از قلم: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی زندگی رب کی امانت ہے
زندگی رب کی امانت ہے
یہ سفر نہ جانے کب ختم ہوگا،کب منزل تک پہنچ پائیں گے،سفر یوں بھی مشکل ہوتا ہے، پریشانیاں ہوتی ہیں، مسافر منزل کی تلاش میں رواں دواں ہے۔
لیکن حقیقی منزل تو یہ دنیاوی سفر مکمل کرنے کے بعد ملتی ہے۔جہاں پہنچ کر سفر ختم ہوتا ہے،جہاں پہنچنے کے بعد کوئی مسافرواپس نہیں آتا ہے۔سفر کی مدت معلوم نہیں ہے۔
کسی کا سفر دراز ہوتا ہے توکسی کا بہت مختصر، سفر آسان تبھی ہوگا جب سامانِ سفر کم ہو،ورنہ سامان کے بوجھ سے سفر کی ہلاکت خیزیاں قدموں کو بوجھل کر دیتی ہیں۔
اس لیے کام یاب سفر کے لیے سامان کم رکھیں،امیدیں کم رکھیں،خواہشیں کم رکھیں، نگاہیں صرف منزل کی طرف ہوں اور قدم منزل کی سمت گامزن ہو۔
یہ زندگی بھی مثل ِسفر ہے۔اس دنیامیں بہت سارے مسافر آئے اور اپنا سفر مکمل کرکے منزل تک پہنچ گئے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان عالی شان امتیوں کے لیے بڑی نصیحت ہے:۔
عن عبداللّٰہ بن عمر: أخذ النَّبیُّ ﷺ ببعضِ جسدی وقال: کُنْ فی الدُّنیا کأنَّک غریبٌ أو عابرُ سبیلٍ وعُدَّ نفسَک فی الموتیٰ (صحیح بخاری(۶۴۱۶)سنن ِ ترمذی (۲۳۳۳)ومسندِ احمد (۴۷۶۴))
ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے،نبی کریم ﷺ نے میرے جسم کا ایک حصہ پکڑ کر فرمایا کہ اس دنیا میں اجنبی کی طرح رہو یا راہ چلتے مسافر کی طرح اور اپنے کو مردہ لوگوں میں شمار کرو۔
اس حدیث پاک میں نبی معظم ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ اس دنیا میں اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح رہو جو دنیا والوں سے یا سامان دنیا سے جی نہیں لگاتا اور صرف ضرورت بھر توشہ اختیار کرتا ہے اور پھر فرمایا کہ اپنے آپ کو مردہ لوگوں میں شمار کرو،یعنی ہمیشہ موت کے لیے تیار رہو۔
کیا پتا فرشتہ اجل کب دستک دے دے اورہم بے بس و لاچار بغیر توشہ لیے رب کے حضور ہو جائیں۔
رب کریم کی عظیم بارگاہ میں اگر ہم بغیر توشہ لیے حاضر ہوگیے تو یہ ہماری بڑی محرومی ہوگی،کیوں کہ یہ دنیاوی زندگی رب کی امانت ہے، تو اس کی امانت اسی حال میں واپس کرنا ہے جیسی اس نے امانت دی تھی۔
غور کریں کہ جب ہم اس دنیا میں آئے تو ہم پر گناہوں کا بوجھ نہیں تھا،ہمارے نامہ اعمال صاف و شفاف تھے لیکن جب ہم رب کے حضور حاضر ہو رہے ہیں تو ہماری کیا حالت ہے؟کیا ہم ویسی امانت لوٹا رہیہیں جیسی ہمیں ملی تھی؟۔
تو ضروری ہے کہ ہم زندگی جیسی عظیم امانت کی حفاظت کریں،اس کو رب کی نافرمانیوں میں نہ گزاریں،بلکہ اللہ و رسول کی مرضی کے مطابق گزاریں،اسی میں دنیا وآخرت کی کام یابی ہے۔
موت کی آسانی کا نسخہ: یوں تو ہر شخص دنیا کے ہر کام میں آسانی چاہتا ہے اور سختی سے گھبراتا ہے لیکن موت کی سختی دنیا کی تمام سختیوں سے بڑی سختی ہے، نبی کریم ﷺ نے موت کی آسانی کا نسخہ بیان فرمایا:۔
’’عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ ﷺ‘‘ أَکْثِرُوا ذِکْرَ الموتِ، فما من عَبْدٍ أَکْثَرَ ذِکْرَہُ إلا أَحْیی اللّٰہُ قَلْبَہُ وہَوَّنَ علیہ الموتَ ‘‘(أخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس: ۱/۷۴)۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشادفرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کرو،تو جو بندہ موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے اللہ عزوجل اس کے دل کو زندہ کر دیتا ہے اور اس پر موت کو آسان کر دیتا ہے۔
اس حدیث پاک سے ہمیں موت کو یاد کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔بندہ اس دنیا موت سارے کام کرتا ہے ساری تیاری یاد رہتی ہیں لیکن موت کی تیاری یاد نہیں رہتی جب کہ اسے یہ بھی پتا نہیں کہ کب تک جیے گا ؟۔
ہم نے دیکھا کہ اس عالمی وبا کورونا سے ہمارے بہت سارے عزیز یہ دنیا چھوڑ چلے۔ بعض تو ان میں بالکل جوان اور تندرست تھے لیکن موت کے لیے کیا تندرست پہلوان کیا بیمار،کیا غریب کیا مالدار سب برابر ہیں۔
گزشتہ چند مہینو ں میں جماعت اہل سنت کے مشائخ اور اکابر علماے کرام کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا تمام اہل سنت کے لیے غم کا سبب ہے، ہم میں سے اکثر کے والدین،رشتے دار،اساتذہ،دوست احباب بھی کثیر تعداد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
ان میں بعض ماہرین علوم بھی تھے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے درجنوں پروفیسران داغ مفارقت دے گئے، جس سے قوم و ملت کا بڑا علمی نقصان ہوا، اللہ پاک اس کی جلد سے جلد سے بھرپائی فرمادے۔
پوری دنیا میں کثرت سے موتیں ہو رہی ہیں،سیریا،فلسطین اور بہت سارے ممالک میں لوگ ظلم و تشدد کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا رہے ہیں
ہمارے ملک میں بھی آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں،کثیر تعداد میں لوگ رخصت ہورہے ہیں۔
لیکن ابھی بھی اللہ پاک نے ہمیں مہلت دی،زندگی جیسی عظیم نعمت کو بحال رکھا ہے،سانس کی موتیوں کی مالا ٹوٹنے سے پہلے ہمیں اپنی تیاری کر لینی چاہیے، نہ جانے کب بلاوا آجائے،اگر تیاری رہے گی تو سرخروئی ہمارا مقدر ہوگی،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اخیر میں اللہ عزوجل اس دنیا سے رخصت ہونے والے تمام مومنین و مومنات کی اپنے فضل خاص سے بے حساب مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل اوراس پر ڈھیروں اجر عطا فرما، آمین۔
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات،علی گڑھ
7860561136
ان مضامین کو بھی پڑھیں
فکر اسلامی کی تشکیل اور پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
کربلا کی دردناک داستاں صحیح تاریخ کی روشنی میں
پیغام کربلا شہادت امام حسین اعلان حق کا استعارہ ہے
فضائل اہل بیت وپنجتن پاک حادثہ کرب وبلا
محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم
ماہ محرم الحرام اور آج کا مسلمان