاحیات عشق وادب کے ساتھ دربار رسالت کی جاروب کشی کرتے رہے۔ یہ دیکھ کر امت مسلمہ پکار اٹھی

نبی کا جو غلام ہے

ہمارا وہ امام ہے

علماے عرب وعجم بالاتفاق بریلی کے اعلیٰ حضرت کو مجدد مانتے ہیں اور مجددمبعوث ہوتا ہے،جیسا کہ خود حضوراقدس تاج دار کائنات سیدنا وسند نا ومولانا محمد مصطفٰے علیہ التحیۃوالثنا نے ارشاد فرما یا
(انما اللّٰہ عزوجل یبعث لہذہ الامۃ علٰی رأس کل مأۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا) (مشکوٰۃالمصابیح)

ما وشما کا حال یہ ہے کہ توفیق الٰہی سے ہمارے والدین کریمین نے ہمیں مدارس اسلامیہ میں داخل فرمایا اوران کے اخراجات کا ذمہ اٹھایا۔کسی کے بڑے بھائیو ں یا رشتہ داروں نے ان کی کفالت کی۔ اساتذۂ کرام نے ہماری تعلیم وتربیت کی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے، ان کی مغفرت فرمائے،اور ان کے درجات بلند فرمائے۔

فضل الٰہی سے بہت سے بچے محنت ومشقت کیے، کامیاب ہوئے،پھر عالم وفاضل ہو گئے،اوررضاکارانہ طورپر خدمت دین سے وابستہ ہوگئے۔ ہمارا علمی پس منظر قریباً اتنا ہی ہے اور عموماً تمام علماے کرام کے مابین مشترک بھی۔

 ہاں، مجددکو جب مبعوث کیا جاتا ہے تو ان کی حیثیت اس افسر کی طرح ہوگی جسے حکومت کسی محاذپر متعین کرتی ہے اور ان کو ضروری سازوسامان فراہم کرتی ہے،پس امید قوی ہے کہ مجددین کوبھی دربار خداوندی اور پیغمبر اسلام وصاحب شریعت بیضا حضرت حبیب کبریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس سے ضروری علوم ومعارف تفویض کیے جاتے ہوں گے۔

اس اعتبار سے امیدقوی ہے کہ مجددین کی تعلیمات وتفہیمات میں لغزش وخطا کا عنصر نہ ہو، اور وہ فضل الٰہی سے لغزش وخطا سے محفوظ ہوں۔ہاں،اہل سنت وجماعت کے عقیدہ میں معصوم صرف حضرات انبیاے کرام وحضرات ملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام ہیں۔

دیگر بندگان الٰہی کو فضل خداوندی سے حفاظت کی نعمت میسر آتی ہے۔ مجددین کے حق میں بعثت کے سبب حفاظت کی امید قوی ہے: واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

علم کلام سے متعلق خاک سار کی تحریریں دوقسم کی ہیں

۔(۱)بدمذہبوں کی تفہیم کے واسطے مرقوم مضامین ورسائل

۔(۲)اہل حق کی تفہیم کے لیے مکتوب رسائل ومضامین۔

ہرقسم کا مضمون رقم کرنے سے قبل مجدد ممدوح کے فیصلوں کو دیکھ لیتا ہوں۔پہلی قسم کی تحریروں میں عام طورپر مجدد موصوف کا حوالہ رقم نہیں کرتا،کیوں کہ ان کا نام آتے ہی وہ اس جانب متوجہ نہیں ہوسکتے،بلکہ عنادو ضداور تعصب وحسدکے سبب ماننے سے بھی انکار کریں گے۔

 
قسم دوم میں امام موصو ف کی تحریروں کو نقل کرتا ہوں،تاکہ احباب قبول فرمائیں۔

اپنی حیثیت میں نے رقم کردی کہ اسلامی تعلیم گاہوں میں داخل ہوا،پھر توفیق الٰہی سے محنت ومشقت کی تو دوچار دینی باتیں جانا اورپھر صحیح سمجھ کر بعض باتیں احباب کو شیئر کرنے لگا۔ما وشما معصوم بھی نہیں اور محفوظ بھی نہیں، اس لیے خود بھی اپنی تحریروں پر تنقیدی نظر رکھتا ہوں اوربار بار احباب سے بھی لغزش وخطا کی نشاندہی کی گزارش کرتا ہوں۔

عام طورپر اعتقادی امورسے متعلق مجددموصوف کے تلامذہ وخلفا اور ان کے وابستگان کی تحریروتقریر اور تشریح وتوضیح مجددگرامی کی تعلیمات سے ما خوذ ہوتی ہیں۔

جس طرح فقہی مسائل کی تشریح میں ان کے وابستگان کی تشریح وتوضیح میں اختلاف ممکن ہے، جیسے ماضی قریب میں ٹرین کے مسئلہ میں مجددگرامی کی تحریر کی دوتشریح پیش کی گئی۔

اسی طرح اعتقادی مسائل کی تشریح وتوضیح میں بھی عقلی طورپردوقسم کی تشریح وتوضیح کا امکان موجود ہے۔ ہا ں،یہ ضرورہے کہ قطعیات میں ایک حق ہے اور اس کے علاوہ سب باطل۔وہاں پر اصول وضوابط کی روشنی میں صحیح مفہوم تک پہنچنا ہمارے لیے ضروری ہے،اسی لیے علمائے کرام کی بارگاہ عالی میں دستگیری وعلمی تعاون کی عرضی پیش کرتا ہوں۔

ابھی میری حالیہ تحریریں خاص کر اہل مذہب کی تفہیم کے لیے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ شب معراج اقدس تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جواحباب قلت فرصت کے سبب فی الوقت نہ پڑھ سکیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ بعد میں تصحیح کے ساتھ مجموعہ ان کی خدمت میں پیش کردوں گا۔

کچھ مشکلات وضرورات ہیں۔ امیدقوی ہے کہ جس شب مبارک کواللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بے شمارعظیم نعمتوں سے سرفراز فرمایاتھا،اس شب مبارک کو ان کے کلمہ خوانوں کو ضرور کچھ نہ کچھ عطا فرمائے گا۔

اورانعامات عظمیٰ ودرجات کبریٰ سے سرفرازی کی خوشی میں خود قاسم نعمت الٰہیہ،رب تعالیٰ کے نائب مطلق،غربا ومساکین پر خاص نظر رحمت فرمانے والے آقا،دنیا وآخرت میں ہمارے ماویٰ وملجا،رحمت مجسم (علیہ الصلوٰۃوالسلام)بھی فقیروں کے کشکول میں کچھ نہ کچھ ضرورعطا فرمائیں گے۔

دربار اعظم کا ہرایک ذرہ کوہ ہمالہ سے کئی گناعظیم تر ہوتا ہے۔مجھے تو کبھی بھیک نہیں ملی۔اتنا زیادہ ملاکہ وہ الطاف خسروانہ وانعامات شاہانہ ہیں۔میں اسے بھیک کیسے کہوں؟

جس طر ح فقیر کسی کے دروازہ پرجاتا ہے تو صدا لگاتا ہے،تاکہ اہل خانہ اس جانب متوجہ ہوں۔ اسی طرح اس سلسلہ کی ساری تحریریں ”صدائے درویش“کی مانند ہیں۔  ان صداؤں میں قوم کی بھلائی کا عنصربھی مضمر ہے۔ آپ چاہیں تو مجھے عقل مند فقیر کہہ سکتے ہیں۔اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ تعالیٰ علیہ وسلم)

قبول فرمائیں
ع/ گرقبول افتد زہے عزوشرف 

تحریر:  طارق انور مصباحی

مدیر : ماہنامہ پیغام شریعت دہلی

اعزازی مدیر : افکار رضا انٹرنیشنل اردو ویب سائٹ

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن