Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتخلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط ششم

خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط ششم

تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط ششم  کُتُبِ شیعہ سے خلیفۂ سوم حضرتِ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقِب کا ثبوت

خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط ششم 

امیرُ المومنین ، مولا المسلمین ،حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورِ اقدس ﷺ  کے خلیفہ و جانشین ، دامادِ نام داراور جمہورِ اہل سنت کے نزدیک حضرتِ سیدناعمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ ہیں ۔

گو کہ بعضِ اہلِ سنت نے حضرتِ شیرِ خدا مَولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کوحضرتِ عثمانِ غنی سے افضل مانا ہے ؛ مگر اکثر علماے اہلِ سنت حضرتِ عثمانِ غنی کی افضلیت کے قائل ہیں ۔

بے شمارفضائل و مناقب اور اوصاف و کمالات کے علاوہ رب تبارک وتعالیٰ نےاُنھیں ایک ایسی خوبی سے نوازا ہے جو نہ کبھی کسی کے حصے میں آئی اور نہ قیامت تک آ سکتی ہے ۔

وہ بے مثال خوبی یہ ہے کہ پیغمبرِ اعظم حضور رحمت عالَم ﷺ  کی یکے بعد دیگرے دو شہزادیاں’حضرت سیدتنا رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اُن کے وصال کے بعد حضرت سیدتنا ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘‘ اُن کے نکاح میں آئیں ۔

اِسی لیے اُنھیں دنیاے اہلِ سنت میں ’’ذُو النُّوْرَیْن‘‘[دو نور والے] کے عظیم الشان لقب سےیاد کیا جاتا ہے ۔

بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی اہلِ سنت و جماعت جس طرح حضور ﷺ  کے سب سے چھوٹے داماد ،زوجِ بتول ،فاتحِ خیبر ،شیرِ خدا حضرتِ مولا علی کرَّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی الفت و محبت کو اپنا سب سے قیمتی اثاثہ یقین کرتے ہیں

اِسی طرح سرورِ عالَم ﷺ  کے منجھلے داماد ،زوجِ نورین ، جامعِ قرآن ،امامِ متصدِّقِین ،حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و شان پر اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو قربان کرنا باعثِ صد افتخار سمجھتے ہیں ۔اِسی لیے ہمارے یہاں ’’حُبُّ الْخَتَنَیْنِ یعنی دونوں دامادوں سے محبت کرنا‘‘ اہلِ سنت کا شعار اور سنیت کی علامت ہے ۔

مگر ستیاناس ہو! بغض و حسد کا جو کہ ا نسان کو اندھا ، گونگا اور بہرا ہی نہیں ؛ بلکہ پاگل اور دیوانہ بنا کر اُس کی عقل و شعور کا جنازہ نکال دیتا ہے ۔ عداوت و دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں ۔ نفرت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ثابت شدہ حقائق اور مسلَّمات سے چشم پوشی کر لی جائے ۔یوں ہی کسی سےالفت و محبت کا یہ معنٰی بالکل نہیں کہ دوسروں کے فضائلِ مقرَّرَہ اورمناقبِ جلیلہ کا انکار کر دیا جائے ۔

چوں کہ اہلِ رفض، شیخینِ کریمین [حضرتِ ابو بکر صدیق و حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما] اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ ،حضرتِ ذو النورین سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی بغض رکھتے ہیں 

اُن پر تبرا کرتے اور اُن کے فضائل و مناقب کا صاف طور پر انکار کرتے ہیں؛ بلکہ اِن کی عداوت و دشمنی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ’’ اب یہ لوگ اُنھیں حضورِ اقدس ﷺ  کا داماد بھی نہیں مانتے‘‘ اور اِن کے ذاکرین گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ بکواس کرتے ہیں کہ حضور ﷺ  کی حقیقی بیٹی صرف حضرتِ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں ۔

حضرتِ زینب ، حضرتِ رقیہ اور حضرتِ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضور ﷺ  کی حقیقی بیٹیاں نہیں؛ بلکہ یہ حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے اُن کے پہلے شوہر وںکی بیٹیاںہیں ؛لہذا داماد ِ مصطفیٰ ﷺ  ہونے کا شرف صرف حضرتِ مولا علی کو حاصل ہے ۔ حضرتِ عثمانِ غنی آ قاے کریم ﷺ  کے دامادِ مجازی تو ہو سکتے ہیں،؛ مگردامادِ حقیقی نہیں ہو سکتے۔یہ بہت بڑا دھوکہ ہے جو دنیا کی تمام مسلمانوں کو دیا جا رہا ہے۔

اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ خود شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ حضور ِاکرم ﷺ  کی چار صاحب زادیاں ہیں ،جو ام المومنین حضرتِ سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکمِ اقدس سے پیدا ہوئیں  ۔ فأقول و باللہ التوفیق ۔

شیعہ مذہب کی انتہائی معتبر و مستند کتابوں میں کئی ایسی عبارتیں درج ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ فقط حضرت خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا ہی جگر گوشۂ مصطفیٰ نہیں؛ بلکہ حضرتِ سیدتنا زینب ، حضرتِ سیدتنا رقیہ اور حضرتِ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین بھی حضور سرورِ عالَم ﷺ  کی مقدس شہزادیاں ہیں ۔

لہذا یہ کہنا کہ ’’صرف حضرتِ سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ  کی حقیقی شہزادی ہیں؛ لہذا حضور ﷺ  کے حقیقی داماد صرف حضرتِ علی ہوئے ‘‘ ایسا سفید جھوٹ ہے جسے تاریخ و سیرت پر نظر رکھے والا کوئی بھی ذی شعور  انسان قبول نہیں کر سکتا ۔

بلکہ یہ ایسا چمکتا جھوٹ ہے جو شیطانِ لعین کو بھی نہیں سوجھا ہوگا۔ مقامِ تعجب ہے کہ جس کذب و فریب کی طرف ابلیسِ لعین کا شیطانی دماغ بھی مبذول نہ ہو سکا ،اُس کے چیلے اُسے پھیلانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں ۔ اِسی لیے کہنے والے کہہ گئے کہ کبھی کبھی بیٹا اپنے نمبری باپ سے بھی دس قدم آگے نکل جاتا ہے ۔

یعنی اگر باپ نمبری ہے تو بیٹا دس نمبری نکلتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اِن نادان رافضیوں کا بھی ہے ۔اب ذَیل میں اہلِ تشیع کے مجتہدین و ائمہ کی معروف کتابوںکے چند معتبر حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ؛ تاکہ حق کے چہرے سے باطل کا غبار صاف ہو۔قارئینِ کرام پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کون حق بجانب ہے ۔

پہلا حوالہ

چوتھی صدی ہجری کےمعروف شیعہ عالمِ دین ’’ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحٰق کلینی ‘‘متوفی ۳۲۹ھ ’’اصولِ کافی‘‘ میں حضورِ اقدس ﷺ  کی مقدس بیٹیوں کی تعداد کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَتَزَوَّجَ الْخَدِیْجَۃَ وَہُوَ اِبْنُ بِضْعٍ وَّعِشْرِیْنَ سَنَۃً فَوُلِدَ  لَہٗ مِنْھَاقَبْلَ مَبْعَثِہٖ الْقَاسِمُ وَرُقَیَّةُ وَزَیْنَبُ وَاُمُّ کُلْثُوْمٍ وَوُلِدَلَہٗ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَالطَّاہِرُ وَفَاطِمَةُ عَلَیْھَا السَّلَامُ [اصولِ کافی ،کتاب الحجہ، باب مولد النبی ﷺ  ص۴۳۹:۔مطبوعہ بازار سلطانی، تہران ایران ]

ترجمہ:  جس وقت حضورنبیِّ اکرم ﷺ  نے ام المومنین حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ عقدِ نکاح فرمایا ،اُس وقت آپﷺ  کی عمرِ پاک بیس سال سے زائدتھی۔ پس بعثت سے قبل، حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے آقاے کریم ﷺ  کی اولاد میں حضرتِ قاسم، حضرتِ رقیہ، حضرتِ زینب اور حضرتِ ام کلثوم ،اور بعثت کے بعد،حضرتِ طیب ، حضرتِ طاہر اور حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین پیدا ہوئیں۔

اِس عبارت نے فیصلہ کر دیا کہ بعثت سے قبل حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور ﷺ  کےایک شہزادے’’ حضرتِ قاسم‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تین شہزادیاں ’’حضرت زینب، حضرتِ رقیہ اور حضرتِ ام کلثوم ‘‘ علی جدھن و علیہن الصلاۃ والسلام پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد ایک شہزادی ’’حضرتِ سیدتنا فاطمہ ‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دو شہزادے’’حضرتِ طاہر اور حضرتِ طیب ‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پیدا ہوئے۔

حضورِ اقدس ﷺ  کی چار بیٹیوں کے سلسلے میں’’اصولِ کافی‘‘ کی یہ عبارتِ مذکورہ اِتنی واضح اور صاف ہے کہ اِس میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی ۔

یہ روایت اہلِ تشیع کے یہاں اِس قدر مقبول و محبوب ہے کہ آج تک کوئی بھی بدبو دار رافضی اِسے رد نہیں کر سکا ۔تمام شیعہ شارحین و ناشرین نے اِسے بر قرار رکھا ہے ۔ آج کے آسیب زدہ ذاکرین کا اِس کے خلاف بکواس کرنا اپنے مسلک کے خلاف کھلی بغاوت ہے ۔

دوسرا حوالہ

اہلِ تشیع کے یہاں’’ شیخ صدوق ابن بابويہ القمی‘‘ ایک انتہائی معتبر نام ہے۔اِنھوں نے بھی صراحت کی ہے کہ آقاے دو جہاں ﷺ  کی حقیقی بیٹیاں چار ہیں ۔چناں چہ یہ اپنی مايہ ناز کتاب ’’کتاب الخصال‘‘میں اِس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں

اِنَّ خُدَیْجَةَ رَحِمَھَا اللہُ وَ لَدَتْ مِنِّیْ طَاہِرً اوَھُوَ عَبْدُ ﷲِ وَ ھُوَ الْمُطَھَّرُ وَ وَلَدَتْ مِنِّیْ الْقَاسِمَ وَفَاطِمَةَ وَرُقَیَّةَ وَاُمَّ کُلْثُوْمٍ وَزَیْنَبَ [کتاب الخصال، للشیخ الصدوق،ص۳۷۵:]

ترجمہ: [حضور رحمتِ عالَم ﷺ  نے ارشاد فرمایا] اﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے ! اُس کے بطن سے میرے بیٹے طاہر پیدا ہوئے۔ یہی عبد اﷲ ہیں اور انھی کو مطہر کہا جاتا ہے۔ اور خدیجہ ہی سے ميرے دوسرے بیٹے قاسم پیدا ہوئےاور اُنھی سے میری چار بیٹیاں ’’فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب ‘‘پیدا ہوئيں۔

تیسرا حوالہ

اہلِ تشیع کے شیخ الکل’’ ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری‘‘ اپنی مایۂ ناز کتاب ’’قرب الاسناد‘‘ میں،حضورِ اقدس ﷺ  کی بناتِ اطہار کے بارے میں اپنا عقیدہ یوں لکھتے ہیں

وُلِدَ لِرَسُوْلِ ﷲِ مِنْ خُدَیْجَۃَ الْقَاسِمُ وَالطَّاہِرُ وَاُمُّ کُلْثُوْمٍ  وَ رُقَیَّۃُ وَفَاطِمَةُ وَزَیْنَبُ وَتَزَوَّجَ عَلِیٌّ عليہ السلام فَاطِمَةَ علیھا السلام وَتَزَوَّجَ عَاصُ بْنُ الرَّبِیْعِ وَھُوَ مِنْ بَنِی اُمَیَّۃَ زَیْنَبَ وَتَزَوَّجَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ اُمَّ کُلْثُوْمٍ وَلَمْ یَدْخُلْ بِھَا حَتّٰی ھَلَکَتْ وَزَوَّجَہٗ رَسُوْلُ ﷲ ِﷺ مَکَانَھَا  رُقَیَّۃَ [قرب الاسناد، للشیخ لابی العباس۔حیاۃ القلوب ، ج۲:،ص۷۱۸:، لملا باقر المجلسی الرافضی]

ترجمہ: ام المومنین حضرتِ خدیجة الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطنِ پاک سے حضور رحمتِ عالم ﷺ  کے درجِ ذیل شہزادےاور شہزادیاںپیداہوئیں۔[۱]حضرتِ قاسم[۲]حضرتِ طاہر[۳]حضرتِ ام اکلثوم[۴]حضرتِ رقیہ[۵]حضرتِ فاطمہ [۶]حضرتِ زینب۔رضی اللہ تعالیٰ عنہما و عنہن اجمعین۔

حضرتِ علی علیہ السلام نے حضرتِ فاطمہ علیھا السلام سے شادی کی ، نبو امیہ کے حضرتِ ابو العاص بن ربیع نے حضرتِ زینب سے شادی کی اور حضرتِ عثمان بن عفان نے حضرتِ ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ، رخصتی سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا تو رسول اﷲ ﷺ  نے عثمان کا نکاح اپنی دوسری بیٹی حضرتِ رقیہ سے کر دیا تھا ۔

شیخ ابو العباس رافضی اور ملا باقر مجلسی شیعی نے صرف یہی واضح نہیں کیا کہ حضورِ اقدس ﷺ  کی حقیقی بیٹیاں چار ہیں ؛ بلکہ اِنھوں نے اُن مقدس شہزادیوںکے شوہروں کے اسماے گرامی بھی رقم کر دیے؛ تاکہ کسی کو نہ ہی حضور ﷺ  کی شہزادیوں کی تعداد کے بارےمیں کوئی شک رہے اور نہ ہی اُن کے شوہروں کے بارے میں کوئی شبہ؛ مگر تعجب ہے کہ رافضی حضرات ابھی بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور اپنے ذاکروں کی باتیں مان کر اپنی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں اور اضافہ کر رہے ہیں ۔

اب دنیا بھر کے شیعوں کو، بالخصوص پاکستان کے بدبودار ذاکروں کو سچے دل سے توبہ کرکے عظمتِ عثمانِ غنی کا اعتراف اور اُن کے دامادِ مصطفیٰ ہونے کا اقرارکرنا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہ کریں۔

تو عوامِ اہلِ رفض کو چاہیے کہ اِس سلسلے میں اپنے اکابر کی مانیں اورحضرتِ عثمانِ غنی کے دامادِ رسول ہونے کے حوالے سے اپنے اَن پڑھ ذاکروں کی طرف نظرِ غلط سے بھی نہ دیکھیں؛ بلکہ اُن کی جانب سے کی جانے والی بکواسوں کو اپنے جوتے کی نوک سے اڑا دیں۔ [جاری] 

تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ

صدر مدرس:دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ممبئی

صدر:  تحریکِ فروغِ اسلام شاخ کرلا  
من جانب : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی۔

خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں  کے گزشتہ قسطوں کے لنک حاضر خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں 

قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں 

قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں

قسط سوم پڑھنے کے لیے کلک کریں 

قسط چہارم کے لیے کلک کریں 

قسط پنجم کے لیے کلک کریں

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن