تحریر: طارق انور مصباحی مہنگے جلسوں کی تعداد کم کریں
مہنگے جلسوں کی تعداد کم کریں
مبسملا وحامدا :: ومصلیا ومسلما
مہنگے جلسوں میں یقینی طور پر پیشہ ور خطبا و مقررین کو مدعو کرنا ہو گا۔پیشہ ور مقررین کا نیچر سب کو معلوم ہے کہ وہ ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ اس شہر میں بار بار بلکہ ہزار بار ان کو مدعو کیا جائے۔
وہ مجمع کو خوش کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔فروغ دین وتبلیغ مذہب کو ثانوی درجہ میں رکھتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دین کی ترویج وتبلیغ کے جذبہ سےعاری ہوتے ہیں,نیز اکثر پیشہ ور مقررین ضخیم لفافہ کے متمنی ہوتے ہیں۔
صالح فکر عالم دین جو خطیبانہ وجاہت کے ساتھ قوم کی اصلاح کا جذبہ رکھتے ہوں,ان کو مدعو کیا جائے,نیز دعوت کے وقت ہی ہر خطیب کو موضوع خطابت سے مطلع کر دیا جائے۔
ایک رواج یہ بھی بن چکا ہے کہ چند مقررین ایک گروپ بنا لیتے ہیں اور ایک کو دعوت دی جائے تو وہ اپنے گروپ کو مدعو کرنے کے لئے زور ڈالتے ہیں۔اگر ایسا گروپ قوم کی اصلاح و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کا عادی ہو تو ٹھیک ہے,ورنہ ایسے گروپ بازوں سے پرہیز کیا جائے۔
قوم کے درمیان صرف دو طبقہ نظر آتا ہے۔ائمہ مساجد اور خطبا و مقررین۔ان دونوں طبقہ کو تربیت یافتہ اور صالح فکر ہونا چاہئے۔
پیران کرام بھی مریدین کے درمیان آمد و رفت رکھتے ہیں۔یہ نفوس عالیہ بھی تبلیغ دین متین کی جانب متوجہ رہیں تو بہت اچھا ہو۔بعض پیران عظیم الشان تو محض یہ نعرہ مستانہ لگاتے پھرتے ہیں
بھر دو جھولی میری یا مریدو!۔
کبھی ہم بھارت میں اسی فی صد تھے۔اب ہماری تعداد مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔اس کا ایک حد تک ذمہ دار وہ طبقہ ہے جو قوم کی رہنمائی کے لئے ان کے درمیان اقامت گزیں ہو,یا ان کے درمیان آمد ورفت رکھتا ہو۔
پیشہ ور مقررین کو پس پشت ڈالیں اور آس پاس کے ائمہ مساجد کو جلسوں میں مدعو کریں۔جلسہ کے اخراجات بھی کم ہوں گے اور ائمہ مساجد کے لئے بھی بھلائی کی راہ ہم وار ہو گی۔
پیر ہو یا مقرر۔یہ حضرات چند لمحوں کے لئے کہیں جلوہ گر ہوتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔زمینی سطح پر ائمہ مساجد ہی کام کرتے ہیں۔ان کو حوصلہ دیا جائے۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے۔
بوقت ضرورت ان کی اصلاح کی جائے۔بسا اوقات بعض ائمہ پوری قوم کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔بد مذہبوں سے میل جول اور ان سے روابط استوار کر لیتے ہیں اور قوم کو اعتدال کی دعوت دیتے پھرتے ہیں۔
آس پاس کے اسلامی مدارس کے اساتذہ کرام پر بھی نظر شفقت رکھی جائے۔ان کی کفالت کی بھی کوشش کی جائے۔ ارباب مدارس بھی ان کی حالت زار پر ترس کھائیں۔ ان کا مشاہرہ بھی درست رکھیں اور خوراک بھی۔
فارغین مدارس بھی معیشت کی جدید راہیں تلاش کریں۔ جہاں جائیں، وہاں تبلیغ اسلام وسنت کرتے رہیں۔اس پر ثواب ملے گا ۔ اجرت لے کر تدریس وتعلیم پر ثواب کہاں؟
اکثر مدارس میں خورد ونوش کا حال ہے کہ : آلو بیگن کھاؤ۔ملاحسن پڑھاؤ
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر، ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر : افکار رضا
آو اپنی اصلاح کریں قسط وار مضمون ضرور پڑھیں
آواپنی اصلاح کریں
قسط چہارم پڑھنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع