ترتیب محمد ہاشم اعظمی مصباحی اس پہ ہے جس کا توکل خوش ہے بیڑا پار ہے : توکل کا مفہوم قرآن وحدیث اور واقعات کے تناظر میں
توکل قرآن پاک کی ایک اہم اصطلاح ہے جس کے لغوی معنی بھروسہ کرنے کے ہیں۔ اور اصطلاح شرع میں اللہ پر پورابھروسہ اورکامل اعتماد کرنے کا نام توکل ہے۔ یہ ایک عظیم الشان خصلت ہے، انبیاء واصفیاء کا بہترین اسوہ ہے ،مؤمنین صادقین کا طرۂ امتیاز ہے ، قرآن وحدیث میں جابجا اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں، اور متوکلین کی شانِ عظمت اور مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے۔
چناں چہ ایک جگہ خدائے ذوالجلال والإكرام نے متوکلین کو تمغۂ محبوبیت سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان اللہ یحب المتوکلین۔(آل عمران: ۱۵۹)اللہ یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
دوسری جگہ توکل کی صفت سے آراستہ و پیراستہ شخص کے ساتھ اپنی خاص مدد کی یقین دہانی کے طور پر ارشاد باری ہے : ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ۔(الطلاق: ۳)اور جوکوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس(کا کام بنانے)کے لیے کافی ہے
نیز حدیث نبوی میں متوکلین کو دنیوی جھمیلوں سے نجات کی ضمانت دی گئی ہے ، فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے :ومن توکل علی اللہ کفاہ الشعب ۔ (ابن ماجہ ،حدیث نمبر: ۴۱۶۶)اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کی پریشانیوں (کو ختم کرنے )کے لہے کافی ہے۔
لیکن توکل کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسباب و وسائل سے صرف نظر کرلیا جاۓ جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے بلکہ توکل کی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اسباب ووسائل کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بدوی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اونٹ کا پیر باندھ کر توکل کروں یا کھلا چھوڑ کر؟۔
آپ نے فرمایا اونٹ کا پاؤں باندھ دے اور توکل کر اللہ پر۔ فرمانِ نبوی ہے کہ اگر تم اللہ پر توکل کرنے کی حقیقت کو پالیتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں پرندوں کی طرح رزق دیتا جو صبح بھوکے اٹھتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔
حضرتِ ابراییم بن ادہم اور حضرتِ شفیق بلخی کے درمیان مکالمہ
: حضرتِ ابراییم بن ادہم اور حضرتِ شفیق بلخی رحمہما اللہ کی مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی تو حضرت ابراییم نے پوچھا اے شفیق بلخی! تم نے اتنا بلند مرتبہ کیسے پایا؟ جنابِ شفیق بلخی نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میرا بیابان سے گزر ہوا وہاں میں نے ایک ایسا پرندہ پڑا دیکھا جس کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تھے
میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ دیکھوں تو سہی اسے کیسے رزق ملتا ہے، میں وہاں بیٹھ گیا، کچھ دیر بعد ایک پرندہ آیا جس کی چونچ میں ایک ٹڈی تھے اس پرندہ نے بازو ٹوٹے ہوئے پرندے کے منہ میں وہ ٹڈی ڈال دی ، میں نے دل میں سوچا کہ وہ رزاقِ کائنات ہے جو ایک پرندے کے ذریعے دوسرے پرندے کا رزق پہنچا دیتا ہے وہ میرا رزق بھی مجھے ہر حالت میں پہنچا سکتا ہے۔
لہذا میں نے سب کاروبار چھوڑ دیا اور عبادت الٰہی میں مصروف ہوگیا۔ حضرت ابراییم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اے شفیق! تم نے مجبور و معذور پرندہ بننا پسند کیا اور تندرست پرندہ بننا پسند نہ کیا کہ تم کو مقام بلند نصیب ہوتا، کیا تم نےفرمانِ نبوی نہیں سنا:أَنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى”(مسلم) یعنی اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے
مومن تو ہمیشہ بلندئ درجات کی تمنا کرتا ہے تاآنکہ وہ ابرار کی صفت میں جگہ پاتا ہے، جناب شفیق رحمتہ اللہ علیہ نے یہ سنتے ہی جناب ابراییم رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھوں کو چوما اور کہا بیشک آپ میرے استاد ہیں۔
توکل حقیقی کیا ہے ؟ جب انسان رزق کے حصول کے لیے اسباب مہیا کرلے تو اسباب کے بجائے اپنا نصب العین اس خالقِ کائنات کو بناۓ جو حقیقت میں روزی رساں ہے
سائل جو کشکول لے کر گداگری کرتا رہتا ہے وہ کشکول کو نہیں بلکہ ہمیشہ دینے والے سخی کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو سب سے زیادہ غنی بنانا چاہتا ہے وہ اپنے مال سے زیادہ انعامِ خداوندی پر نظر رکھے۔ [مکاشفۃ القلوب ص۲۱۴ رضوی کتاب گھر دہلی]
توکلِ حقیقی کی ایک مثال
حضرت حذیفہ مرعشی رحمتہ اللہ علیہ نے کئی سال تک حضرتِ ابراییم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت کی تھی ۔
ایک مرتبہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ تم حضرت ابراییم بن اہم رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت کا کوئی عجیب و غریب واقعہ سناؤ!۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار ہم مکہ معظمہ کی طرف جارہے تھے ، راستہ میں ہمارا زادِ راہ ختم ہو گیا ہم کوفہ کی ایک ویران مسجد میں اقامت گزیں ہوۓ، جنابِ ابراییم نے مجھے دیکھ کر فرمایا تم بھوک سے نڈھال نظر آتے ہو، میں نے کہا ہاں مجھے شدت کی بھوک لگ رہی ہے۔
آپ نے مجھ سے قلم دوات منگوائی اور کاغذ پر بسم اللہ کے بعد لکھا: اے رب ذوالجلال! ہر حالت میں تو ہی ہمارا مقصود اور ہرکام میں تو ہی ملجا ہے
پھر یہ اشعار لکھے
انا حامداً انا شاکرا
انا جائع انا ضائع انا عاری
ھی سنۃ وانا الضمین لنصفہا
فکن الضمین لنصفہا یاباری
مدحی لغیرک لہب نارخفتہا
فاجرعبیدک من دخول النار
۔(١) میں تیری حمد کرنے والا، شکر کرنیوالا، اور ذکر کرنیوالا ہوں، میں بھوکا، خستہ حال اور برہنہ ہوں
۔(۲) اے اللہ! تین باتوں کا میں ضامن ہوں اور بقیہ تین کی ضمانت تو قبول فرما لے
۔(۳) تیرے سوا کسی اور کی ثنا میرے لیے آگ سے کم نہیں ہے، اپنے بندے کو اس آگ سے بچالے۔
اور مجھ سے فرمایا دل میں کسی غیر کا خیال نہ لانا، جو آدمی تمہیں سب سے پہلے نظر آۓ یہ رقعہ دے دینا۔ سب سے پہلا شخص جو مجھے ملا وہ ایک خچر سوار تھا، میں نے وہ رقعہ اس کو دے دیا، اس نے پڑھا اور رونے لگا، پھر پوچھا، اس رقعہ کا کاتب کہاں ہے؟ ۔
میں نے کہا فلاں ویران مسجد میں بیٹھا ہے، یہ سنتے ہی اس نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں چھ سو دینار تھے، بعد میں مجھے ایک اور شخص ملا، میں نے اس سے خچر سوار کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ نصرانی تھا، میں نے واپس آکر جناب ابراییم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کو سارا واقعہ سنایا۔ آپ نے فرمایا ذرا ٹھہرو وہ ابھی آجاۓ گا۔
کچھ دیر کے بعد وہ نصرانی آگیا اور جناب ابراییم کے سر کو چومنے لگا اور مسلمان ہو گیا۔ افسردگی ، آزردگی ، پژمردگی بیکار ہےاس پہ ہےجس کاتوکل خوش ہےبیڑاپارہے
لاحول ولا قوۃ الا بااللہ کی قوت
حضرتِ عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاملینِ عرش (فرشتوں) کو پیدا فرمایا اور انہیں عرش کو اٹھانے کا حکم دیا مگر وہ نہ اٹھا سکے، اللہ تعالیٰ نے ہر فرشتہ کے ساتھ سات آسمانوں کے فرشتوں کے برابر فرشتے پیدا کئے
پھر انہیں عرش کو اٹھانے کا حکم دیا مگر وہ نہ اٹھا سکے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہر فرشتہ کے ساتھ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے فرشتوں کے برابر فرشتے پیدا فرمائے اور انہیں عرش اٹھانے کا حکم دیا مگر وہ پھر بھی نہ اٹھا سکے، تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم لاحول ولا قوۃ الا بااللہ کہو
جب انہوں نے یہ کہا تو عرشِ الٰہی کو اٹھا لیا گیا مگر ان کے قدم ساتویں زمین میں ہوا پر جم گئے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ ہمارے قدم ہوا پر ہیں اور نیچے کوئی ٹھوس چیز موجود نہیں ہے تو انہوں نے عرشِ الٰہی کو مضبوطی سے تھام لیا اور لاحول ولا قوۃ الا بااللہ پڑھنے میں محو ہو گئے تاکہ وہ انتہائی پستیوں پر گرنے سے محفوظ رہیں
اب وہ عرش کو اٹھاۓ ہوئے ہیں اور عرشِ الٰہی انہیں تھامے ہوئے ہے بلکہ ان تمام کو قدرتِ الہی سنبھالے ہوئے ہے۔
روایت ہے کہ جو شخص صبح وشام سات مرتبہ: حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ . پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزائم کو پورا کردیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کے دنیا و آخرت کے تمام کام پورے ہوجاتے ہیں۔[مکاشفۃ القلوب ص۲۱۵/۲۱۶رضوی کتاب گھر دہلی]
ترتیب : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی
9839171719
آسمانوں کا تذکرہ اور تخلیق کائنات کی کیفیت