Wednesday, November 20, 2024
Homeاحکام شریعتتکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت

تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت

تحریر: طارق انور مصباحی تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت قسط اول

تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

اگر کفر کلامی کاصحیح فتویٰ کسی پرنافذ ہوچکا ہے تو اس فتویٰ کے صحیح علم کے بعد کسی کو یہ جائز نہیں کہ اس کا فر کلامی کو کافر فقہی یا مومن تسلیم کر ے۔ظاہری اختلاف ممکن ہے۔ حقیقی اختلاف کی کوئی صورت نہیں۔ظاہری اختلاف کی چند صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

ظاہری اختلاف کی پہلی صورت

ظاہری اختلاف کی ایک صورت یہ ہے کہ منکرکوبالکل علم ہی نہیں کہ اس شخص پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ عائد ہوچکا ہے،اس وجہ سے وہ اس شخص کو مومن سمجھتا ہے تویہ شخص لاعلمی کے سبب معذور ہے۔حکم شرعی معلوم ہونے کے بعد اس کواسی فتویٰ پر عمل کرنا ہوگا۔

ظاہری اختلاف کی دوسری صورت

کفر کلامی کا فتویٰ غلط ہوتو ظاہری اختلاف ہوگا،لیکن یہ کفر کلامی کے فتویٰ میں اختلاف نہیں ہوگا،بلکہ ایک غلط فتویٰ میں اختلاف ہوگا۔جب یہ فتویٰ غلط ہے تو درحقیقت یہ کفر کلامی کا فتویٰ ہی نہیں ہے۔غلط ہونے کی متعدد صور تیں ہیں۔

احتمال فی التکلم کے سبب غلط فتویٰ

احتمال فی التکلم کی صورت یہ ہے کہ ملزم کے کلام میں تحریف ہوگئی ہو،اور وہی تحریف شدہ کلام مفتی کو ملا۔کلام کی تحقیق میں مفتی سے لغزش ہوگئی،مثلاًبہت سے لوگوں نے اسے بتایا کہ فلاں نے ایسا کہا ہے،اس نے یہ سمجھ لیا کہ متکلم کی طرف کلام کی نسبت متواترہے،اور یہ اسی متکلم کا کلام ہے

جس کی طرف منسوب ہے۔یہ سمجھ کرمفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ عائد کر دیا تو یہ فتویٰ شر ط کے فقدان کے سبب غلط ہے۔ اس فتویٰ کا انکار کیا جائے گا۔ عدم علم کے سبب مفتی معذور قرار پائے گا۔خطاکے علم کے بعد فتویٰ سے رجوع کا حکم ہوگا۔

امام المکاشفین حضرت شیخ اکبر محی الدین قدس سرہ العزیز کی تکفیر میں یہی غلط صورت پائی جاتی ہے۔ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی ہے۔اسی محرف کلام پر بعض نے فتویٰ دیا۔

احتمال فی الکلام کے سبب غلط فتویٰ

احتمال فی الکلام کی صورت یہ ہے کہ تکلم ومتکلم میں کوئی احتمال نہیں تھا۔کفریہ کلام میں احتمال بعید تھا۔ مفتی نے حتی الامکان غوروفکر کیا۔اسے کوئی احتمال نظر نہیں آیا۔نہ احتمال قریب، نہ احتمال بعید۔ اب اس نے ملزم پر کفر کلامی کا حکم عائد کردیا۔چوں کہ یہاں احتمال موجود ہے، اس لیے کفر کلامی کا یہ فتویٰ غلط ہے۔اس کا انکار کیا جائے گا اور مفتی اپنی کوشش صرف کرنے کے سبب معذور قرار پائے گا۔خطا کے علم کے بعد فتویٰ سے رجوع کا حکم ہوگا۔

احتمال فی المتکلم کے سبب غلط فتویٰ

احتمال فی المتکلم کی صورت یہ ہے کہ ملزم نے کفریہ کلام جبرواکراہ کے سبب کہا جوجبر واکراہ شرعاً معتبر ہے،یا بے ہوشی میں کہا،یا کہنے کے بعد توبہ کرلی۔مفتی کومعلوم ہوا کہ یہ کفریہ کلام قصدورضا کے ساتھ کہا،یا ہوش وحواس میں کہا،یا اس نے توبہ نہیں کی ہے،اس سبب سے مفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ دیا۔یہ فتویٰ غلط ہے۔

اس کا انکار کیا جائے گا اور لا علمی کے سبب مفتی معذور قرار پائے گا۔خطاکے علم کے بعد فتویٰ سے رجوع کا حکم ہوگا۔

عہد ماضی میں بھی فتویٰ تکفیر میں اس قسم کی لغزش وخطا ہوئی ہے۔عہدحاضر کے مذبذبین ان غلط فتاویٰ کو پیش کر کے امت مسلمہ کوبہکاتے ہیں اور غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس قسم کے متعددفتاویٰ کا ذکر:البرکات النبویہ:رسالہ دہم،باب ہفتم میں ہے۔

ظاہری اختلاف کی تیسری صورت

کفر کلامی کافتویٰ صحیح تھااور ملزم نے حکم کفرعائد ہونے کے بعد تو بہ کر لی تو اب اس کو کافر نہیں مانا جائے گا۔کفر کلامی کا وہ فتویٰ بھی اپنی جگہ صحیح ہوگا،لیکن ملزم کی توبہ کے سبب اس کا حکم کالعدم ہوگا اوروہ حکم نافذوجاری نہیں ہوگا۔

مقالات شارح بخاری میں تکفیردہلوی کی تشریح

حضورشارح بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے متعلق دو طویل مقالے رقم فرمائے۔ان دونوں میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیزنے اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی کا فتویٰ دیا تھا۔

اوریہ بھی فرمایا کہ ”من شک فی کفرہ فقد کفر“ کاقاعدہ کلیہ تکفیر فقہی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(ملخصا) (مقالات شارح بخاری ص64-86-دائرۃ البرکات گھوسی)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کے بارے میں رقم فرمایا کہ آپ باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے تو آپ نے اسماعیل دہلوی کو کافر فقہی قرار دیا،جیسا کہ حضرت علامہ خیرآبادی قدس سرہ العزیز نے کافر فقہی قراردیا تھا۔

چوں کہ دہلوی کافر کلامی نہیں تھا تو آپ نے بھی کافر کلامی قرارنہیں دیا۔(ملخصا) (مقالات شارح بخاری:جلددوم ص75-دائرۃ البرکات گھوسی)

الحاصل تکفیردہلوی کے مسئلہ میں دونوں محققین کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔

حضورشارح بخاری نے مقالہ دوم کے اخیر میں مخالفین کا الزامی جوا ب دیتے ہوئے ایک عقلی احتمال کا ذکرفرمایا۔اس کو انہوں نے اپنا مذہب قرار نہیں دیا۔اپنا مذہب پہلے بیان فرما چکے تھے۔آپ نے ایک عقلی احتمال ذکر کے مخالفین کو الزامی جواب دیا۔

وہ صورت ماقبل میں بیان ہوئی کہ وہاں گرچہ کفر کلامی کی صورت نہیں تھی،لیکن محنت و مشقت کے باوجودلغزش کے طورپر مفتی سے کفر کلامی کا فتویٰ صادر ہوگیا تومفتی معذورہے۔ مقالات میں اس کو محض عقلی احتمال کے طورپرذکر کے مخالفین کو الزامی جواب دیا گیا ہے۔

مقالات کی عبارتیں درج ذیل ہیں۔بغور پڑھیں،تاکہ بات واضح ہوجائے۔

حضورشارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے رقم فرمایا

۔(۱)”ایک مفتی کے سامنے ایک قول پیش ہوا،اور یہ مفتی واقعی مفتی ہے۔صحیح العقیدہ بھی ہے۔ خدا ترس بھی ہے۔دین دار بھی ہے۔ذہین وفطین بھی ہے۔

اس کی طبعیت اخاذ اور اوراس کا ذہن وقاد بھی ہے۔اس نے اس کلمہ میں حتی الوسع پور ا پورا غوروخوض کیا۔اسے اس کلمہ میں کوئی اسلام کا پہلو نہیں ملا۔

اس کو اس میں تاویل قریب تو قریب،بعید تاویل بھی سمجھ میں نہیں آئی۔جس کی بنا پر اس نے کلمہ کو اپنی صواب دید کے مطابق کفری معنی میں متعین جانا،ایسی صورت میں اس مفتی پر فرض ہے کہ وہ یہ فتویٰ دے کہ اس کلمہ کاقائل کافر ہے۔ایسا جو اس کے کفر پر مطلع ہوکراسے کافر نہ مانے،وہ بھی کافر۔

لیکن وہی قول کسی اور مفتی کے سامنے پیش ہوا۔اس مفتی کو اس کلام میں کوئی تاویل سمجھ میں آئی،اور قائل کی نیت معلوم نہیں تو اسے یہ حق ہے کہ احتیاطاً اس کے قائل کی تکفیر سے کف لسان کرے“۔(مقالات شارح بخاری:جلددوم ص 87-دائرۃ البرکات گھوسی)

۔(۲)”مولوی اسماعیل دہلوی کے کلمات کفریہ استاذالاساتذہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے معاصر علما ئے کرام کی خدمت میں پیش ہوئے۔ہوسکتا ہے کہ بآں جلالت شان وذکاوت وفطانت ان حضرات کو ان کلمات میں کوئی تاویل سمجھ میں نہیں آئی،نہ قریب،نہ بعید۔ان حضرات کی نظر میں ان کے کلمات کفریہ صریح متعین نظر آئے،اس بنا پر ان حضرات نے اسماعیل دہلوی کی قطعی تکفیر فرمائی۔

لیکن جب وہ کلمات مجدداعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے علم میں آئے تو بمصداق ”فوق کل ذی علم علیم“ان میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو اسلام کا پہلو سمجھ میں آیا۔ گرچہ وہ بعید ہو، ضعیف ہو، ا س لیے اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کف لسان فرمایا“۔
(مقالات شارح بخاری:جلددوم ص 89-دائرۃ البرکات گھوسی)

توضیح : حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ نے مذکورہ جواب محض دیوبندیوں کو الزامی طور پر دیا ہے۔ یہ ان کا مسلک ومذہب نہیں۔یہ محض ایک عقلی احتمال کا ذکر ہے۔

مذکورہ بالا دونوں اقتباس میں غور کریں۔مفہوم یہ ہے کہ اس بات کا عقلی امکان ہے کہ مفتی اول نے کفریہ کلام میں مکمل غور وخوض کیا،محنت ومشقت کی،اس کے باوجود اسے کوئی احتمال نظر نہیں آیا تو اس نے کفر کلامی کا فتویٰ دیا۔

اس کے بعد کسی مفتی کو اس میں احتمال نظر آیا تو اس نے کفر فقہی کا فتویٰ دیا۔

واضح رہے کہ مفتی مابعد کو کلام میں احتمال اسی وقت نظر آئے گا،جب وہ کلام کفری معنی میں مفسر ومتعین نہ ہو۔جب وہ کلام کفری معنی میں مفسر ومتعین نہیں تھا تو کفر کلامی کا پہلافتویٰ صحیح نہیں ہوا۔

کفر کلامی کافتویٰ اس وقت صحیح ہوگا، جب کلام کفریہ معنی میں مفسر ہو،یا بیان متکلم سے مفسر ہوجائے۔

یہاں لغزش کے باوجود مفتی اول معذور ہو گا،کیوں کہ اس نے اپنی قوت کے مطابق اس میں غوروفکر کیا اور کسی قسم کی کمی نہیں کی۔وہ فتویٰ دینے کا اہل بھی تھا،گرچہ لغزش ہوگئی۔

سوال :کیا مفسر کے مفسر ہونے میں اختلاف نہیں ہوسکتا ہے؟

جواب : مفسر کے مفسر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔قرآن مجید کی مفسر آیات طیبہ سے جو ثابت ہو،وہ ضروری دینی ہے۔

اگر مفسر کے مفسر ہونے میں اختلاف ہوتا تو بعض مفسر آیات مقدسہ بعض علماکے یہاں مفسر نہیں ہوتیں اور ان سے ثابت ہونے والے امور بھی فریق مخالف کے یہاں ضروریات دین نہیں ہوتے،حالاں کہ ضروریات دین پر اہل سنت وجماعت اور غیر مرتدکلمہ خواں جماعتوں کا اتفاق ہوتا ہے۔

قطعی بالمعنی الاخص امور ضروریات دین ہیں۔چوں کہ قطعی بالمعنی الاخص کی قطعیت میں اختلاف کی گنجائش نہیں،اس لیے ضروریات دین میں اہل اسلام کاکوئی اختلاف نہیں۔

جو امور اہل سنت وجماعت کے یہاں ضروریات دین ہیں،وہ اموردیگر تمام کلمہ خواں غیر مرتد جماعتوں کے یہاں بھی ضروریات دین ہیں۔اگر کوئی ضروری دینی میں اختلاف کرے تووہ اختلاف قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ شخص اسلام سے خارج قرار پائے گا۔

قطعی بالمعنی الاعم امور ضروریات اہل سنت ہیں۔قطعی بالمعنی الاعم امور کی قطعیت میں بھی اختلاف کی گنجائش نہیں،اسی لیے ضروریات اہل سنت میں اہل سنت کے طبقات اشعری وماتریدی،حنفی ومالکی اور شافعی وحنبلی میں اختلاف نہیں۔اگر کوئی اختلاف کرے تو وہ اختلاف قبول نہیں ہوگا اور وہ شخص اہل سنت سے خارج قرار پائے گا۔

بالفرض اگر حضرت علامہ خیرآبادی نے کفرکلامی کا فتویٰ دیا تھا اور امام احمد رضا قادری نے اس کفر کلامی کے فتویٰ سے اختلاف کرکے کفر فقہی کا فتویٰ دیا ہوتو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ حضرت علامہ خیرآبادی کا کفر کلامی کا فتویٰ اصول شرع کے مطابق غلط ہو،ورنہ اختلاف کی گنجائش نہیں۔

حضور شارح بخاری علیہ الرحمۃوالرضوان نے محض ایک عقلی احتمال کا ذکرفرمایاہے۔ یہ اہل سنت وجماعت کا موقف نہیں۔ہمارا موقف وہی ہے کہ حضرت علامہ خیرآبادی قدس سرہ نے تکفیر فقہی کی تھی اور امام احمد رضا قادری نے اسے تسلیم کیااور اسماعیل دہلوی کو کافر فقہی مانا۔

ایک قول پر کفر کلامی وکفر فقہی کا فتوی

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علامہ خیرآبادی قدس سرہ العزیز نے کفر کلامی کا فتویٰ دیا تھا،اور وہ فتویٰ صحیح بھی تھا،پھر امام احمد رضا قادری نے دہلوی کی تکفیر فقہی کی تو یہ بات صحیح نہیں۔

ایک ہی کلام پرپہلے کفر کلامی کا فتوی اوربعد میں کفر فقہی کا فتویٰ دیا جائے تو دونوں فتویٰ صحیح نہیں ہوں گے۔ان میں سے ایک فتویٰ غلط ہوگا،او ر دوسرا فتویٰ صحیح ہوگا۔

اس کے برعکس صحیح ہوسکتا ہے کہ پہلا فتویٰ کسی احتمال کے سبب کفر فقہی کا ہو۔اس احتمال کے دور ہونے کے بعد اسی مفتی یاکسی دوسرے مفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ دیا ہو۔

مثلاً زید نے جماعت مسلمین اور مفتی کے سامنے اپنے ہوش وحواس میں بلا جبرواکراہ کسی ضروری دینی کا انکار بطریق نص کیا،یعنی وہ قول ضروری دینی کے انکارمیں صریح متبین تھا،جس میں عدم انکار کا احتمال بعید تھا،مفتی کے سمجھانے پر اس نے توبہ کی بجائے اصرار کیا اور مفتی نے احتمال فی الکلام کے سبب کفر فقہی کا فتویٰ دیا۔

پھر اسی مفتی نے یا کسی دوسرے مفتی نے قائل سے اس قول کی توضیح دریافت کی۔ متکلم نے مفتی اور جماعت مسلمین کے سامنے اپنے قول کی ایسی توضیح کی کہ وہ قول کفری معنی میں مفسر ومتعین ہوگیا،یعنی ضروری دینی کا انکار صریح متعین ہوگیا۔اب اس مفتی نے زید پرکفر کلامی کا فتویٰ دیا تو یہاں دونوں فتویٰ اپنے مبنی کے اعتبار سے صحیح ہیں۔

یہ ایک امکانی صورت ہے کہ کفر فقہی کے بعد کفر کلامی کا فتویٰ عائد ہو۔ہاں، کفر کلامی کے فتویٰ کے بعد پہلے فتویٰ کا حکم کالعدم اور منسوخ ہوجائے گا، اور مجرم کوکافر کلامی ماننا ہوگا۔

عذر کی صورتوں کا حکم الگ ہے۔مثلاًکسی کو یہ خبر ہی نہ ہوسکی کہ بعدمیں تحقیق صحیح کے بعدزید پر کفر کلامی کا حکم عائد ہواہے اوروہ لاعلمی کے سبب ملزم کوکافرفقہی سمجھتا رہا تو یہ آدمی لاعلمی کے سبب معذور ہے۔

سوال : کفر کلامی کے فتویٰ کے بعدکسی دوسرے مفتی کویا اسی مفتی کوکلام،تکلم اور متکلم میں کوئی احتمال نظر آیا،جس کے سبب کفرکلامی کے فتویٰ کے بعد کفر فقہی کا حکم دیا تو کیا حرج ہے؟

جواب : جب کفر کلامی کے فتویٰ کے بعداحتمال نظر آیاتو پہلا فتویٰ صحیح نہیں تھا۔ بطور لغزش کفر کلامی کا فتویٰ صادر ہوگیا تھا،پس وہ ایک غلط فتویٰ تھا،وہ کفرکلامی کا فتویٰ نہیں تھا۔

اگر کفرکلامی کا پہلافتویٰ صحیح ہے تو ملزم کافر کلامی ہے اور کافر کلامی کو کافرماننا ضروریا ت دین میں سے ہے۔کسی تاویل کے سبب ضروری دینی کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔فتویٰ صحیح ہونے کی صورت میں خود اس مفتی کو بھی انکارواختلاف کا حق نہیں،جس نے فتویٰ دیا ہے۔

ضروری دینی کا ظنی علم ہو تو بھی ماننا ہے اور قطعی علم ہوتو بھی ماننا ہے۔ ظنی علم ہونے پر ضروری دینی کا انکار کیا تو تضلیل ہوگی اور قطعی علم ہونے کے بعد انکار کیا تو تکفیر ہوگی۔

کفرکلامی کا مطلب یہ ہے کہ ملزم اسلام سے بالکل خارج ہے۔کفر فقہی کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کا ضعیف سا تعلق اسلام سے باقی ہے اوروہ اسلام سے بالکل خارج نہیں۔

ایک ہی قول پر دوفتویٰ کے سبب ایک ہی قول سے اسلام سے خروج اور عدم خروج دو امر ثابت ہورہے ہیں۔ یہ اجتماع متضادین ہے،اور یہ محال ہے اور یہ محال اس لیے لازم آیا کہ ایک ہی قول سے متعلق دونوں فتویٰ کو صحیح تسلیم کیا گیا، اور جس سے محال لازم آئے،وہ خود محال ہوتا ہے،لہٰذاایک ہی قول پرکفر فقہی وکفر کلامی کا فتویٰ بیک وقت صحیح نہیں ہوگا۔ایک صحیح اور ایک غلط ہو گا۔

نیز قطعیات میں ایک ہی قول حق ہوتا ہے۔ کفر کلامی میں ضروری دینی کا انکار قطعی بالمعنی الاخص ہوتاہے۔اگر وہاں انکار قطعی بالمعنی الاخص ہے تو کفرکلامی ہوگا۔وہاں کفر فقہی کی صورت نہیں، مثلاً زید نے ہزاروں کے مجمع میں ہوش وحواس میں اپنے قصدورضا سے بلا جبرواکراہ کے کہا کہ معبود ایک نہیں،بلکہ دوہے۔

ایک اللہ اور ایک شیطان۔مجمع عام میں اس سے توبہ کا مطالبہ ہوا،لیکن اس نے توبہ نہ کی،بلکہ اپنے کلام پر اصرار کرتا رہا۔

اب کسی مفتی کو اس مجمع میں شریک بہت سے افرادنے بتایا کہ زید نے مجمع عام میں ہزاروں کے سامنے اپنے قصدورضا سے ایسا کہاہے۔مجمع عام ہی میں توبہ کا مطالبہ ہوا،لیکن اس نے توبہ سے انکار اور اپنے قول پر اصرار کیا، لیکن زیدکا وہ خاص کفریہ کلام صرف تین آدمی نے مفتی کے سامنے بیان کیا اور نقل کیا۔دیگر حضرات نے صرف ایسا مفہوم بیان کیا تھا۔جس مفہوم میں مفتی کو احتمال بعید نظر آیا۔

اس صورت میں مفتی کو کلام ومتکلم میں احتمال نہیں،صرف تکلم میں احتمال بعید ہے,کیوں کہ بعینہ وہ کفری قول مفتی کو تواتر سے دستیاب نہ ہو سکا۔

چوں کہ مفتی کے سامنے صرف تین ہی آدمی نے اس کفری قول کو بعینہ نقل کیا تو مفتی کو خبر متواتر سے یہ قول نہیں مل سکا۔دیگر حضرات نے مفتی کے سامنے محض مفہوم بیان کیاجس میں مفتی کو احتمال بعید نظر آیا۔اس عذر کے سبب اس نے کفر کلامی کا فتویٰ نہیں دیا،بلکہ کفر فقہی کا فتویٰ دیا۔

زید مذکورہ صورت میں یقیناکافر کلامی ہے،لیکن مفتی کا فتویٰ ناقص تحقیق پر مبنی ہے۔ ظنیات میں ایسے فتویٰ پر عمل کی اجازت ہوگی۔قطعیات میں ایسے فتویٰ پر عمل کی اجازت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس میں ملزم کا اصل حکم شرعی بیان نہیں ہو سکا،گر چہ مفتی معذور قرار پائے۔

قطعیات میں نفس الامر اوردلیل قوی کے اعتبارسے کسی امر کی حیثیت کا تعین ہوگا،نہ کہ تحقیق ناقص کے اعتبار سے۔

قطعیات میں ایک قول حق ہوتا ہے،اس کے علاوہ سب باطل۔ ظنی و اجتہادی مسائل میں مختلف اقوال پر عمل کی اجازت ہوتی ہے،گر چہ وہاں بھی مسلک صحیح کے مطابق عنداللہ ایک ہی قول حق ہوتا ہے،گر چہ دیگر اقوال پر عمل کی اجازت ہو۔

سوال : ایک آدمی کا دو کلام ہے۔ایک کے اعتبار سے وہ کافر فقہی ہے۔ایک کے اعتبارسے وہ کافر کلامی ہے تو یہاں دونوں کفر جمع ہوگئے اور اس شخص کا اسلام سے خروج اور اسلام میں ضعیف احتمال کے سبب دخول دونوں لازم آئے اوریہ اجتماع متضادین ہے؟

جواب : یہاں دو قول کے اعتبارسے دو حکم آیا۔ قطعیات میں دلیل قوی کے اعتبارسے کسی امر کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے،مثلاً نماز پنج گانہ کی فرضیت تواتر کے ساتھ مروی ہے اور احادیث آحاد میں بھی اس کا ذکر ہے۔خبرمتواتر سے جوثابت ہو، وہ ضروری دینی ہوتا ہے اور جو خبر واحد سے ثابت ہو،وہ ظنی ہوتا ہے۔چوں کہ یہاں نماز پنج گانہ کی دودلیل ہوگئی اور خبر متواتر قوی دلیل ہے تو اس اعتبارسے نماز پنج گانہ کوضروری دینی قرار دیا جائے گا۔گرچہ اس کا ذکر خبر واحد میں بھی ہے۔

کفر کلامی میں ضروری دینی کا انکار قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے اورعدم انکار کا احتمال نہیں ہوتا اور کفرفقہی میں عدم انکار کا احتمال ہوتا ہے،خواہ احتمال بعید ہو، جیسے کفر فقہی قطعی میں یا احتمال قریب ہوجیسے کفر فقہی ظنی لزومی میں۔ پس انکار قطعی بالمعنی الاخص کے اعتبارسے ملزم کو اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔یعنی دلیل قوی کے اعتبار سے حیثیت کا تعین ہو گا۔

ماقبل میں یہ بحث تھی کہ ایک ہی قول پر دوقسم کا حکم بیان کیا گیا اورایک ہی قول کی بنیاد پر اسلام سے خروج اورعدم خروج دونوں ثابت کیا گیا۔ا ب اس قول کی بنیادپر ملزم یا تو خارج اسلام ہوگا یا خارج نہیں ہوگا۔ایک ہی قول سے متعلق بیک وقت دونوں حکم صحیح نہیں ہوسکتے، ورنہ اجتماع متضادین لازم آئے گا۔

یہاں دوقول کی بنیادپر دوحکم ہے۔یہ صورت الگ ہے،وہ صورت الگ۔دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہے۔

سوال : جب دو قول کی بنیاد پر ایک ہی ملزم پر دوحکم عائد ہو، ایک حکم سے وہ اسلام سے کلی طورپر خارج ہوجائے،دوسرے قول کے سبب اسلام سے خارج نہ ہوتو اس کواسلام سے خارج مانا جائے یااسلام میں داخل؟

جواب : دلیل قوی کے اعتبارسے ملزم کی حیثیت کا تعین ہوگا۔نماز پنچ گانہ کی مثال ماقبل میں مرقوم ہوئی۔جب وہ کافرکلامی ہے تو اس سے کسی ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاخص انکار ہوا ہے۔

قطعی بالمعنی الاخص،ظنی سے بھی قوی ہے اور قطعی بالمعنی الاعم سے بھی قوی ہے،پس قطعی بالمعنی الاخص انکار کے لحاظ سے ملزم کو اسلام سے خارج مانا جائے گا۔ دیگر جرائم بھی ثابت ہیں تو ملزم کو ان جرائم کا مجرم بھی مانا جائے گا۔

تحریر : طارق انور مصباحی
مدیر :ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر : افکار رضا

قسط وار مضمون : مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟  ضرور پڑھیں

ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں 

اس کو بھی پڑھیں: گمراہ کافرفقہی وکافر کلامی کی نمازجنازہ

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن