تحریر: ابو حمزہ محمد عمران مدنی رسول اللہ ﷺ کے چار یاروں نے بوقت وصال کیا کہا
رسول اللہ ﷺ کے چار یاروں نے بوقت وصال کیا کہا
پیارے دوستوں ! وہ چار یارانِ مصطفی ﷺ جنہیں رسول اللہ ﷺ کا خاص قرب ملا ، جنہیں رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی نیابت ملی اور جنہیں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی ، جن کی عظمت و شان میں کثیر فرامین جاری فرمائے۔ وہ چار یار کہ جو ان سے محبت کرے اللہ پاک اس سے محبت کرتا ہے ۔ بقول امام اہل سنت
جناں بنے گی محبانِ چار یا رکی قبر
جو اپنے سینےمیں یہ چار باغ لے کے چلے
لیکن اس کے باوجود اللہ پاک سے یہ لوگ کس قدر زیادہ ڈرا کرتے تھے اس مضمون میں ملاحظہ کریں سچ ہے کہ جو اللہ پاک کی جتنی زیادہ معرفت رکھتا ہے اسی قدر زیادہ اللہ پاک سے ڈرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں تم سب سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھتا ہوں اور میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت ابوالملیح رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:جب حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وِصال کا وقت قریب آیا ، تو اُنہوں نے حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھجوایا ، اُن کے حاضر ہونے کے بعد آپ نےفرمایا:میں تمھیں وصیّت کرتا ہوں ،اگر تم میری وصیّت کو قبول کرو۔
بلاشبہ رات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق ہیں جنہیں وہ دن میں قبول نہیں کرے گا۔اور یقینا دِن میں اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق ہیں جنہیں وہ رات میں قبول نہیں کرے گا۔اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نفل قبول نہیں کرتا ، جب تک فرض کوادا نہ کرلیا جائے ۔
کیا تم نے نہ دیکھا کہ پلّہ اُن کا بھاری ہے جن کی دنیا میں اتّبا عِ حقّ کے سبب آخرت میں تولیں بھاری ہوں گی اور میزان اُن کے حقّ بھاری ہوجائے گا۔
اور میزان کا حقّ یہ ہے کہ اُس میں وہی حقّ رکھا جائے جو اُسے بھاری کر دے ۔کیا تم نے نہ دیکھاکہ اُس کا پلّہ ہلکا ہے جن کی دنیا میں اِتّباعِ باطل کرنے کے سبب آخرت میں تولیں ہلکی ہوں گی ۔
اور میزان اُن کے حقّ میں ہلکا ہو جائے گا اور(اُن کے) میزان کا حقّ یہ ہے کہ اُس میں باطل ہی رکھا جائے کہ وہ ہلکا پڑ جائے ۔کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آیتِ شدّت کو نازل کرنے کے ساتھ آیتِ رجاء کو بھی نازل فرمایا ۔ اور آیتِ رَجاء کو نازل کرتے وقت آیتِ شدّت کو بھی نازل فرمایا تاکہ بندہ پُر امید بھی رہے اور خائف بھی ۔
ور خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں نہ ڈالے ۔اللہ تعالیٰ سے سوائے حقّ کے کچھ تمنّانہ کرے۔ اگر تم میری اِس وصیّت کو یاد رکھو گے تو موت سے بڑھ کر کوئی دوسرا اجنبی تمہیں محبوب نہ ہوگا ۔ اور(یاد رہے)موت سے چھٹکا را نہیں ۔ اور اگر تم نے میری اِس وصیّت کو ضائع کر دیا ، تو موت سے زیادہ کوئی دوسرا اجنبی تمہیں نا پسند نہیں ہوگا۔ (تاریخ دمشق ،ج:۳،ص:۴۱۴)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:مجھ سے میرے والدِماجد رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا:تم نے کس چیز میں رسول اللہ ﷺکو کفنایا؟میں نے عرض کیا:تین کپڑوںمیں۔
ارشاد فرمایا: میرے اِن دو کپڑوں کو دیکھ لو! انہیں دھو لینا ! وہ دونوں کپڑے پیوندار تھے ۔ پھر فرمایا: میرے کفن کے لیے ایک ستھرا کپڑا خرید لینا! اور مہنگا مت خریدنا! میں نے عرض کیا:ابّا جان!ہم کشادگی میں ہیں ،ہم پر وُسعت کر دی گئی ہے۔
یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے میری بیٹی! زندہ شخص ، میّت کے مقابلے میں نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور یہ کفن توخون و پیپ سے آلودہ ہو کر رہ جائے گا۔ (تاریخ دمشق ،ج:۳،ص:۴۱۴)
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:میرے والدِ گرامی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی یہ وصیت تحریر فرمائی:بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم یہ وہ باتیں ہیں جن کی ابو بکر بن ابو قحافہ نے دنیا سے جاتے ہوئے وصیّت کی اُس وقت کہ جب کافر بھی ایمان لے آتا ہے ، اور فاجر بھی باز آجاتاہے ۔اور جھوٹا سچ کہتا ہے ۔
میں تم پر حضرت عمر بن خطاّب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بناتا ہوں ۔ تو اگر وہ عدل سے کام لیں اور میرا اُ ن سے یہی گمان ہے۔
اور مجھے اُن سے یہی اُمید ہے ۔اور اگر وہ ظلم ڈھائیں اور بدل جائیں ، تو مجھے غیب کا علم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ، اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کی ، اور بدلہ لیا بعد اِس کے کہ اُن پر ظلم ہوا ۔ اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔
ابو حفص حضرت سیّدنا عمر بن خطاّب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں:جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حملہ میں زخمی ہوئے ، تو میں نے اُن کا سرِاقدس اپنی گود میں لے لیا۔
انہوں نے مجھ سے فرمایا: میرا سر زمین پر رکھ دو !حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں نے گمان کیاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخم کی تکلیف محسوس کر رہے ہیں ،اس لیے یہ بات کہہ رہے ہیں۔
میں نے اُن کے حسبِ حکم کام نہیں کیا ،تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔تیری ماںنہ ہو! (لا امِّ لک یہ کلمہ بطورِمذّمت کہا جاتا ہے)میرے رُخسار کو زمین پر رکھ دے !میری اور میری ماں کی ہلاکت ہو گی ،اگر اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت نہ فرمائی۔ (تاریخ دمشق ،ج:۳،ص:۴۴۴۔۴۴۵)
امام شعبی علیہ الرحمۃ بیان کر تے ہیں:جب حضرت عمر فاروق ا عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتلانہ حملہ میں زخمی ہوئے ، تو حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے پاس حا ضر ہو ئے ، اور عرض کیا: اے امیر المومنین ! رضی اللہ تعالی عنہ جب لوگوں نے کفر کیا ، آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت ایمان لے آئے ۔
جب لوگوں نے حضور ﷺ کی مددسے ہاتھ کھینچ لیے ، اُس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ کی معیّت میں جہاد کیا ۔اور اب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت نصیب ہو رہی ہے ۔
اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں دو اَفراد کا بھی اختلاف نہیں ہوا۔حضور ﷺ نے اِس حال میں وفات پائی کہ وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی تھے ۔
یہ باتیں سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے فرمایا :اپنی اِن باتوں کو میرے سامنے دُہراؤ!آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ اُن باتوںکو دُہرادیا ۔یہ باتیں سن کر (بطورِ عجز و اِنکسار)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:وہ شخص دھوکے میں مبتلا ہو گا ، جسے تم بیجا(اُسکے نیک اعمال کی)اُمیدیں دلاؤگے ۔
اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس وہ سب کچھ ہوتا ، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے ، یا غروب ہوتا ہے ،تو بروزِ قیامت اُٹھائے جانے کے خوف سے ، میں وہ سب کچھ فدیہ میں دے دیتا۔(تاریخ دمشق ،ج:۳۹،ص:۴۴۴۔۴۴۵)
حضر ت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت علاء بن فضل رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والدِگرامی سے نقل کرتے ہیں:جب حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہیدکر دیا گیا ،تو باغی لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خزانوں کی تلاش شروع کر دی ، اُن لوگوں نے اس میں ایک بند صندوق پایا۔
جب اُس صندوق کو کھولا گیا ، تو اُس میں اُنہوں نے ایک ڈبّا پایا،جس میں ایک ورق رکھا تھا ، جس پر لکھا تھا:یہ عثمان بن عفّان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی وصیت ہے: بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم!عثمان بن عفّان ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ)اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اُس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اُس کے بندے ، اور رسول ہیں۔
اور جنّت حقّ ہے ۔ اور دوزخ حقّ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اُس دن کے جس کے آنے میں کچھ شُبہ نہیں،مُردوں کو قبر وں سے اٹھائے گا ۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا ۔اِسی وصیّت پر عثمان بن عفّان زندہ ہے ۔ اور اِسی پر مرے گا ۔اور اِسی پر اٹھایا جائے گا۔ان شاء اللہ (تاریخ دمشق ،ج:۳۹،ص:۴۴۴۔۴۰۱)
حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
امام شعبی علیہ رحمۃاللہ ِالقوی فرماتے ہیں:جب حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو وہ ضربِ کاری لگا ئی گئی ، جس کے سبب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وِصال ہوا ، تو اُس حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا: مجھے زخمی کرنے والے شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے؟ صحابہ کرام علیھم الرّضوان عرض گزار ہوئے :ہم نے اُسے پکڑ لیا ہے ۔
توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:اُسے کھانے میں سے کھلاؤ۔اور میرے پینے کے پانی سے پلاؤ!اگرمیں زندہ رہا تو اُس کے بارے میں اپنی رائے کے مطابق عمل کروں گا ۔ اور اگر میں مر جاؤں تو اُسے ایک ہی وار میں مار ڈالنا!اُس پر ایک سے زیادہ وار مت کرنا !۔
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دینے کی ، اورگرا ں قدرکفن نہ خریدنے کی وصیّت کی۔اورارشادفرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کفن کے معاملے میں غلو نہ کرو کہ بلاشبہ یہ بہت تیزی سے سلب کرلیا جاتا ہے۔
پھر فرمایا :مجھے درمیانی چال کے مطابق لیکر قبرستان کی طرف چلنا ۔نہ تو مجھے تیزی سے لے جانااور نہ سُست روی سے ۔اگر میرا ٹھکانہ بہتر ہے تو مجھے جلدی اس کی طرف لیے جا رہے ہو۔ اور اگر وہ بُرا ہے ، تو تم مجھے (جلد) اپنے کندھوں سے اُتار رہے ہو گے ۔(سنن ابی داود ،رقم:۳۱۴۵،)
تحریر: ابو حمزہ محمد عمران مدنی
کراچی ، پاکستان
رابطہ : 03170263320
اس مضمون کو بھی پڑھیں: حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ